وما علینہ الالبلاغ

خورشید کمال مرزا

the-man-behind-the-mask1

نحمدہ و نصلی علی رسول الکریم۔۔۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو پاکستانی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق اپنی ہر تقریر سے پہلے ادا کرتے تھے۔

منافقت تو پاکستان کے خمیر میں شامل تھی ہی لیکن جنرل ضیا الحق کی اسلامائزیشن اور جہاد افغانستان نے اس میں مزید اضافہ کیا اور منافقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کو ہیروئن ، کلاشنکوف کا تحفہ دیااور قوم نے ان تحفوں کو قبولیت بخشی۔

جنرل ضیا کی اسلامائزیشن نے کچھ اصطلاحات بھی ہماری روزمرہ کی زندگی میں متعارف کرائیں اور آج صورتحال یہ ہے کہ اگر ان سے انکار کیاجائے تو اس سے کسی کے مسلمان ہونے پر شک کا اظہار کیا جاتا ہے۔

جنرل ضیا کے اقتدار پر قبضے سے پہلے کتب میں جہاں کہیں حضرت محمد کا ذکر آتا تو عام طور پر صرف ص کا نشان یا پھر صلعم لکھ دیا جاتا۔ تقسیم ہند (1947) سے پہلے کی کتابوں میں تو ص کا نشان یا صلعم بھی لکھنے کا بھی کوئی رواج نہیں تھا۔ بلکہ اس دور کے لٹریچر میں حضرت محمد کی جگہ محمد صاحب لکھا ملتا ہے۔

اگر آپ تقسیم سے پہلے کی چھپی ہوئی کتب دیکھیں جو شاید لائبریوں میں مل جائیں ۔ان میں سرسید احمد خان اور ان کےرفقا کی کتب قابل ذکر ہیں جن میں حضرت محمد کی بجائے لفظ محمد صاحب لکھا ملتا تھا۔

پاکستان بننے اور خاص کر قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب مذہبی جماعتوں نے اپنے قدم جمانے شروع کیے تو آہستہ آہستہ حضرت محمد کے نام کے ساتھ مزید القابات کا اضافہ ہوتا گیا۔

جنرل ضیا کی اسلامائزیشن نے تو اسےاتنا بڑھاوا دیا کہ لفظ محمد کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا لازمی قرار پاگیا اور ایسانہ لکھنے والے کو توہین مذہب یا رسالت کے زمرے میں شمار کیا جانے لگا۔

اسی دور میں لفظ محمد کے انگریزی ہجے بھی تبدیل ہوئے پہلے محمدکے انگریزی ہجے

MOHD یا پھر MOHMMAD

ہوتے تھے۔ لیکن جنرل ضیا کے دور میں ہجے تبدیل کرنے کی باقاعدہ ایک مہم شروع ہوئی اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے دفاتر کے باہر باقاعدہ ایک نوٹس آویزاں کیا گیا کہ آئندہ سے لفظ محمد کے ہجے

MUHAMMAD

لکھے جائیں اورجو کوئی نہیں لکھے گاوہ گستاخی کا مرتکب ہو گا اور دفتر ہذا ازخود اس کےسپیلنگ تبدیل کر دے گا۔ لہذاانگریزی میں لفظ او کی جگہ یو شروع ہوگیا جو کہ حضرت محمد کے ساتھ محبت کا ثبوت تھا۔

جوں جوں معاشرے میں اسلام اور حضرت محمد کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا گیا اور توں توں کرپشن، جھوٹ اورفراڈ میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

جنرل ضیانے اپنی تقاریر میں خدا حافظ کی بجائے اللہ حافظ کی اصطلاح بھی متعارف کرائی۔ علما نےبتایاکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے اپنے خدا بنا رکھے ہیں ۔چونکہ ہمارا خدا سچا ہے اور اس کا نام اللہ ہے۔ یعنی اللہ صرف مسلمانوں کے لیے ہے اس لیے اللہ کو خدا کہنا اللہ کی بے حرمتی ہے ۔ لہذا خدا حافظ کہناغلط ہے اور یوں اللہ حافظ فروغ پاتاگیا۔جزاک اللہ، الحمدللہ اور انشا اللہ کے بغیر اسلام نا مکمل ہو گیا۔

پاکستان کی عوام جو سچے دل سے اپنے مذہب اور اس کے رسول سے محبت کرتی ہے نے نئی اصطلاحات کو قبول کر لیا۔ لہذا یہ سوچنا بھی غلط ہو گیا کہ کیا اس سے پہلے چودہ سو سالوں سے لوگ اللہ اور اس کے رسول سے کم محبت کرتے تھے۔ ریڈیو ٹی وی پر اسلامی دروس کا آغاز ہوا۔ اناونسرز کو دوپٹہ اوڑھا دیا گیا۔اساتذہ نے داڑھیاں بڑھا لیں۔ تعلیمی اداروں میں ظہر کی نماز لازمی قرار دی گئی۔

کسی بھی تقریب کا آغاز صرف بسم اللہ کی بجائے باقاعدہ تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوگیا۔ آہستہ آہستہ اس میں حمدو نعت کا اضافہ بھی ہوتا گیا۔ شاعروں نے جب دیکھا کہ یہ تو منافع بخش کام ہے لہذاانہوں نے اپنے کلام میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ حمد و نعت کا اضافہ بھی کر لیااور باقاعدہ مجموعے چھپنا شروع ہوگئے۔

اس دوڑ میں غیر مسلم شاعر بھی پیچھے نہ رہے اور ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو اپنی حیثیت منوانے کے لیے نعت اور حمد لکھنا بھی ضروری ہو گیا۔ اب ہم بڑے فخر سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ دیکھیں جی غیر مسلم بھی حضرت محمد کے کتنے بڑے پرستار ہیں۔

جنرل ضیا کےدور میں اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت کا سبق بھی مزید زور و شور سے پڑھایاجانے لگا تاکہ اس کے غیر قانونی اقتدار کو کچھ تحفظ مل سکے۔اپنے حقوق مانگنے کی بات کرنے کو اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔

کسی لکھاری نے جنرل ضیا کی ڈکیٹٹر شپ کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی یا کسی نے بھول کر جمہوریت کی بات کی تو ان لکھاریوں کی محب الوطنی پر سوال اٹھنا شروع ہوگیا۔

دانشوروں اور لکھاریوں نے معذرت خوانہ انداز اختیار کر لیا۔ کاریگر لکھاری مبہم انداز میں اپنا تجزیہ بیان کر نے لگے وہ لکھاری زیادہ ذہین و قابل سمجھے جانے لگے جو بات گھما پھرا کر اپنا مافی الضمیر بیان کرتے۔

یہ اتنے کاریگر لکھاری ہیں کہ جب اسلام اور طالبان کا زور ہوتا ہے تو ان سے بڑا اسلامی نظام کا حمایتی کوئی نہیں ہوتا اور جب لبرل ازم کا دور ہو تو فیض احمد فیض ان کے استادقرارپاجاتے ہیں۔کشمیر میں جہاد کی مخالفت کرتے ہیں مگر برہان الدین وانی جیسے دہشت گرد کو آزادی کا سپاہی بھی بنا دیتے ہیں۔

جن لکھاریوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا جاتا ہے وہ اپنی تحریروںمیں پہلے پاکستان سے محبت کے گن گاتے ہیں، ایک آدھ بار ہندوستان کی منافقت کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔کچھ تو اپنے بزرگوں کی پاکستان کے قیام کی جدوجہد کو بیان کرتے ہیں پھر چند عربی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور پھر کہیں جاکر اصل بات کرتے ہیں جس کی اہمیت وضاحتوں کے درمیان ختم ہو جاتی ہے۔

Comments are closed.