ایک افسوسناک کہانی ۔۔۔

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

آج صبح میں نے فیس بک کھولی تو پرانی یادوں سے ایک کالم سکرین پر ابھرا۔ یہ کالم میں نے ستمبر2013میں لکھا تھا۔ تین سال بعد یہ کالم پڑھ کر یوں لگا جیسے ابھی ابھی لکھا ہو۔میںآج اسے آپ سے دوبارہ شئیر کرتا ہوں۔

لیجیے ۔کہانی وہی ہے۔ایک افسوسناک کہانی۔جو کئی بار دہرائی جا چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کوگزشتہ چھیاسٹھ برس سے بڑی باقاعدگی سے یہ کہانی سنائی جاتی ہے۔سوائے چند ایک استشناؤں کے۔ اس دوران آدھے سے زائد اکتاہٹ کا شکار مندوبین سو رہے ہوتے ہیں۔

مگر یہ کہانی سنانی ضروری ہے۔چنانچہ نواز شریف صاحب نے اس دفعہ یہ کہانی سنائی۔ مسئلہ کشمیر اٹھایا اور داد سمیٹی۔میاں صاحب کی انتخابی مہم کا ایک نمایاں نقطہ بھارت کے ساتھ دوستی اور امن تھا۔ انتخابات کے بعد بھی یہ موضوع ان کی گفتگو میں نمایاں رہا۔ اس حوالے سے ان کی بے صبری اور بے تابی کافی نمایاں ہے۔

میاں صاحب بنیادی طور پر ایک کارو باری شخص ہیں۔ ان کے حساب میں بھارت کے ساتھ امن میں کئی کاروباری اور معاشی مفادات ہیں۔ معاشیات کے ماہرین نے جمع تفریق بھی کر لی۔ پاکستان کا کل قرضہ پچاس ارب ہے۔ بھارت کے ساتھ امن کی صورت میں نوے ارب کی بچت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے فرمایا کے بھارت اور پاکستان اسلحہ پر پیسے خرچ کرنے کے بجائے غر بت پر خرچ کریں۔ اور امن کی صورت میں دونوں ملک بڑی تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔

میاں صاحب کی سوچ مثبت اور تعمیری ہے۔اسکی داد دی جانی چاہیے۔ انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ بھی قابل تحسین ہے۔ مگر حقائق سے متصادم۔ جو تقریر انہوں نے جنرل اسمبلی میں پڑھی وہ کس نے لکھی تھی۔ چند لفظوں کے فرق کے ساتھ یہ تقریر تقریباً وہی تھی جو جنرل ضیا نے کی تھی۔ یا دیگر پیشرو قائدین کرتے رہے۔ 

یہ تقریر بنیادی طور پر کوئی پچاس برس قبل وزارت خارجہ کے کسی بابو نے لکھی تھی۔ اس تقریر کے گنیادی نقاط کیا ہیں۔ پاکستان خود مختار فلسطین چاہتا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی ہے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ بھارت کے ساتھ مکالمے کے ذریعے مئسلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتا ہے۔ یہ وہ بنیادی تقریر ہے جو نصف صدی سے جنرل اسمبلی میں ہو رہی ہے۔ اس میں آج تک کوئی ترمیم کی جرات نہیں کر سکا۔

البتہ نئے حالات کے تحت اس میں کچھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مثلاًیہ کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ یا یہ کہ مغربی سماجوں میں اسلامی برادریوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا۔ میاں صاحب کے ارادے شائد نیک ہوں۔ان کی جمع تفریق بھی درست ہے۔ مگر امن اور جنگ کا سوال پاکستانی فوج اور وزارت خارجہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کو کچھ دانشور زمینی حقائق بھی کہتے ہیں۔چنانچہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے بیانات ہمیشہ ان زمینی حقائق سے متصادم ہوتے ہیں۔ 

اس تضاد کی ایک خوبصورت مثال میاں صاحب کی تقریر تھی۔ ایک طرف تو انہوں نے کہا کہ ہم تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر بھارت کے ساتھ مکالمے کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ اپنی قراردادوں کی روشنی میں یہ مسئلہ حل کرے۔ یہ گہرا تضاد ہے۔ عالمی ڈپلومیسی اور براہ راست گفت و شنید۔ یہ تضاد دراصل اس تضاد کا عکس ہے جو پاکستان کی سیاسی قیادت اور اسٹبلشمنٹ میں پایا جاتا ہے۔ 

اس محاذ پر فوج، وزارت خارجہ اور سیاست کاروں کے درمیان۔ میاں صاحب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کے تحت مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عالمی سفارتی حلقوں میں بھارت کی پوزیشن پاکستان سے کئی زیادہ مضبوط ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ تقریر کیوں پڑھی ؟ جواب صاٖ ف ظاہر ہے۔ وہ یہ تقریر پڑھنے پر مجبور تھے۔ جو ان کی خواہشات اور سوچوں سے متصادم ہے۔ 

یہ کوئی راز نہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر میں عالمی مداخلت کا سخت مخالف ہے۔ اس بات پر بھارت کی ساری سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی متفق ہے۔ مگر وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے براۂ راست مکالمے کا مخالف نہیں۔ یہ مکالمہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی بار ہو چکا۔ اور مشرف دور میں تو یہ مکالمہ کامیابی کے قریب پہنچ چکا تھا۔تو پھر وزیر اعظم کو یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا مشورہ کس نے دیا ؟ اقوام متحدہ کی قراردادیں جنگ باز قوتوں کا منترہ ہیں۔

گزشتہ پچاس سالوں میں سرحدوں پر بھارت کے ساتھ کشیدگی اور اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھوانا ان قوتوں کا ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔ اس سے نہ کشمیریوں کو کوئی فائدہ ہوا نہ پاکستان کو۔ لیکن اس سے امن کو دھچکا ضرور لگتا ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی اقتدار کبھی سیاست دانوں کو منتقل نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو اتنا بڑا مینڈیٹ لیکر وزیر اعظم کو ضیا والی تقریر پڑھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ میاں صاحب شاید پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم تھے جن کی انتخابی مہم میں بھارت دوستی کا اعلان شامل تھا۔ یہاں عموماً انتخابات بھارت دشمنی پر لڑے جاتے ہیں۔

تو گویا میاں صاحب براہ راست عوام سے بھارت دوستی کا مینڈیٹ لے کر آئے تھے۔ لیکن ان کے حلف اٹھانے کے فورا بعد عسکری اور سفارتی ، دونوں محاذوں پر کشیدگی میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت کا جس کا میاں صاحب کو سامنا کرنا ہو گا۔اگر وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں۔ یا بھارت سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو اسکی شروعات نیویارک یا نئی دہلی سے نہیں پاکستان سے کرنی پڑیں گی۔ 

میاں صاحب اپنے مکالمے کاآغاز ان لوگوں سے کریں جن کے ہاتھ میں مسئلہ کشمیر ہے۔ جو بھارت کے ساتھ امن اور جنگ کے سوال پر فیصلہ کن اختیار رکھتے ہیں۔ میاں صاحب اگر یہ اختیار ان سے لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بھارت سے دوستی بھی کر سکتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ ورنہ انہیں آئندہ چار سال بھی پچاس سال پرانی لکھی ہوئی تقریریں پڑھنی پڑیں گی۔

Comments are closed.