مہاجر علیحدگی پسندی اور پاکستانی ریاست 

aimal-250x300ایمل خٹک 

مہاجروں نے بھی الگ وطن بنانے کی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ اور مہاجرلبریشن موومنٹ ( ایم ایل ایم ) کے نام سے علیحدگی پسند مہاجروں نے سوشل میڈیا پر زبردست مہم شروع کردی ہے۔ مہاجر لبریشن موومنٹ کا دعوی ہے کہ گزشتہ پچیس سالوں میں فوجی آپریشنوں میں ان کے بیس ہزار جوان ہلاک جبکہ کراچی آپریشن میں بارہ ہزار کے قریب نوجوان گرفتار ہو چکے ہیں ۔ مہاجروں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کی نسل کشی کی وجہ سے وہ اب مزید پنجاب کے زیر تسلط نہیں رہنا چاہتے اور آزادی چاہتے ہیں۔ ایم ایل ایم نے عالمی قوتوں سے پاکستان سے آزادی حاصل کرنے میں ان کی امداد کرنے کی اپیل کے ساتھ ساتھ ان سے مطالبہ کیا ہے کہ مذ ہبی دہشت گردی کی فروغ اور حمایت کرنے پر پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔ 

سرحدوں پر کشیدگی، بلوچستان کا نہ ختم ہونے والہ بحران ، کراچی میں آپریشن ، چین ۔پاکستان اقتصادی راھداری منصوبہ کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کو دانستہ نظرانداز کرنے کی شکایات اور مغربی روٹ کے حوالے سے وزیراعظم کی مسلسل وعدہ خلافی اور عمران خان کی اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان وغیرہ سنگین داخلی اور خارجی چیلنجز ہیں جس کا حکومت وقت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایسے میں کراچی آپریشن کے پس منظر میں اٹھنے والا یہ طوفان آنے والے حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔  

ایم ایل ایم کی قیادت کون کر رہا ہے؟ اس کی تنظیمی ساخت کیا ہے؟ اس کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے ؟ آزادی حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کے کونسے کونسے طریقے اپنائے جائینگے؟ وغیرہ ایسے بہت سے سوالات کے جوابات ابھی واضح نہیں ہیں۔ تاہم ایم ایل ایم بنانے کا  شک تو الطاف حسین کے حامیوں پر کیا جا رہا ہے۔ اب آگے جا کر پتہ چلے گا کہ آیا یہ سودا بازی کیلئے دباؤ بڑھانے یا بلیک میلنگ کے حربے ہیں یا آزادی کے نعرے سنجیدہ نعرے ہیں ۔ اور اگر واقعی آزادی کی بات ہو رہی ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے اور اس کو ٹف ٹائم دینے کی کتنی صلاحیت، سکت اور دم ہے ؟ 

 ایم ایل ایم نے ایک قسم کے پیغامات پر مبنی کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس حال ہی میں فعال کیے ہیں ۔ جن میں ٹویٹر پر تحریک آزادی، مہاجر آزادی   وغیرہ وغیرہ اور فیس بک پر ایم ایل موومنٹ کے نام سے اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر مہاجر لبریشن از اور ڈسٹینی کے نام سے ایک ویڈیو بھی وائرل ہے۔ جس میں مہاجروں کی قربانیوں اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والی زیادتیوں کا بھی ذکر ہے۔ 

ایم ایل ایم مہاجروں پر زور دے رہی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ں ۔ کیونکہ اب پنجابستان سے آزاد ہونے کا وقت آپہنچا ہے ۔ ایم ایل ایم کا موٹو اتحاد ، برابری اور آزادی ہے۔ اس طرح آزاد مہاجر ریاست ھماری منزل اور نسلوں کو بچائیں گے ، آزاد مہاجر وطن بنائیں گے ایم ایل ایم کے نعرے ہیں ۔  ایم ایل ایم کا دعوی ہے کہ وہ پانچ کروڑ مہاجروں کی آواز بن کر پاکستانی دہشت گرد ریاست سے آزادی چاہتے ہیں۔ مہاجروں کو پہلی پنجاب سے آزادی لینی چائیے ۔ ایم ایل ایم کے بقول بلوچ، سندھی اور پشتون بھی پنجاب کے ظلم وستم کے شکار ہیں۔  

ایم ایل ایم کے بقول ہم نے اپنا خون ، اپنے بچے اور اپنا ٹیلنٹ پاکستان کو دیا اب مزید نہیں دے سکتے اب ہمیں مذھبی دہشت گرد ملک پاکستان سے آزادی چاہیے۔ مہاجروں سے امتیازی سلوک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اتحاد ، ایمان اور ڈسپلن ایک خواب تھا جبکہ مہاجروں کی نسل کشی ایک حقیقت ۔ علیحدگی پسند مہاجروں کے مطابق ستر سال کی مسلسل زیادتیوں کے بعد اب مہاجر قوم پاکستان پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ مہاجروں کی آزادی کی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ وہ پنجابی فوج اور حکمرانوں کی غلامی نہیں چاہتے اور آزادی اب مہاجر قوم کا مقدر بن چکی ہے۔ 

ایم ایل ایم کے مطابق مہاجروں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ایک سو دس سال جہدوجہد کی اور پنجابستان سے آزادی حاصل کرنے کیلئے مزید سو سال تک لڑ نے کیلئے تیار ہیں ۔ ایم ایل ایم کے مطابق مہاجروں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ ملک کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ریاستی ادارے مذ ہبی دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے ۔ 

پاکستانی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے یہ امر باعث حیرت اور قابل تحقیق ہے کہ مہاجروں کی عمومی سوچ سخت قوم پرست سوچ تھی ۔ تحریک پاکستان میں سرگرم کردار اور بعد میں ملک بننے کے بعد گھر بار چھوڑ کر نئے ملک میں مہاجرت کی وجہ سے پاکستان کی ساتھ ان کی وابستگی قابل دید تھی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ ہندوستان کے دیگر علاقوں کی نسبت موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں  میں تحریک پاکستان  بہت بعد میں شروع اور انتہائی کمزور رہی۔ اس وجہ سے ملک سے وابستگی کا اظہار انتہائی شدت سے کرنا مہاجروں کا خاصہ رہا ہے۔ 

مہاجروں نے ہمیشہ قومی حقوق کیلئے جہدوجہد کرنے والی دیگر قومیتوں کی حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھا ہے لیکن آج ان کی صفوں سے علیحدگی اور آزادی کی صدائیں بلند ہو رہی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مہاجروں کے اندر اس سوچ کو کتنی پزیرائی حاصل ہے یا ملے گی مگر وہ کونسی وجوہات اور عوامل ہیں جس سے بعض مہاجروں کی سوچ میں یہ یو ٹرن آیا۔  اور اس موضوع پر قلم اٹھانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اصلاح احوال کیلئے اس موضوع پر اہل علم کو بحث مباحثے کی دعوت دی جائے۔ 

اس عمل کے خارجی پہلو تو کسی حد تک واضح ہیں کہ علاقے میں جاری پراکسی وار اب مزید پیچیدہ اور نت نئی شکلیں اختیار کر رہی ہے۔ سٹرٹیجک شطرنج بچھ گئی ہے اور علاقائی اور عالمی قوتیں ایک دوسرے کو مات دینے کیلئے گھوڑے تیار اور میدان میں اتار رہی ہے ۔  ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف فوجیں اتارنے کی نسبت پراکسی وار میں گھوڑے اتارنا مہنگا سودا نہیں ۔ لگتا ہے لوہا لوہے کو کاٹنے کا محاورہ اب سفارت کاری کا ایک اہم اصول بنتا جا رہا ہے۔ 

مگر داخلی پہلوؤں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی خامی یا کمزوری موجود ہے۔ اپنی صفوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسائل کو دیکھنے کا روایتی اور سہل پسند طریقہ کہ ہر چیز کو بیرونی عوامل کے کھاتے میں  ڈالو نہ پہلے کارگر تھا اور نہ اب ہوگا۔  سہل پسند اس وجہ سے کہ کوئی بھی مسئلہ یا تنازعہ بیرونی قوتوں کے کھاتے میں ڈالنے یا انہیں ذمہ دار ٹھہرانے سےانسان اپنی تمام ذمہ داریوں سے مبرا ہو جاتا ہے۔  بیرونی عوامل کا رول تب نکل آتا ہے یا شروع ہو تا ہے جب ہم معاملات کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں یا بعض مصلحتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے یا کسی کو خوش رکھنے یا کسی کی بیجا خوشنودی حاصل کرنے کیئے حالات کو بروقت کنٹرول نہیں کئے جاتے اور قابو  سے با ہر ہوجاتے ہیں۔  

الزامات لگانے، غداری کے تمغے بانٹنے اور جذباتیت کی بجائے اب سنجیدگی سے اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں تو فارسی کی اس مشہور ضرب المثل کہ تنگ آمد بجنگ آمد والی صورتحال تو نہیں بنی ہے کہ ہر کوئی الگ ہونے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ کیا بات ہے اور کس چیز کی کمی ہے کہ ایک ہی گھر کے باسی الگ ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔  سارے بھائی بڑے بھائی کے رویے سے شاکی اور سوتیلے پن کا شکوہ کر رہے ہیں ۔ اگر ایک چھوٹے بھائی کی بات ہوتی تو پھر بھی ہم چھوٹے بھائی کو قصوروار ٹھہراتے مگر اب تو یکے بعد دیگرے باقی تمام بھائی ناانصافی اور اپنے ساتھ امتیازی سلوک کی بات کرتے ہیں ۔ بقول ایک مہاجر سیاسی کارکن کے کہ اب پنجاب کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ باقی تمام قومیں تو غلط نہیں ہو سکتی۔ 

دوسرا ایم ایل ایم کےپیچھے جو بھی داخلی قوت ہے اس نے سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہوگا مگر ایسے فیصلوں کے نتائج کمیونٹی کیلئے بڑے سنگین ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی قوتیں اور سیاسی عمل کمزور ہوجاتا ہے۔ سیاسی سپیس یعنی سیاسی کام کے مواقع کم ہوتے جاتے ہیں۔ شکوک وشبہات بڑھ جاتے ہیں۔ جائز اور ناجائز  پکڑ دھکڑ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تحریر اور تقریر کا حق، اجتماع کا حق اور دیگر بنیادی حقوق پرزد پڑتی ہے۔ پابندیاں اور قدغنیں بڑھ جاتی ہیں۔ قانون نافذ کرنےوالے اداروں کا روزمرہ زندگی میں عمل دخل بڑھ جاتا ہے۔ تھوڑے سے بھی حالات خراب ہو جائیں تو اگر رسمی اعلان نہ بھی ہو تو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ رہتی ہے۔ جس سے عام شہریوں کی مشکلات  بے پناہ بڑھ جاتی ہیں۔  

جب کوئی گروپ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے غیر سیاسی طریقے اپناتی ہے تو ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے سختی سے پیش آنے کا جواز مل جاتا ہے۔ پاکستانی ایجنسیاں اور  قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں پہلے سے بد نام ہیں۔  ایسے حالات میں انسانی حقوق کی پامالی اور غیر قانونی اور ماورائے عدالت کاروائیوں کے رحجان کو تقوی ملتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے انسانی حقوق کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں۔  جس کی جھلک ہمیں انسانی حقوق کی بین القوامی اداروں کی رپورٹوں میں بھی مل جاتی ہے۔

پاکستان کے بعض علاقوں جیسے فاٹا اور بلوچستان میں غیر اعلانیہ میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے بہت سے واقعات کا ملک کے اندر شاید مکمل پتہ نہیں چلتا مگر بیرون ملک رہ کر بہت کچھ پتہ چل جاتا ہے کہ سب اچھا نہیں ۔ مختلف سیاسی اور سماجی کارکن اس سلسلے میں بہت زیادہ سرگرم عمل ہیں اور چھوٹی سی چھوٹی خلاف وزری بھی متعلقہ اداروں کے نوٹس میں لا رہے ہیں۔ مسائل بہت زیادہ ہیں۔ زیادتیاں ہوئی بھی ہیں اور ہو بھی رہی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک دباؤ کی وجہ سے انسانی حقوق کے حوالے سے حکومت پاکستان کی پریشانیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ 

جہاں تک مہاجر لبریشن موومنٹ کا تعلق ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کو کتنی عوامی حمایت حاصل ہے۔ اور وہ کس حد تک مہاجروں کو اپنی حمایت میں متحرک کرسکتے ہیں ۔ مگر اسٹبلشمنٹ کیلئے بیرون ملک سرگرم عمل بلوچوں اور سندھیوں کے علاوہ ناراض مہاجر کارکنوں کی صورت میں اب ایک نیا درد سر پیدا ہوگیا ہے۔  جو مغربی ممالک کے اہم شہروں اور عالمی انسانی حقوق اداروں کے باہر احتجاج کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ مگر ابھی دیکھنا یہ ہے کہ ایم ایل ایم اپنے عمل میں کتنی سنجیدہ ہے اور اسٹبلشمنٹ اس کو کس حد تک سنجیدگی سے لے گی۔

3 Comments