سعودی عرب :اسلامی ریاست جہنم سے بھی بدتر

15192777_401

جب بھارت سے بڑے بڑے خواب آنکھوں میں سجائے سعودی عرب کا رخ کرنے والے تارکین وطن وہاں خود پر بیتنے والے لرزہ خیز واقعات اور اپنے دیگر ساتھیوں کا احوال بتاتے ہیں تو خوف اور دکھ ان کی آنکھوں سے چھلکنے لگتا ہے۔

عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے سعودی عرب پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بحران کی شکار سعودی معیشت، جس کا بڑا حصہ تیل کی آمدن پر مشتمل ہے، اب ہزاروں تارکین وطن کی ملازمتیں ختم کر چکی ہے۔ یہ ہزاروں غریب مزدور سعودی عرب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ واپس اپنے اپنے وطن جا سکیں اور نہ ان بے روزگار افراد کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ اپنی خوراک ہی خرید سکیں۔

مشرقی بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے چالیس مزدور رواں ہفتے جیسے تیسے کر کے گھر واپس لوٹے ہیں۔ ان افراد کے ساتھ وہ دل دوز کہانیاں بھی ہیں، جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان مزدوروں کے مطابق انہیں ’مرنے کے لیے چھوڑ‘ دیا گیا تھا۔

لبنان کے ارب پتی اور سابق وزیراعظم سعد حریری کی ’اوگر‘ نامی سعودی تعمیراتی کمپنی میں کسی دور میں پچاس ہزار کے قریب ملازمین کام کرتے تھے۔ مگر تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کی وجہ سے سعودی حکومت نے متعدد تعمیراتی پروجیکٹس منسوخ یا مؤخر کیے ہیں اور اس کا براہ راست اثر اس کمپنی میں بھی ملازمین کی تعداد میں کمی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ہفتے نئی دہلی واپس لوٹنے والے عمران حسین نامی ایک الیکٹریشن کا کہنا تھا، ’’انہوں نے اچانک کینٹین بند کر دی۔ تین روز تک ہمارے پاس کھانے یا پینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور نہ ہی بجلی تھی‘‘۔

عمران نے مزید بتایا، ’’میرے کفیل کی جانب سے میری دستاویزات کی تجدید نہیں کی گئی تھی، اس پر انہوں نے مجھے حراست میں بھی لے لیا‘‘۔

ستائیس سالہ عمران حسین نے بتایا کہ وہ ریاض میں سعودی شاہ سلمان کے محل کی تزئین و آرائش کے کام میں شامل تھا۔ عمران حسین اور اس کے ساتھیوں نے نئی دہلی پہنچ کر سعودی عرب میں گزارے گئے اپنے شب و روز کی داستان اے ایف پی سے بانٹی۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اب غیرملکی مزدوروں کے لیے ’جہنم سے بھی بدتر‘ بن چکا ہے۔

عمران حسین ان لاکھوں غریب ایشیائی مزدوروں میں سے ایک ہے، جو خلیجی ریاستوں میں کام کرتے ہیں تاہم وہاں ان کا بری طرح استحصالہوتا ہے اور بعض اوقات انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، تاہم ان کی شکایت سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔

سعودی عرب میں کفالت سے متعلق قانون کے مطابق کوئی بھی غیرملکی مزدور اپنے کفیل کی مرضی کے بغیر کوئی نئی ملازمت بھی اختیار نہیں کر سکتا، جب کہ کنٹریکٹ کی مدت مکمل ہونے سے قبل اسے اپنے کفیل کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ ملازمت تبدیل کرنا چاہتا ہے مگر بعض تارکین وطن اس پورے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ان قوانین اور قواعد پر سخت تنقید کی جاتی ہے اور انہیں جبری مشقت اور غلامی تک قرار دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہزارہا پاکستانی شہریوں کا بھی سعودی عرب میں حال مختلف نہیں ہے اور اُن میں سے کئی وہاں اسی طرح کی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنے کے بعد کسی نہ کسی طرح سے اپنے وطن لوٹ جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

سعودی عرب، جسے کہ پاکستانی یا مسلم ذرائع ابلاغ ایک اسلامی ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں، میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ جس پر مسلم ذرائع ابلاغ بھی خاموش رہتے ہیں۔

DW/News desk

Comments are closed.