عارف کی کہانی نمبردار کی زبانی

سبط حسن

article-nopsdhhfke-1456551021
(
ایک مصری ادیب کی کہانی سے ماخوذ کو ’’آج‘‘ کراچی میں شائع ہوئی)

کل رات جب میں سونے کے لیے لیٹا تو مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ کل کا دن میرے خاندان کی تاریخ میں سب سے اہم دن تھا۔ سالوں کے بعد مجھے اصلی خوشی کا احساس ہوا اور اس سے میرے دل میں خوشبو سی بھر گئی۔ جو زمین ہم سے 1954ء میں چھین لی گئی تھی کل بیس سال کے بعد لوٹا دی گئی۔۔۔ ہمیں، ہماری کھوئی ہوئی عزت مل گئی۔ جس لمحے مجھے یہ خبر ملی، میں نے سوچا، بھلا اس سے بڑی خوشی کی خبر کیا ہو سکتی ہے۔ میر ادل چاہتا تھا کہ میں اسی لمحے مر جاؤں۔۔۔ میں نے فوراً اپنا منہ قبرستان کی طرف کیا جہاں میرا باپ دفن ہے۔ اسے مرے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اس کی قبر پر لگی سرخ اینٹیں اب بھربھراگئی ہیں۔

میرے باپ نے مرنے سے پہلے مجھے تلقین کی تھی کہ میں ہر صورت اپنی زمین واپس لوں ورنہ مرنے کے بعد بھی اسے قبر میں سکون نہ ملے گا۔ کل کا دن رات گئے تک خوشیوں سے بھر گیا تھا۔ رات کے آخری حصے تک خوشی کی زیادتی سے مجھے تھکن سی ہونے لگی۔ جسم درد کر رہا تھا۔ بستر پر جانے سے پہلے میں نے ہدایت کر دی کہ صبح مجھے نہ جگایا جائے۔ بیس برسوں کے بعد میں جی بھر کے سونا چاہتا تھا۔ صبح مرغے کی اذان سے پہلے ہی مجھے کھانسی کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ جب تک قے نہ کر لی، سکون نہ آیا۔ اس کے بعد باوجود خواہش کے سو نہ سکا۔ کچھ عرصے سے میری عادت ہوگئی ہے کہ میں رات ہمیشہ اپنی سب سے چھوٹی بیوی کے کمرے میں گزارتا ہوں۔ میری چھوٹی بیوی میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ صبح ہونے سے پہلے مجھے کوئی کام نہ تھا۔ اس کے بعد میں نے مردان خانے میں جانا تھا۔ میں نے نوکرانی کو آواز دے کر اسے وضو کا پانی لانے کو کہا۔ میں وضو کرنے کے بعد نماز پڑھنے لگا۔ نماز پڑھتے ہوئے مجھ سے دو دفعہ غلطی ہوئی۔ مجھے نماز میں دھیان لگانے میں دقّت ہو رہی تھی۔

پھر میر ی بائیں آنکھ پھڑکنے لگی۔ مجھے بے قراری ہو رہی تھی۔ میں نے نماز مکمل کی۔ بیوی میرے لیے چائے کا ایک کپ لے آئی۔ چائے خاصی تلخ تھی اور میری بیوی اس میں چینی ڈالنا بھول گئی تھی۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ آج کون سا دن ہے۔ معلوم ہوا کہ آج منگل نہیں، جسے نحس سمجھا جاتا ہے۔ مجھے کچھ سکون تو ہوا مگر میرے دل پر ایک بوجھ سا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آج کوئی غیر معمولی واقعہ ہونے والا ہے۔ تھوڑی دیر میں میری بیوی ناشتے کی سینی لے کر آئی۔ سینی میں فرائی انڈے، پراٹھے، دہی ، پنیر اور چائے تھی۔ میں نے کپ میں چائے انڈیلی اور پراٹھے کو چائے میں ڈبو ڈبو کر کھانے لگا۔ مجھے کچھ اور کھانے کی بالکل چاہت نہ تھی۔ میں نے پراٹھے کے چند لقمے لیے، چائے پی اور ہاتھ دھونے کے لیے پانی کا جگ اٹھایا۔ میری بیوی نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں پر پانی انڈیلا۔ جگ میں پانی کم تھا اور اس کے پیندے میں مٹی تھی۔ یہ کیچڑ سیدھا میرے ہاتھوں پر گرا۔ میرا دل ایک دم بیٹھ سا گیا۔

میں نے کپڑے بدلے۔ گھر سے باہر نکل آیا۔ ابھی ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ میں پرانے مکان میں داخل ہوا۔ اس مکان میں میری پہلی بیوی رہتی تھی۔ یہ لوگ سو رہے تھے۔ میں پرانے مکان کی بغل میں مویشیوں کے طویلے میں چلا آیا۔ مویشی نیم غنودگی کی کیفیت میں تھے۔ آنکھیں بند اور جبڑے کاہلی سے آہستہ آہستہ جگالی کر رہے تھے۔ چارے کی کھرلیاں بالکل خالی اور چاٹ چاٹ کر صاف کی ہوئی تھیں۔ کتا جاگ رہا تھا اور اس نے دم ہلا کر میری ٹانگوں میں لپٹ کر مجھے پہچاننے کا دعویٰ کیا۔ مویشیوں پر نظر ڈال کر میں گودام کی طرف بڑھا۔

یہاں ایک لائن میں کئی کوٹھڑیاں تھیں اور ان میں اناج، کھاد کی بوریاں، کیڑے مار دوائیاں اور زرعی آلات تھے۔ سب کوٹھڑیوں کے دروازے ٹھیک طرح سے بند تھے۔ میں مردان خانے چلا آیا۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا۔ میں اکیلا بیٹھا، سگریٹ پر سگریٹ پینے لگا۔ رات کے چوکیدار اپنی اپنی بندوقیں اور کارتوس جمع کروانے کے لیے آئے۔ پھر دن کا چوکیدار آیا اور ہچکچاتا ہوا میری طرف بڑھا۔ اس پر ابھی تک کل رات کو میرے غصے اور ڈانٹ کا اثر تھا۔ ہوا یہ کہ وہ ایک سرکاری چٹھی لایااور مجھے تھمانے لگا۔ میں نے اسے ڈانٹا اور حکم دیا کہ وہ ہر روز کی طرح اس چٹھی کو بھی پڑھ کر سنائے۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور اس نے منمناتے ہوئے، چٹھی میں لکھے چند الفاظ پڑھے۔۔۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے کو لازمی فوجی خدمات کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ مجھے فوراً اپنے باپ کی یاد آئی۔

مجھے ان کی بات آج تک یاد ہے۔ وہ کہا کرتے تھے، ’’اگر زندگی تم پر مہربان دکھائی دے اور تمھارے دائیں ہاتھ میں کوئی بڑی نعمت آجائے، تو تمھارا بایاں ہاتھ ضرور خالی ہو چکا ہو گا۔ جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ زندگی اگر داہنے ہاتھ میں کچھ دیتی ہے تو بائیں ہاتھ سے کچھ نہ کچھ واپس بھی لیتی ہے۔۔۔‘‘ چوکیدار لازمی بھرتی والی چٹھی پڑھ کر میرے سامنے کھڑا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس وقت میرا دماغ کسی قسم کی بات سوچنے کے لیے قاصر تھا۔ میں اپنے باپ کو یاد کرنے لگا جو میری خاطر ناممکن کام بھی کروا لیا کرتے تھے۔ میں ، خود بھی جوانی کے دنوں میں کچھ بھی کر گزرتا تھا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ جیسے میرے سردرد کی بیماری آہستہ آہستہ واپس آرہی ہے۔

آج صبح ہی اس چٹھی کو ہاتھ میں لیے مردان خانے میں بیٹھا تھا۔ اتنی صبح مجھے مردان خانے میں دیکھ کر منشی میرے پاس چلا آیا۔ اس نے سلام کیا اور مجھے دیکھ کر دھیرے سے مسکرایا۔ مجھے اس کی مسکراہٹ بے موقع لگی۔ اسے یقیناًلازمی فوجی خدمات سے متعلق چٹھی کی خبر ہو گی۔ وہ شاید یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سنجیدہ نہیں کہ اس پر اس قدر فکر مند ہوا جائے۔ وہ میرے پاس آیا اور سرگوشی میں کہنے لگا’’آپ خواہ مخواہ فکر مند ہو رہے ہیں۔ دلال اس کو ٹھیک کر دے گا۔۔۔‘‘۔
’’
۔۔۔دلال کون۔۔۔؟‘‘

’’سب لوگ اسے دلال ہی کہتے ہیں۔۔۔ اس کا اصلی نام شاید کسی کو بھی معلوم نہیں۔ وہ ہر قسم کے کام کروا دیتا ہے۔۔۔وہ پرائمری سکول میں استاد تھا۔ رشوت یا شاید جعلسازی کے الزام میں، مجھے ٹھیک طرح سے یا دنہیں، شاید اسے سزا ہو گئی تھی۔ یہ مقدمہ کئی برس چلا، پہلے نچلی عدالت میں اور پھر سب سے بڑی عدالت تک۔ اس کی ملازمت جاتی رہی اور اس نے دلال کا کام شروع کر دیا۔
جب منشی نے مجھے دلال کے بارے میں بتایا، اس وقت میں کئی ایک باتیں سوچ رہا تھا۔ ایک طرف میں چاہتا تھا کہ میرا بیٹا فوج میں جائے اور تربیت حاصل کرے۔۔۔ آخر وہ کب تک لاڈلا بنا رہے گا! میں ساری عمر اس کی دیکھ بھال تو نہیں کر سکتا۔ ایک نہ ایک دن اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی ہو گا۔ دوسری طرف اس سے جدائی کا خیال بھی میری برداشت سے باہر تھا۔ وہ میری سب سے چھوٹی اولاد تھااور اس کی پیدائش کے بعد میں بیمار پڑ گیا تھا۔ اس بیماری کے بارے میں مَیں نے اپنی سب سے چھوٹی بیوی کو ہی بتایا تھا۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ تب سے میں، اسی کے گھر میں رہتا ہوں۔ جس بیٹے کو لازمی فوجی خدمات کے لیے بھجوانے کا حکم ملا تھا، وہ اسی بیوی سے تھا۔ میرے سب سے بڑے بیٹے کو لازمی فوجی خدمت سے چھوٹ مل گئی تھی کیونکہ وہ گاؤں کے نمبردار کا بیٹا تھا۔ دوسرے کو اس لیے چھوٹ مل گئی کیونکہ کہ وہ حافظ قرآن تھا۔ تیسرے کو جب طلبی کا خط ملا تو میں نے پورے پانچ ہزار روپے خرچ کر دیے۔ اس وقت یہ رقم بڑی قدر و قیمت رکھتی تھی۔ چوتھے بیٹے کی جب باری آئی تو میں نے اس کی ماں کو طلاق دے دی۔ سچ مچ نہیں، صرف کاغذی طلاق۔ چنانچہ وہ بیٹا قانونی طور پر ایک طلاق یافتہ عورت کا تنہا سہارا ہونے کے باعث فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار پایا۔

میں ان سب باتوں کے لیے اپنے آپ سے بالکل شرمندہ نہیں ہوں۔ آپ سمجھتے ہوں گے کہ مجھے اپنے ملک سے ہرگز پیار نہیں۔ اس لیے ایسے شرمناک ہتھکنڈے استعمال کر کے میں نے اپنے بیٹوں کو لازمی فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دلوایا۔ حالانکہ گاؤں کے نمبردار ہونے کی حیثیت سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے گاؤں کے نوجوانوں کو بھی فوجی خدمت کے لیے بھجواؤں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ میرے دادا کے والد نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا اور وہ کئی برس جیل کاٹنے کے بعد شہید کر دیے گئے تھے۔ اس کے بعد ہمارے خاندان سے کوئی بھی جنگ میں نہ گیا۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے خاندان سے کوئی شخص جنگ میں گیا تو ہمارا شجرۂ نسب ختم ہو جائے گا۔ مجھے اپنے شجرۂ نسب کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی شوق نہیں۔

ویسے میری پہلی غلطی نے سب سے بڑا بگاڑ پیدا کیا تھا۔ اگر میں اپنے سب سے بڑے بیٹے کے لیے استثنیٰ کی کوشش نہ کرتا تو اس کے بعد کسی دوسرے بیٹے کے استثنیٰ کی بات ہی نہ چلتی۔ میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ضرور فوجی خدمات کے لیے بھجوانا چاہتا تھا۔ مگر مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ اس کی ماں کے اس کے بارے میں احساسات کیاہوں گے۔ آج کل کی جنگیں تو ویسے بھی کس قدر ہولناک ہیں۔ وہ میرا اس قدر خیال رکھتی ہے اور بدلے میں اسے جیتے جی آگ میں جھونک دوں۔۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا، یہ سب کچھ! مجھے دلال سے فوراً ملنا ہوگا۔ میں دلال کو اس کا منہ مانگا معاوضہ دوں گا اور اس کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے اپنے تعلقات ، دوستوں، رشتے داروں اور سب سے بڑھ کر روپے پیسے کو استعمال کرو ں گا۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج کل آدمی کی قدر و منزلت اس پر ہے کہ اس کی جیب میں کتنے پیسے ہیں۔ جیب میں ایک پیسہ ہو تو آپ کی قدر ایک پیسے کے برابر ہو گی۔ میرے پاس لاکھوں ہیں ۔۔۔اور جب تک پیسے کو خدا سمجھا جاتا ہے، اس وقت تک مجھے کوئی اندیشہ نہیں۔

سورج نکل آیا تھا۔ میں واپس اپنی چھوٹی بیوی کے گھر میں چلا آیا۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ابھی تک سویا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر میرا خون کھولنے لگا۔ سورج کو نکلے اتنا وقت ہو گیا ہے اور یہ نواب ابھی تک سویا پڑا ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اسے فوراً فوج میں بھرتی کروا دینا چاہیے تاکہ اس کے طور طریقے تو بدلیں۔ میں نے اپنے غصے کو دبائے رکھا اور بیوی سے کہا کہ وہ شہر جانے کے لیے کپڑے نکال دے۔ گاؤں میں عام طور پر سفید تہبند اور سفید کرتا ہی پہنتا ہوں۔ شہر جانے کے لیے شلوار قمیص اور اوپر جیکٹ یا پھر کوٹ پتلون پہنتا ہوں۔

سیاہ چشمہ پہنتا ہوں اور فرانس کی خوشبوئیں لگاتا ہوں۔ کپڑوں اور رکھ رکھاؤ کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ میری ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ میں کسی بھی بڑے سے بڑے افسر یا رتبے والے آدمی سے کہیں بڑھ کر نظر آؤں۔ میں نے اپنی بیوی کو بتایا کہ میں شہر جا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ گھر یا باہر کا کوئی فرد مجھ سے یہ سوال نہیں کر سکتا۔ یہ بات میرے باپ نے مجھے سکھائی ہے کہ کسی بات کو اول تو ظاہر ہی نہیں کرنا چاہیے اور اگر بہت ضروری ہو جائے تو صرف ایک فرد کو راز داری سے کہنی چاہیے۔ ہمیں راز داری اس لیے بھی رکھنا پڑتی ہے کیونکہ ہم بڑے لوگ ہیں اور اونچے لوگوں سے ہی ہمارے مراسم ہوتے ہیں۔ عام لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں اور ان کے شر سے بچنے کے لیے ہمیں یہ سب کرنا پڑتا ہے۔

میں نے کرائے کی خاص کار طلب کی اور دروازے کے پاس اس کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں گاڑی آپہنچی۔ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھا۔ منشی نے کار کا دروازہ بند کیا اور خود آگے کی سیٹ پر ڈرائیور کے برابر بیٹھ گیا۔ راستے میں گاؤں کے کئی لوگوں نے مجھے سلام کیا اور کچھ نے اشارہ کر کے گاڑی کو رکوایا۔ سب کا خیال تھا کہ میں زمین واپس مل جانے کے سلسلے میں بڑے بڑے افسروں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے شہر جا رہا ہوں۔ میں نے ان کی بات کی تردید کی اور نہ ہی تائید۔ میرے خیال میں لوگوں سے فاصلہ رکھنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ راستے میں گاڑی اس زمین سے گزری جو واپس مل جانے والی زمین میں شامل تھی۔

اس کو دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آنے لگا۔ مجھے پھر سے اپنے والد کا خیال آنے لگا۔ مرنے سے پہلے انھوں نے کہا تھا۔۔۔’’ ہمارا حق ایک نہ ایک دن ہمیں مل کر رہے گا۔‘‘ مجھے ان کی بات پر بالکل یقین نہ آیا تھا بلکہ میں ے دل ہی دل میں کہا تھا کہ نہ ہونے والے معاملات پر صرف امیدوں سے ہی تسلی مل سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب پہلا فوجی انقلاب آیا تھا اور میرے باپ کے ایک ملنے والے بڑے افسر نے اسے زمینوں کی ضبطی کے بارے میں پہلے سے بتا دیا تھا۔ میرے باپ نے فوراً ساری زمین ہم سب بہن بھائیوں میں بانٹ دی۔ زمین کا ایک ٹکڑا ایسا تھا جو ہم نے انھی دنوں خریدا تھا مگر اس کی ملکیت کا عمل پوری طرح مکمل نہ ہو سکا تھا۔

ایک دن فوجی حکومت کے کچھ افسران ہمارے گاؤں آئے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس ایسی دستاویزات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم جاگیر دار بننے کے اہل نہیں۔ سرکاری طور پر زرعی اصلاحات کا نفاذ ہوا اور اس سے زائد زمین ہم سے چھین لی گئی۔ کل ملا کر ہماری دو سو ایکڑ اراضی حکومت کے قبضے میں چلی گئی۔ زمین کے چھن جانے کا صدمہ میرے باپ کی برداشت سے باہر تھا۔ ان پر فالج کا حملہ ہوا اور ان کے جسم کا داہنا حصہ شل ہو گیا۔ وہ اپنے داہنے بازو، دا ہنی ٹانگ، یہاں تک کہ اپنے منہ کے داہنے حصے کو بھی حرکت دینے کے قابل نہ رہے۔ یہ بڑے ہولناک دن تھے۔ وہ لوگ جو آٹے یا چارے کے لیے ہمارے گاؤں میں گڑگڑاتے تھے، اب سامنے کھڑے ہو کر گستاخیاں کرنے لگے۔ اس سے پہلے کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ میرے باپ کے سامنے گدھے پر سوار ہو کر گزرے۔ ذرا سی گستاخی بلکہ اس کے شائبے پر بھی میرا باپ لوگوں کو پکڑ کر مردان خانے میں نیم کے پیڑ کے تنے کے ساتھ بندھوا دیتا تھا۔

جس دن سے ہماری زمین حکومت کے قبضے میں گئی، اس دن سے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور اور دوسرے ملازم ہمارے ساتھ اور ہی طرح سے پیش آنے لگے۔ ہمارے منہ پر ایسی باتیں کہی جاتیں جن کو سن کر خون کھول اٹھتا مگر صبر کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔ آخر انگریزوں کے دور میں ملنے والا فرمان ہمارے کام آیا۔ ایک انگریز گورنر نے یہ فرمان ہمارے دادا کے نام جاری کیا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ ہماری نسل میں بیس پشتوں تک کسی نے اپنے ہاتھ سے کام نہیں کیا۔ بعض حاسدوں کا خیال تھا کہ ہمیں معافی مانگنے اور انگریزوں کے وفادار رہنے کا عہد کرنے کے بعد اتنی جاگیریں ملی تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دادا کے والد کی شہادت کے بعد، ہمارے دادا نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور انگریزوں سے خواہ مخواہ لڑنے کی بجائے سکون سے رہنے کو ترجیح دی۔

اسی دور میں جاگیرداری کا فرمان جاری ہوا تھا۔ اسی کی بنیاد پر عدالت نے ہمارے حق کو تسلیم کرتے ہوئے، زمین ہمیں واپس لوٹا دی۔ یہ فیصلہ سن کر مجھے لگا جیسے میں ایک مردہ لکڑی کا ٹکڑا تھا اور اب اس میں ہری بھری کونپلیں نکلنا شروع ہوگئی ہوں۔ میں نے اگلے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ میرا مدمقابل جو لگاتار کئی الیکشن میں جیتتا چلا آرہا تھا، اب میں اس کو ہرا کر ہی دم لوں گا ۔ اتنے لمبے عرصے تک اس نیچ نے بہت مزے لے لیے، اب میر ی یعنی ایک اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ کی مرضی چلے گی۔ میرے والد محترم کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں: اعلیٰ خاندان کے بچے اور کتوں کے پلے۔ دیہات میں اونچے لوگ وہ ہیں جن کے پاس سَوایکڑ سے زیادہ زمین ہے۔ جس کے پاس اس سے کم زمین ہے، وہ دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان دونوں انتہاؤں کے درمیان باقی آبادی کے لوگ آتے ہیں۔ اس میں کھیت مزدور، بٹائی پر کام کرنے والے اور بے روزگار لوگ شامل ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میرا کس قسم کے خاندان سے تعلق ہے۔ ایسی شان جو صدیوں سے ہمیں ورثے میں ملی، ایسی معمولی بات نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے خاندان کا بچہ لازمی فوجی خدمات کے لیے جائے جہاں عام یعنی دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھیجا جاتا ہے۔ پہلے ہی فوجی انقلاب نے ہماری زندگیوں کا بیشتر حصہ ہم سے چھین لیا ہے۔ مجھے ہرحال میں اپنے بیٹے کو اس مسئلے سے نکالنا ہوگا۔

ہم ضلعی صدر مقام، جو ہمارے گاؤں سے قریب ترین شہر ہے، تک پہنچ گئے۔ منشی نے ڈرائیور کو دلال کے گھر کا پتا بتایا۔ دلال کے گھر پہنچے تو منشی نے گاڑی سے اتر کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں کار میں ہی بیٹھا رہا۔ صبح منشی نے کہا تھا کہ مجھے دلال سے ملنے خود نہیں جانا چاہیے۔ اس نے پیشکش کی تھی کہ وہ جا کر دلال کو گاؤں تک لا سکتا ہے۔ میں نے انکار کر دیا کیونکہ گاؤں میں اس کی آمد سے لوگوں کے ذہن میں شبہات پیدا ہو سکتے تھے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ دلال کے آنے کا سبب ہمیشہ کوئی غیر قانونی کام ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس موقعے پر، جب ہماری زمینوں کو لوٹائے جانے کا حکم جاری ہو چکا تھا، ہمارے دشمن مختلف شکوک پیدا کر سکتے تھے مثلاً یہ کہ زمینوں کی واپسی کا حکم نامہ رشوت یا ’خاص تعلقات‘ کی بنیاد پر جاری کروایا گیا۔ کسے معلوم کہ اس سے مستقبل میں میرے یا میری اولاد کے لیے کیا مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

منشی واپس آیا اور مجھ سے بلند آواز میں اندر چلنے کی درخواست کی۔ اس نے میرے نام کے ساتھ ’حضور‘ کا لفظ شامل کر دیا تھا۔ مجھے یہ سن کر اچھا لگا۔ میں کار سے اترا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا دلال کے گھر میں داخل ہو گیا۔ بیٹھک میں چلا آیا اور دلال کا انتظار کرنے لگا۔ منشی نے مجھے بتایا کہ دلال سو رہا تھا ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کے وجود سے نیند کی بو آرہی تھی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ اس کے داہنے گال پر پڑے ہوئے سرخ نشانوں سے لگتا تھا کہ وہ چٹائی پر بغیر تکیے کے سوتارہا تھا۔ وہ میرے سامنے کی کرسی پر آبیٹھا اور آگے جھک کر مجھے خوش آمدید کہا اور حال دریافت کیا۔ اس کے منہ سے بدبو آرہی تھی۔

اس نے میرے چہرے پر پھیلی فکر مندی بھانپ لی اور جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکال کر مجھے سگریٹ پیش کیا۔ میں اپنے درآمد شدہ برانڈ کے سوا کوئی اور سگریٹ نہیں پیتا۔ میں نے اسے اپنی فکر مندی کا سارا قصہ سنایا۔ دلال نے پوچھا کہ کیا میں نے اس سے پہلے بھی اپنے بیٹے کی طلبی کو ملتوی کروانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ میرا بیٹا کسی سکول میں پڑھتا ہوگا اور اس طرح طلبی کو ملتوی کروانا اس کا قانونی حق بن جاتا ہے۔ میں اپنی مایوسی اور غصے کو چھپانے کے لیے ہنسا اور پھر اسے بتایا کہ میرا یہ بیٹا بالکل ناکارہ ہے۔ وہ اپنی ابتدائی تعلیم بھی پوری نہ کر سکا۔ میں نے اسے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں لیکن وہ کئی سال تک فیل ہوتا رہا۔ میں نے اسے اسی شہر کے ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کروادیا کہ شاید غیر معمولی محنت سے وہ کم از کم میٹرک تو کر لے مگر اس کی ماں نے اسے گاؤں سے باہر بھیجنے سے انکار کر دیا۔ اس کی ماں کا ایک اور خیال یہ تھا کہ بار بار فیل ہوجانے کے باعث اس کے بیٹے کا ذہن منتشر ہو سکتا تھا۔ گویا اسے یقین تھا کہ پرائیویٹ سکول میں داخلے کا نتیجہ بھی اس کے فیل ہونے کے مترادف ہوگا۔

دلال اس وقت تک دوسرا سگریٹ سلگا چکا تھا اور میری بات سنتے ہوئے، برابر سرہلا رہا تھا۔ پھر اس نے بولنا شروع کیا۔ اس نے بڑے خلوص سے مشورہ دیا کہ ایسے بیٹے کو لازماً فوجی خدمات کے لیے بھیج دینا چاہیے۔ اس سے اس کی شخصیت میں نظم و ضبط آئے گا۔ مگر میں نے واضح طور پر اس مشورے کو منظور کرنے سے انکار کر دیا اور صرف اتنا کہا کہ میری مجبوریاں ہیں اور میں ایسا نہیں کر سکتا۔ دلال اب پوری صورتحال سمجھ چکا تھا۔ وہ فوراً اصل مسئلے کی طرف آیا اور کہنے لگا:
’’
آپ کو شروع ہی میں میرے پاس چلے آنا چاہیے تھا۔۔۔‘‘
’’
کل تو چھٹی ہے اور آج صبح ہم آپ کے پاس آگئے ہیں!‘‘
’’
نہیں میرا مطلب یہ نہیں، جب آپ کا بیٹا کم عمر تھا، تب ہی آپ کو فیصلہ کر لینا چاہیے تھا کہ آپ اسے فوجی خدمات کے لیے بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔۔۔ آپ کو پتا ہے کہ آپ کے بیٹے کی طلبی کا حکمنامہ کیوں جاری ہوا ہے۔ چند ماہ پہلے اس نے شناختی کارڈ جاری کروانے کے لیے درخواست دی تھی۔ اس درخواست کی ایک نقل لازمی فوجی خدمات کے محکمے کو بھی بھیجی جاتی ہے۔ اگر درخواست گزار نے لازمی فوجی خدمات سرانجام نہ دی ہوں تو فوراً طلبی کا حکم جاری کر دیا جاتا ہے۔۔۔ خیر اب کوئی نہ کوئی راستہ تو نکالنا ہوگا۔۔۔‘‘

مجھے کچھ اطمینان محسوس ہوا۔ میں نے دلال کو ہر حال میں کام کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کی تعریف کی۔ اس نے یقین دلایا کہ وہ ہر قسم کی خدمت کے لیے تیار ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ بھرتی کے دفتر میں ایک بڑا افسر اس کا بڑا ’مہربان‘ ہے اور وہ اس سے ایک آدھ ہفتے کی رعایت حاصل کر لے گا۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرایا اور اس کے پیلے دانتوں کی بتیسی نظر آئی۔ مجھے اس مسکراہٹ میں پوشیدہ پیغام بھی مل گیا اور اس کا مطلب فیس کا تقاضا تھا۔ میں فوری طور پر اسے روپے دینے کے لیے تیار تھا مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ مجھے خیال آیا کہ وہ سکتا ہے کہ وہ مجھ جیسے اعلیٰ مرتبہ زمیندار اور گاؤں کے نمبردار سے ’فیس‘ نہ لے۔

میرے طلبی کے حکم اور اس کو منسوخ کروانے کے لیے میری کوششوں کے بارے میں گھر میں کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ میں واپس گاؤں آیا اور مردان خانے میں آبیٹھا۔ میں نے زمینوں کی واپسی اور اس سے جڑے دیگر معاملات پر غور کرنا شروع کیا۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس زمین پر اپنے قبضے کی تیاری کر لینی چاہیے۔ ان کسانوں کی فہرست تیار کرنا تھی جو ضبطی کے وقت سے اس زمین پر کھیتی باڑی کرتے چلے آرہے تھے۔ ان میں سے کچھ کسان نہایت قلیل رقم میں زمین خریدنے کی سوچ رہے تھے اور کچھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو آسان قسطوں میں حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آجاتا، مجھے خاموشی سے ان کسانوں کے تیور دیکھنا ہوں گے۔ معلوم نہیں وہ پُرامن اور دوستانہ طور پر زمین کا قبضہ چھوڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں یا پھر پولیس منگوانا ہو گی۔ جب تک زمین پر ایک بھی کسان موجود ہے، مجھے زمین کا قبضہ نہیں لینا چاہیے۔ میں ان کے جانے کے بعد خود کاشت کروں گا اور لاکھوں روپیہ کما سکوں گا۔

اگلی صبح منشی، دلال سے ملنے گیا۔ جب لوٹا تو اس نے دلال کی طرف سے یقین دہانی کی خبر دی۔ ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا کہ دلال وقت آنے پر اپنے ’معاوضے‘ کی رقم طلب کرے گا۔ یہ رقم اچھی خاصی ہو سکتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں پھر دلال سے ملنے گیا۔ دلال نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو حل تجویز کیے۔ ایک یہ کہ مجھے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھیج دینا چاہیے۔ جب تک لام بندی کا معاملہ ٹھنڈا نہ ہو جائے، اسے ملک سے باہر ہی رہنا چاہیے۔ میں نے اس تجویز کو سنتے ہی ردّ کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دوسرا حل پیش کیا۔

حل یہ تھا کہ کسی ایسے لڑکے کے بارے میں معلوم کیا جائے جو میرے بیٹے کا ہم عمر ہو، جس کی پیدائش کا دن بھی وہی ہو، جس دن میرا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ اس کے خدوخال بھی اس سے ملتے جلتے ہوں۔۔۔ تاکہ اسے میرے بیٹے کی جگہ بھرتی کے لیے بھیجا جاسکے۔ فوجی خدمت کے دورانیے میں میرا بیٹا گاؤں میں نہ رہے اور سب کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ وہ فوجی خدمت کے لیے گیا ہوا ہے۔
گاؤں لوٹ کر منشی نے گاؤں کے پیدائش اور اموات کے رجسٹر کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ آخر کاغذ کا ایک پرزہ مجھے تھما دیا۔ اس پر ایک نام ’عارف‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ لڑکا ایک ریٹائرڈ چوکیدار کا بیٹا ہے اور گاؤں بھر میں اپنی ذہانت اور غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی جماعت میں اول آتا ہے اور لوگوں کے سامنے کئی مرتبہ میں نے اس کی تعریف کی ہے۔ کتنی ہی بار میں نے اس سے حسد محسوس کیا ہے اور چاہا کہ کاش وہ میرا بیٹا ہوتا۔ عارف کو پچھلے سال سے اپنی پڑھائی کو چھوڑ کر کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے اور اس کے باپ کی استطاعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ مزید پڑھے۔ اب وہ زرعی اصلاحات سے ملنے والی چند ایکڑ زمین پر اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا ہے۔

عارف کا نام پڑھ کر میرے اندر ہمدردی کا بگولہ اٹھا اور میں نے منشی سے کہا کہ وہ عارف کی بجائے کسی اور کو تلاش کرے۔ مجھے لگا کہ میں بھی انسان ہوں اور سینے میں دل اور دل میں دوسروں کے لیے رحم رکھتا ہوں۔ میں ہرگز نہ چاہوں گا کہ میری وجہ سے کسی پر ظلم ہو۔ منشی ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کئی ایک نام لکھ کر لے آیا۔ یہ سب اسی دن پیدا ہوئے تھے، جس دن میرے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ میں نے ان ناموں پر نظر ڈالی۔ آخر کار میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عارف ہی بہترین انتخاب ہے۔ میرے چہرے پر تردّ دیکھ کر منشی کہنے لگا کہ مجھے کیا تردّد ہے۔ میں تو عارف پر ایک احسان کر رہا ہوں۔ جو زمین اس وقت اس کے باپ کے پاس ہے وہ جلد میرے پاس آنے والی ہے۔ اس کے بعد عارف کے اہل خانہ کی آمدنی کا واحد ذریعہ ان کے باپ کی پنشن رہ جائے گا۔ عارف کو کوئی نہ کوئی کام تو ڈھونڈنا ہی ہو گا۔ اس طرح اپنے بیٹے کی جگہ اسے فوج میں بھجوا کر، دراصل میں اس کے روزگار کا بندوبست کر رہا ہوں۔ اس کو فوج سے کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے لیے سب کچھ ملے گا۔ تنخواہ کی رقم وہ گھر والوں کے لیے روانہ کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عارف اپنے طور پر بھی فوج میں ملازمت کے لیے کوشش کر رہا ہو کیوں کہ اس کے گھر والوں کو زمین کی واپسی کی اطلاع ضرور مل گئی ہو گی۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ اپنے نام سے بھرتی ہو یا میرے بیٹے کے نام سے۔

میں منشی کی باتیں سن رہا تھا۔ بظاہر یہ مجھے خوش کرنے والی باتیں تھیں مگر میرے دل اور دماغ پر بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ میں مسلسل منشی سے سوال کر رہا تھا اور وہ مسلسل مجھے مطمئن کرنے والے جواب دے رہا تھا۔ اس کا زور اس بات پر تھا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں ، دراصل چوکیدار اور اس کے بیٹے کے فائدے میں ہے اور اس سے میرے بیٹے کو جو فائدہ پہنچ رہا ہے، وہ محض اتفاقی ہے۔ جب منشی بولتے بولتے اور میں سنتے سنتے تھک گیا تو میں نے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔
میرے گھر سے باہر نکلتے ہوئے منشی نے کہا:
’’
ٹھیک ہے، تو پھر اﷲ کا نام لے کر کام شروع کرتے ہیں۔‘‘