پاکستان پر  فوجی اور معاشی  پابندیوں  کے امکانات

Asif-Javaid4

آصف جاوید

جنوبی ایشیاء  کی علاقائی تعاوّن کی تنظیم سارککی  سربراہ کانفرنس، جو اس سال نومبر کے مہینے  میں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد  میںمنعقد ہونے والی تھی، پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق منسوخ کردی گئی ہے۔  وجہ اس کی جو  بھی بیان کی گئی ہو، مگر دنیا کو پتا ہے کہ انڈیا کے علاقے اوڑی کے فوجی کیمپ پر دہشت گرد حملے، اور 18 جوانوں کی شہادت  کے بعد، انڈیا کی طرف سے پاکستان کو ذمّہ دار ٹھہرانے ، اور سارک کے دوسرے ممبر ممالک  بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، اور بھوٹان نے بھی  پاکستان کے کردار اور دہشت گرد گروپوں، جہادی تنظیموں اور لشکروں کی  تربیت اور سرپرستی پر اپنے شکوک و شبہات اور بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ انڈیا کے بعد تو بنگلہ دیش نے  بھی اعلانیہ پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے معاملے پر ایک دوسرے کے سپورٹرز ہیں۔

پاکستان اس وقت بدترین سفارتی اور عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ انڈیا سے پاکستان کی چار جنگیں ہوچکی ہیں۔  پاکستان کی انڈیا سے ازلی دشمنی ہے۔  افغانستان، پاکستان کو براہِ راست اپنے ملک میں دہشت گردی اور بے چینی کا ذمّہ دار قرار دیتا ہے۔افغانستان نے پاکستان کا پانچواں صوبہ بن کر رہنے خواہش پر سخت ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ ایران کے معاملے میں سعودی عرب کی مخاصمت  اور  پاکستان کی طرف سے سرحدی پابندیوں کی خلاف ورزی اور  پاک۔ایران گیس پائپ لائن منصوبے  کی پاکستان کی طرف سے  اچانک  اور بلاوجہ منسوخی کی وجہ سے ایران سے پاکستان کے تعلّقات شدید سردمہری  اور  بد نیتی پر قائم ہیں ۔

سعودی عرب پاکستان کو ایک زرخرید لونڈی کی طرح استعمال کرتا  رہا ہے۔  اس ہی لئے بہانے بہانے پاکستان کی معاشی  مدد اور فوجی  سازوسامان کی خریداری  کے لئے رقم بھی دیتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اپنی اسلامک کارپوریٹ ورلڈ ، حج و عمرے کے کاروبار کو  فروغ اور توسیع دینے اور سلفی  تکفیری ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے ، جہادی ملّاوں اور مدرسوں کی مالی امداد کرتا رہا ہے۔  یمن کے معاملے میں پاکستان کی طرف سے فوج نہ بھیجنے کے معاملے پر  سعودی عرب ، پاکستان سے سخت ناراض ہے۔ متّحدہ عرب امارات کے نائب وزیرِ خارجہ ، اپنے دورہِ پاکستان میں پاکستان کو سعودی عرب فوج نہ بھیجنے پر سخت ترین نتائج بھگتنے کی اعلانیہ دھمکی بھی دے چکے ہیں۔

جب  کہ امریکہ سمیت تمام بڑی عالمی  طاقتیں پاکستان کو دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی پر انتباہ بھی دے چکی ہیں۔  صرف چین ہی وہ واحد ملک ہے جو فی الحال پاکستان کا دوست ہے، مگر کشمیر کے معاملے پر چین غیر جانبدار ہے۔ چین سے پاکستان کی دوستی صرف اور صرف معاشی مفادات کے مرہونِ منّت ہے۔ پڑوسی ممالک سے دشمنی اور مخاصمت کے معاملے پر چین کی پاکستان کو کوئی حمایت حاصل نہیں۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اس وقت سفارتی سطح پر عالمی تنہائی کا شکار ہے۔

ریاست پاکستان کے اندرونی حالات بھی درست نہیں ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن  ضربِ عضب جاری ہے۔  دیہی سندھ میں سندھی قوم پرست پنجاب کی غلامی سے آزادی کے لئے بے چین بیٹھے ہیں، شہری سندھ میں فوج کی نگرانی میں رینجرز کے نیم فوجی دستوں کی طرف سے سندھ کے شہری علاقوں کے شہریوں  پر بدترین ریاستی دہشت گردی کا عذاب جاری ہے۔  شہری سندھ میں میں اکثر تعداد ان مہاجروں کی  ہے، جن کے آباو اجداد نے غیر منقسم پاکستان میں قیامِ پاکستان کی تحریکیں چلائی تھیں اور پاکستان کی خاطر اپنی زمین و جائیداد ، اپنے مال مویشی  یعنی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان ہجرت کی  تھی اور سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔

ایک مذموم منصوبے کے تحت 1972 میں سندھ کو شہری اور دیہی سندھ میں تقسیم کرکے مہاجروں پر سرکاری ملازمتوں، وسائل اور اقتدار میں ناجائز اور ظالمانہ کوٹہ سسٹم کا پابند کرکے مہاجروں کو جائز یکساں  اور مساوی شہری حقوق سے محروم کردیا گیا تھا۔  اب مہاجروں کی مساوی شہری حقوق حاصل کرنے کی سیاسی جدوجہد کو ریاستی اداروں کی طرف سے بدترین پامالی، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سامناہے۔

بلوچستان کے  حالات سب سے زیادہ  دِگرگوں ہیں۔ 

مہاجروں کی طرح بلوچ نوجوانوں کو بھی بلاجواز گرفتار، جبری طور پر گمشدہ، زیرِ حراست تشدّد اور ماورائے عدالت قتل کرکے انکی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ گزشتہ 69 سالوں سے بلوچوں کی سرزمین پر ریاست نے ناجائز قبضہ اور زبردستی کا الحاق کیا ہوا ہے۔ بلوچ اپنی زمین اور اپنا اختیار واپس مانگتے ہیں۔ جواب میں بلوچ آبادیوں پر بم گرائے جاتے ہیں۔ بلوچوں کی آبادیوں کا گھیراو کرکے نوجوانوں کو  جبری گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ پھر انہیں زمین نگل جاتی ہے یا آسمان کوئی نہیں جانتا ہے۔

چونکہ  پنجاب آقاء اور باقی ملک غلام ہے۔ اسلئے صرف پنجاب میں امن و امان اور باغ وبہار کا سماں ہے۔ طاقت اور اقتدار کے سرچشمے افواج پاکستان کا کردار قومی فوج کی بجائے پنجابی فوج کا ہے۔ افواجِ پاکستان میں  90 فیصد جنرلز، 85 فیصد افسران اور 75 فیصد جوانوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔   پورے ملک پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہے اسلئے عملاً ، پورا پاکستان پنجاب کا غلام ہے۔ وفاقی کابینہ جو پورے ملک پر حکومت کرتی ہے وہ بھی  اکثر پنجابی وزراء پر مشتمل ہے۔وفاقی سول بیوروکریسی پر بھی پنجاب کا قبضہ ہے،  وفاقی ملازمتوں اور خودمختار اداروں پر بھی پنجاب  ہی کا قبضہ ہے۔ دوسرے صوبوں کی نمائندگی ،  ان کی عددی تعداد سے قطعی مطابقت نہیں رکھتی۔  وسائل اور اقتدار میں 52 فیصد آبادی کا صوبہ 80 فیصد سے زیادہ پر قابض ہے۔

جب کوئی ملک اندرونی طور پر ریاستی دہشت گردی  اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں  کا مرتکب ہو، اور بیرونی طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ باقاعدہ دشمنی رکھتا ہو، دہشت گرد گروپوں  کا سرپرست اور پالن ہار ہو، مذہبی دہشت گرد گروپوں، جہادی تنظیموں اور لشکروں کو تذویراتی اثاثے سمجھ کر پالتا ہو، پراکسی جنگیں لڑنے  اور پڑوسی ممالک میں دہشت گرد مداخلت کا مرتکب ہو ، تو ایسے ملک  کو اقوامِ متّحدہ سمیت دیگر مہذّب ممالک عالمی امن کے لئے  خطرہ سمجھ کر دہشت گرد ملک قرار دے کر معاشی اور فوجی پابندیوں میں جکڑ دیتے ہیں تاکہ عالمی امن تباہ اور برباد ہونے سے بچ جائے۔

پاکستان کو بھی  جلد یا بدیر  دہشت گرد ملک قرار دے کر معاشی و فوجی پابندیاں لگائے جانے کے امکانات بعید از قیاس قرار نہیں دئے جاسکتے۔   ریاستِ پاکستان جس دیدہ دلیری سے  اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک ،  بدترین ریاستی تشدّد اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہی ہے۔ پوری دنیا اس کا نوٹس لے رہی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے بھی پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت ترین انتباہ دیا ہے۔   پاکستان کے پڑوسی ممالک اور متاثّرہ ممالک   یعنی انڈیا اور افغانستان بھی پوری دنیا کی توجّہ پاکستان کے دہشت گرد سرگرمیوں کے سرپرستانہ کردار  اور کراس بارڈر ٹیرر ازم کی طرف مبذول کرا رہے ہیں۔

کسی بھی دہشت گرد ملک کی سرگرمیوں پر معاشی ، سماجی اور فوجی  پابندیاں کوئی انوکھی یا ناقابلِ فہم بات نہیں ہے۔  ماضی میں ساوتھ افریقہ پر اُس کی اپارٹ ہیڈ ”  (نسلی امتیاز پر مبنی) پالیسیوں کی وجہ سے  معاشی پابندیاں لگائی جاچکی ہیں۔  اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کونسل نے  ابھی تک  نارتھ کوریا پر نیوکلیئر ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال  کے خطرے کی وجہ  سےمعاشی پابندیوں کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔

ماضی میں افغانستان پر سوویت یونین کی چڑھائی  کے بعد   امریکی صدر جمّی کارٹر نے ماسکو میں ہونے والے 1980 کے اولمپکس کھیلوں کا بائیکاٹ  بھی کیا تھا۔  دنیا آج  55  سال گزرنے کے بعد بھی کیوبا پر امریکی معاشی مقاطعہ کو نہیں بھولی ہے۔اگر کسی کو معاشی بدحالی سے تباہ حال ملک کا حال دیکھنا ہو، ایک چکّر کیوبا کا ضرور لگالے تاکہ اپنی آنکھوں سے  کسی ایسے ملک کی معاشی بدحالی کو دیکھ سکے جو امریکہ  جیسے جدید ملک سے صرف  ایک سو ناٹیکل میل دور موہونجو داڑو کا منظر پیش کررہا ہے۔

گو کہ ایران کے نیوکلیئر  پروگرام پر لگی جامع معاشی و فوجی پابندیوں کو  نرم ہوئے چھ ماہ ہوگئے ہیں، مگر ایرانی معیشت اور ایرانی قوم اپنے اوپر لگی پابندیوں کے زخموں کو ابھی تک چاٹ رہی ہے اور  زخم ہیں کہ مندمل ہونے کا نام نہیں لیتے۔زمبابوے، عراق اور میانمار(برما) کو بھی معاشی اور فوجی پابندیوں نے چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے۔ 

پاکستان کے لئے ابھی ،بھی وقت ہے۔ اندرونی  ریاستی دہشت گردی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ دشمنی اور پراکسی جنگ لڑنے سے باز آجائے ۔  ریاستی  عسکری اداروں کو  ماورائے آئین سرگرمیوں  سے  دور رکھے۔  معصوم شہریوں پر ریاستی دہشت گردی، ظلم ، جبر و تشدّد ختم کرکے اپنے ہی شہریوں کے اغوا، جبری گرفتاریوں ، زیرِ حراست تشدّد، ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے سے باز آجائے۔ 

پڑوسی ممالک کی سرحدوں میں مداخلت،  تزویراتی اثاثوں کے نام پر مذہبی دہشت گرد تنظیموں، جہادی لشکروں کی سرپرستی اور ان کو بطور پراکسی جنگجو استعمال کرنے  کی پالیسی سے باز آجائے۔ عالمی امن اور اپنے ملک کی خوشحالی پر توجّہ دے۔ تزویراتی اثاثہ  جات دہشت گرد جہادی تنظیمیں نہیں ، بلکہ خوشحال و مطمئن عوام ہوتے ہیں۔  اگر ریاست پاکستان کو تزویراتی اثاثے پالنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنی عوام کو تزویراتی اثاثہ سمجھ کر پالے۔

اگر ریاستِ پاکستان کو جنگ لڑنے کا اتنا ہی جنون ہے تو اپنے ملک پاکستان میں غربت  و افلاس، جہالت، بیماری،  اور دہشت گردی، توانائی کے  شدید بحران، انصاف کی فراہمی  اور کرپشن کے خاتمے کے لئے   جنگ کرے، اور اس جنگ میں ہمیں بھی سپاہی بھرتی کرے ، ہم اپنے وطن کے لئے بغیر تنخواہ اور مراعات کے لڑیں گے۔ ہمیں صلے میں میڈِل، زرعی زمینیں اور ڈی ایچ اے میں پلاٹ بھی نہیں چاہئے ہیں۔

وما علینا الالبلاغ

2 Comments