الطاف حسین ۔ مرا ہاتھی سوا لاکھ کا

ali-ahmad-janعلی احمد جان

مجھے نہ جانے کیوں الطاف حسین اور گرورجنیش کی کہانی میں مماثلت نظر آتی ہے، دونوں ہی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں دونوں نے جوانی میں ہی شہرت پائی، عزت پائی اور دولت بھی پھر دونوں کو یہ سب مہنگا پڑا۔ دونوں کے چاہنے والے اور نفرت کرنے والوں کی محبت اور نفرت کی شدت بھی ایک جیسی ہے۔ ایک نے برطانیہ کو جاۓ پناہ بنایا تو دوسراپنے خواب لیکر امریکہ سدھار گیا ۔ گرو رجنیش کے انجام کو دنیا نے دیکھا الطاف حسین کے انجام کو دیکھنا ابھی باقی ہے۔

کہنے کو تو الطاف حسین سیاسی لیڈر ہیں لیکن کبھی خود الیکشن نہیں لڑا ، خود پارلیمنٹ کے ممبر نہیں بنے نہ خود کسی عہدے پر رہے ۔ قائد کہلاۓ، چیف کہلاۓ، پیر بھی کہلاۓ آج کل صرف بھائی یا قائد تحریک الطاف حسین بھائی کے بعد بانی اور صرف الطاف صاحب بھی کہلا تے ہیں۔ گرو رجنیش بھی شروع میں سوامی، پھر گرو، بعد میں بھگوان اور آخر میں اوشو کہلاۓ جاتے تھے۔ دونوں کو اپنے اپنے انداز میں فن خطابت پر ملکہ حاصل ہے دونوں ہی مجمع کو گھنٹوں تک مسحور رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ ایک نے زندگی میں کبھی چشمہ نہیں پہنا جبکہ دوسرے کو رے بین گین شیشوں والا چشمہ اچھا لگتا ہے۔

گرو رجنیش کے خلاف کئی الزامات تھے جن میں منشیات کے استعمال سے لیکر جنسی بے راہ روی اور پیسے کی غیر قانونی لین دین تک شامل تھے جو بعد میں اور بڑھ گئے تھے لیکن ان کے چاہنے والوں نے کبھی ان الزامات کی پرواہ نہ کی۔جب وہ امریکہ چلے گئے تو ان کا ہوائی جہاز میں پہلا سفر تھا ، پھر نہ صرف ان کے اپنے جہاز تھے بلکہ ان کے ائیر پورٹ بھی تھے جو ان کی اپنی بنائی ہوئی جنت میں ان کے چاہنے والوں نے بنا کر دیا تھا ۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے پاس قیمتی، گھڑیوں ، گاڑیوں اور قلموں کا بھی ایک انبار تھا جو ان کے چاہنے والوں نے ان کو دیا تھا۔

رجنیش نے اپنے اور اپنے چاہنے والوں کے لیۓ ایک الگ دنیا کا خوب دیکھا تھا کہ اس دنیا میں وہ کچھ ہو جو اس نے سوچ رکھا تھا ۔ اس نے اپنی سوچ کو عملی جامعہ امریکہ کے اوریگون میں پہنایا۔ ایک صحرا میں نخلستان آباد کیا ، لوگوں کو ایک بھرپور زندگی دینے کی کوشش کی جو امریکی طرز زندگی سے موافقت اس لیٔے نہیں رکھتی تھی کہ یہاں کا نابغہ روزگار ایک ہندوستانی بھگوان شری رجنیش تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اپنی کرنسی کے نوٹ تک پر اپنے خدا پر اعتقاد کا اعادہ کرنے والوں کے سامنے ایک شخص ان کے خدا کو نہ مانے اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا شروع کردے۔ رجنیش کو ملک بدر کیا گیا ، ساری جائیداد ضبط ہوئی اور وہ واپس ہندوستان کے شہر پونا کے نزدیک اپنے پرانے آشرم آگئے۔

ایک نوجوان جو ڈاکٹر بننا چاہتا تھا ، اچھے نمبروں کے باوجود اس کو کسی میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا جبکہ اس سے کم نمبروں والوں کو ملک میں رائج کوٹہ سسٹم کیوجہ سے داخلہ ملا، اس نے فارمیسی پڑھنے کا ارادہ کیا اور کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ کا راج تھا جو طلبہ کو داخلہ دلوانے سے لیکر امتحان پاس کروانے اور اساتذہ کی تعیناتی تک کروایا کرتی تھی۔ طلبہ یونین پر ابھی پابندیاں نہیں لگی تھی تو طلبہ تنظیمیں متحرک تھیں ۔ وہ نوجوان کسی طلبہ تنظیم میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا کیونکہ وہ سینکڑوں نوجوانوں کیطرح پڑھ لکھ کر اپنی ماں اور بہنوں کا سہارا بننا چاہتا تھا۔

دوسری طرف ہر قومیت کے لوگوں کی اپنی اپنی طلبہ تنظیمیں تھیں ، دائیں اوربائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں تھیں لیکن اردو بولنے والوں کی کوئی تنظیم نہیں تھی۔ جب اس نے اسلامی جمیعت طلبہ میں شمولیت کرنے سے انکار کیا تو اس کی پٹائی کی گئی۔ یہیں سے اس نے اپنے ہم خیال دوستوں کیساتھ ملکر آل پاکستان مہا جر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ مہاجر یا اردو بولنے والوں کی اکثریت دائیں بازو کی تنظیموں میں شامل ہوا کرتی تھیں اب ایک نئی تنظیم کے بننے سے ان کو نقصان ہوا تو اس نے جمیعت کی دشمنی مول لینی پڑی، مار کھائی مگر اپنے کام کو جاری رکھا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہوتے اس کی تنظیم کراچی یونیورسٹی کے علاوہ ڈاؤ میڈیکل کالج اور سندھ میڈیکل کالج وغیرہ تک پھیل چکی تھی۔ یہیں سے الطاف حسین کی سیاست کا آغاز ہوا۔

یونورسٹی کے بعد الطاف حسین امریکہ چلے گئے اور خاموشی بھی اختیار کی تھی۔ لیکن مقتدر حلقوں کو کراچی میں اکھاڑ بچھاڑ کی سوجی ہوئی تھی۔ کراچی کی نظریاتی سیاست کولسانی اور قوم پرستی کی سیاست میں بدلنے کے لیٔے اردو بولنے والے ایک کردار کی ضرورت آن پڑی تو پہلے اورنگی ٹاؤن والے آفاق شاہد کو آزمایا گیا پھر الطاف حسین کو ۔ بشریٰ زیدی نام کی ایک طالبہ کا کسی وین کے نیچے آکر ہلاک ہوجانا وہ بہانہ تھا جس میں پشتونوں کیخلاف مہاجروں کو اکھٹا کیا گیا ، دوکانیں لوٹیں ، بسیں، ٹیکسیاں رکشے اور املاک جلائی گئیں، لوگ مارے گئے۔

دوسری بار الطاف حسین کے جلوس پر سہراب گوٹھ پر فائرنگ کا واقعہ ہوا اور پھر علی گڑھ کالونی میں قتل عام کی ایک ویڈیو فلم منظر عام پر آگئی۔ ان واقعات میں ہونے والی خون ریزی اور بدامنی نے ایک عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جس کے شکار زیادہ تر یہاں کے اردو بولنے والے ہوۓ۔ الطاف حسین نے تحفظ اور بدلے کا یقین دلاکر مہاجر عوام کو اکھٹا کیا اور مہاجر قومی موؤمنٹ کو مضبوط کرنا شروع کیا۔

سنہ۱۹۸۵ کے بلدیاتی انتخابات ایم کیو ایم نے حق پرستوں کا نام پر بھاری اکثریت سے جیت لیٔے ۔ ایم کیو ایم جس کو ابھی تک مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے نوجوان نسل کی ایک غیر سنجیدہ تنظیم سمجھا جارہا تھا، اب شہر کی قیادت اس کے پاس آنے کے بعد نام نہاد شرفاء میں بھی اس کی مقبولیت بڑھ گئی۔ شہر کی قیادت اور نظامت کے ساتھ ہی طاقت بھی ہاتھ آگئی۔ ۱۹۸۸ کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے حق پرستوں کے نام پر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں سے تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں۔

بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تو بنیں لیکن ان کو ملک کی اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حزب اختلاف کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لئے الطاف حسین کی ضرورت پڑی جس کا انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد دوبارہ انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے نواز شریف وزیر اعظم بنے جس کی الطاف حسین نے حمایت کی۔ نواز شریف کے ہی دور میں ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن ہوا جس سے الطاف حسین نے بھاگ کر لندن میں پناہ لی اور اب تک وہیں ہیں۔ نواز حکومت کے خاتمے کے بعد بے نظیر بھٹو پھر بر سر اقتدار آگیئں لیکن ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن نہیں رکا ۔

لندن میں رہائش کے دوران الطاف حسین نے اپنی سیاست میں تبدیلی لاکر پارٹی کو متحدہ قومی موؤمنٹ بنا یا اور اس کے دائرہ کار کو بڑھایا جس میں اس کو کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔ الطاف حسین پر ان کے اپنے ہی ساتھیوں جیسے عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے الزامات بھی لگے ہیں۔ ایک طرف ان پر الزامات اور اعتراضات ہیں تو دوسری طرف ان کے چاہنے والے ہیں جو ان کے خلاف کسی بات کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑی۔

حال ہی میں اپنے خلاف اپنی ہی پارٹی کے اندر ایک بغاوت کے بعد انھوں نے ایک نئی ٹیم سامنے لائی ہے جو 1980اور 90 کی دہائی کے سرخ انقلابیوں پر مشتمل ہے۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں کے سیاسی کردار پر کوئی داغ نہیں ہے۔ تمام لوگ وہی ہیں جنھوں نے قید و بند کی صعوبتیں پہلے بھی دیکھی ہیں اور ذہنی طور پر تیار ہیں۔ کیا فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال اردو بولنے والوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ، کیا مہاجر الطاف حسین کو چھوڑ دیں گے؟ کیا الطاف حسین ماضی بن چکے ہیں ؟ ایسا نہیں لگتا، رجنیش کی طرح الطاف حسین مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر راج کریں گے۔ ایم کیو ایم وہی ہوگی جو الطاف حسین کی تصویر لگار کر سیاست کرے گی۔

یہ بات سرخے خوب جانتے ہیں کہ الطاف حسین نام کے ہاتھی کی قدر و قیمت کیا ہے۔

Comments are closed.