اخلاقیات،طبقات اور پیشے 

qazi-310x387فرحت قاضی

ہمارے حالات
ہمارے سماجی اور اخلاقی رویوں کا تعین کرتے ہیں۔

ایک زمیندار کی زمین نہری ہے تو پانی کی اپنی باری کا انتظار کرتا ہے یا پھرنہر کا بہاؤ اپنے کھیتوں کی طرف موڑنے کے منصوبے بناتارہتا ہے اور اگر بارانی ہے تو عبادات اوردعاؤں کی جانب زیادہ راغب ہوتا ہے اس حوالے سے ایک دلچسپ اور غور طلب لطیفہ بھی ہے۔

ایک باپ کی دو بیٹیاں تھیں ایک کا شوہر زمیندار اور دوسرے کا بھٹہ خشت کا مالک تھا جب وہ زمیندار کے پاس جاتا تو بیٹی منت کر تی:۔
’’
بابا! فصل سوکھ رہی ہے اللہ میاں سے بارش کی دعا کرو‘‘
اورجب بھٹہ خشت کے گھر جاتا تو یہ بیٹی قریب آکربیٹھ جاتی:۔
’’
بابا! اینٹیں ابھی گیلی ہیں اور بادل آسمان پر منڈلارہے ہیں اللہ میاں سے دُعا کرو کہ بارش نہ ہو ورنہ ہمارا بڑا نقصان ہوگا‘‘

ایک حکیم یا ہومیو پیتھک کے پاس علاج کے لئے جاؤ گے تو جدید ایلو پیتھک علاج کے نقائص بیان کرنے پر اپنا تمام زور صرف کردے گا۔ ڈاکٹر سے طبی معائنہ کراتے وقت حکیم یا ہو میو پیتھک کا ذکر لے بیٹھوگے تو وہ اس طریق علاج پر اپنے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے لگے گا۔

اسی طرح ایک دیہی باشندے کوراہ جاتے ہوئے راستہ میں پڑاہزار روپیہ کا نوٹ مل جاتا ہے تو اٹھاکر اِدھر اُدھر نظر دوڑاتا اور صدا لگاتا ہے کہ یہ جس کا بھی ہے نشانی بتاکرمجھ سے لے لے تاجر کے ہاتھ لگ گیا ہے تو اٹھائے گا کلمہ پڑھے گا اللہ کا شکر ادا کرکے جیب میں اڑس لے گا اور اس کے بیٹے کی نظر میں آگیا ہے تو زمین پر خود کو ایسے انداز میں گرائے گا گویا ٹھوکر کھالی ہے۔ آہستہ اورچھپ کر اٹھائے گا اورپھر ایسے اٹھے گا اور خود کو جھاڑ کر مٹی اور دھول صاف کرے گا کہ اگلے کو احساس ہی نہیں ہوپائے گا کہ یہ سب کھیل نوٹ کے لئے کھیلا گیا۔

جب افغانستا ن میں سوویت افواج آگئی تھیں اور ان کے خلاف جنگ کو جہاد کا نام دیا گیا تو پاکستان میں تمام نصاب تعلیم کو جہادی ادب بنادیا گیا تھا علاوہ ازیں امام مسجد اور مذہبی جماعتوں کے رہنماء اپنے کارکنوں اور عوام کا ذہن جہادی بنانے کے لئے اپنی تقریروں میں جہاد کی فضیلت ایسے انداز میں بیان کرتے تھے کہ سادہ لوح بندوق اٹھا نے پر مجبور ہوگئے تھے۔

نائن الیون نے صورت حال بدل دی تو وہی جہادی دہشت گرد بنادئیے گئے امریکہ سمیت کئی ممالک نے ان کو دہشت گرد قرار دے دیااور جنگ کا آغاز بھی کردیا۔
سیدھا سادا کسان کا بیٹا صبح سویرے اٹھتا اور کھیتوں پر چلا جاتا ہے ان کو پانی دیتا ہل چلاتا اور پکنے پر فصل کاٹتا ہے شام کو تھکا ہوا گھر لوٹتا نماز پڑھتا اور کھانا کھانے کے بعد سوجاتا ہے۔ دکاندار کا بیٹا باپ کو دیکھتا ہے جو منڈی میں ایک تاجر سے سودا لیتا ہے چیز اور چیزوں میں نقائص کو سامنے لاکر کم قیمت پر خریدتا ہے اور وہی چیز جب اپنی دکان میں گاہک پر بیچتا ہے تو خوبیوں اور تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے چنانچہ گاہک زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

ریڑھی بان ریڑھے میں سرخ، تازہ اور موٹے ٹماٹر آگے اور نمایاں جگہ پر رکھتا ہے چھوٹے ،سبزاورخراب ان کے پیچھے چھپاکر رکھ دیتا ہے گاہک لال دیکھ کر کھنچا چلا آتا ہے گھر جاکر شاپنگ بیگز کھولتا ہے تو آدھے صحت مند ہوتے ہیں اور آدھے ردی کے ٹوکری کی نذر ہوجاتے ہیں۔

گھر کے تمام جوان کام اور روزگار کررہے ہیں کوئی دفتر چلا جاتا ہے کسی کے پاس سوزوکی ہے کوئی چھابڑی اٹھالیتا ہے ان میں ایک ایسا فرد بھی ہے جو محنت مزدوری سے جی چراتا اور کام چور ہے تو اس کا رویہ اور بات چیت کا انداز ان افراد خانہ سے مختلف ہوگا۔

شہری جب کوئی کام کرتا ہے یاا سے کوئی کام کا کہتا ہے تو اس کا معاشی پہلو مدنظر رکھتا ہے حتیٰ کہ سخت گرمی ہے دھوپ میں کھڑا ہے تم نے ازراہ ہمدردی کہہ دیا:۔
’’
بھائی!سائے پر ہوجاؤ،، 
تو پوچھے گا: ’’کیا دوگے،،
گھر میں نوکر چاکر کام میں جتے ہوئے ہیں کوئی محل نما گھر صاف کررہا ہے کسی کے ہاتھ میں جھاڑو اور کوئی چائے یا کھانا پکانے میں لگی ہوئی ہے۔ دولت مند تاجر کی حسین بیوی فارغ ہے آئینے کے پاس آتی ہے کبھی ایک تو کبھی دوسرا پاؤڈر چہرے پر لگاتی ہے لمبی زلفیں ہیں ان کو سنوارتی ہے الماری کے پاس آکر کپڑوں کاانتخاب کرتی ہے۔

مزدور کی بیٹی ہے کارخانے جاتی ہے برقعہ پہنا ہوا ہے کام کی جگہ پر اتار کرکام میں جت جاتی ہے مشین چل رہی ہے لمبے بال اس سے ٹکراتے ہیں تو خوف سا پیدا ہوتا ہے بالآخر چھوٹا کردیتی ہے گھر جاتے ہوئے بوڑھے باپ کے لئے دوا اور بہن بھائیوں کے لئے چنے بھی لے جاتی ہے تھکن دور ہوتی ہے تو درسی کتاب اٹھا کر مطالعہ میں مصروف ہوجاتی ہے۔

ذاتی ملازم ہے تو خود کو مالک کا وفادار ظاہر کرنے کی نمائش کرتا رہتا ہے کبھی کبھار منت سماجت تو با اخلاق ہونے کا مظاہرہ کرکے اپنا مطلب نکالتا ہے کارخانہ میں مزدور ہے تنخواہ میں اضافہ اور بونس کا طلب گار ہے مطالبہ کرتا ہے دیگر محنت کش بھی یہی چاہتے ہیں تو یونین کا صدر مالک سے بات چیت کرتا ہے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ہے۔ مالک گفتگو کے اس سلسلہ کو طول دیتا ہے تاکہ دو چار مہینے کی بچت ہو مزدور یونین کا رہنماء اور محنت کش تنگ آکرہڑتال کی دھمکی دے دیتے ہیں۔

دیہہ میں نوجوان کبڈی،گلی ڈنڈا، کرکٹ، فٹ بال اور ہاکی کھیلتے ہیں ان کے لئے یہ صرف کھیل ہیں یہ زیارت پر جاتے ہیں تو مزارات پر بھی حاضری دیتے ہیں شہر ی نوجوان بھی یہی کھیل کھیلتے ہیں یہاں پر بھی مذہبی اجتماعات کے انعقاد ہوتے رہتے ہیں موسم آتا ہے تو پتنگ بھی اڑاتے ہیں دھڑلے سے بسنت مناتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ان کھیلوں اور اجتماعات سے مالی اور معاشی فوائد اٹھانے کی فکر بھی کرتے رہتے ہیں۔

بس سٹاپ پر ٹھہرتی ہے کنڈیکٹر ضعیف العمر شخص کی جانب ہاتھ بڑھاتا اور سیٹ پر ادب سے بٹھا دیتا ہے مسافروں کا رش ہے بوڑھوں اور عورتوں سے معذرت کرتا ہے 
’’
جگہ نہیں ہے‘‘
بھانہ ماڑی اور حیات آباد پشاور کے دو علاقے ہیں اول الذکر پس ماندہ ہے یہا ں کے باسی غریب اور ناخواندہ ہیں اور موخر الذکر پوش علاقہ ہے ،اس کے باسی تعلیم یافتہ، اپنے حقوق سے واقف اور مضبوط مالی پوزیشن کے حامل ہیں۔

بھانی ماڑی میں پولیس اہلکار سڑک پر کھڑا ہے ایک شخص سامنے سے آرہا ہے اس کے سر پر ٹوپی اور کندھوں پر چادر رکھی ہوئی ہے اسے پاس بلاتاہے مشکوک نگاہوں سے دیکھتا اور پوچھتا ہے کہاں سے آاور کہاں جارہے ہو ہاتھ بڑھا کر جیبوں کو ٹٹولتا ہے۔

پھرہاتھ سے جانے کا اشارہ کرتا ہے

حیات آباد کے ایک چوک میں ایک جانب کھڑا ہے گاڑیوں کو آتے اور جاتے دیکھتا ہے ڈیوٹی پوری ہوتی ہے جگہ پر چلاجاتا ہے۔
شاہی باغ اور فقیر آباد میں ڈیوٹی ہے شام کا دھندلکا ہے ایک نوجوان جوڑا باغ کے کنارے بیٹھا گپ شپ لگا رہا ہے شک کی نگاہ سے دیکھتا سوالات کرتا اور سو دوسو روپے لے کر آگے نکل جاتا ہے۔
وسیع و عریض محل نمابنگلہ ہے پولیس اہلکار گیٹ پر کبھی بیٹھتا اور کبھی کھڑا ہوجاتا ہے ایک لمبی گاڑی آتی ہے اس کو ڈرائیور چلا رہا ہے پیچھے دو لڑکیاں بیٹھی ہیں دروازہ کھلتا اور گاڑی اندر داخل ہوتی ہے۔

جنرل یحیٰی ٰ کا دور حکومت ہے
ایک خاتون گیٹ پر دستک دیتی ہے چوکیدار کندھے پر بندوق کے ساتھ کھول کر دیکھتا ہے:۔
’’
بی بی اندر جانے کی اجازت نہیں ہے‘‘
’’
میرا نام ترانہ اور جنرل صاحب نے بلایا ہے‘‘
چوکیدار رابطہ کرتا ہے دروازہ کھولتا ہے بی بی قدم بڑھاتی ہے اگلے روز پھر وارد ہوتی ہے

اندر داخل ہوتی ہے اور جب باہر نکل کر دو قدم آگے جاتی ہے تو مڑ کر چوکیدار سے پوچھتی ہے:۔
’’
آج اندر جانے کا نہیں پوچھا؟‘‘
پٹھان چوکیدار جواب دیتا ہے:۔
’’
بی بی کل آپ ترانہ تھیں اوراب خیر سے قومی ترانہ

One Comment