تقسیم پنجاب، ذات اور مارشل نسلیں

atm-akaar-ssآکار پٹیل

پاکستان کی سیاست اور سماج میں فوج کو جو غیر متوازن اہمیت ،غلبہ او ر برتری حاصل ہے ۔ اس کے پس پشت کار فرما سماجی اور معاشی محرکات کیا ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو متحدہ پنجاب کا دو تہائی حصہ ملا جب کہ بھارت کے حصے میں ایک تہائی پنجاب آیا ۔پاکستان میں بھارت کی نسبت زیادہ پنجابی رہتے ہیں ۔تاہم فوربس نے دنیا کے ارب پتیوں کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار صنعتی اور کاروباری خاندان شامل ہیں۔ 

رین بکسی کے سنگھ ، ائیر ٹیل کے متل ، جندل سٹیل کے جندل اور اوینتھاکے تھاپر ۔پاکستانی پنجاب کا کو ئی ایک صنعتی اور کاروباری گروپ ایسا نہیں جو ارب پتیوں کی اس فہرست میں شامل ہو ۔ایسا آخر کیوں ہے؟کیونکہ ہندووں نے مذہب کی تبدیلی انفرادی طور پر نہیں بلکہ بطور ’ذات ‘ کیا تھا ( ایک لمحے کے لئے اس مفروضہ کو جو عام طور پر مسلمانوں میں پھیلا یا جاتا ہے کہ ان کے آباو اجداد عرب ، ایران اور وسطی ایشیا سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے ،طاق پر رکھ دیتے ہیں)۔

ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ان چاروں پنجابیوں کا تعلق ہندوؤوں کی تجارتی برادریوں: بنیوں اورکھتریوں سے ہے۔ہندوؤں کی بہت تھوڑی تجارتی برادریوں نے اسلام قبول کیا تھا۔گجرات (بھارت ) کے لوہانے ایسی ہندو برادریوں میں شامل تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ بھارت اور کراچی کے میمنوں، وہروں اور کھوجوں کا تعلق لوہانہ برادری ہی سے ہے ۔کراچی کی صنعت اور سٹاک ایکس چینج پر لو ہانوں کی مختلف شاخیں قابض ہیں۔ پنجابی ہندو تجارتی برادریوں میں بہت کم ایسی تھیں جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام قبول کیا۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے بنیے اور کھتری ہندو ہی رہے۔ تاہم بہت تھوڑے ایسے تھے جنھوں نے سکھ مت قبول کر لیا ۔

میرا مفروضہ ہے کہ 1947میں پنجابی قوم کی تقسیم کے نتیجے میں ایک ایسا پاکستانی پنجاب وجود میں آیا جہاں ان ذاتوں اور برادریوں کا پلڑا بھاری ہوگیا جنھیں انگریز نے مارشل نسلوں کا نام دیا تھا۔ تجارت سے متعلق برادریاں اور ذاتیں جو اپنے سماجی اور معاشی رویوں میں عملیت پسند اور کسی بھی سماج کو انتہا پسندی اور شدت پسندی سے محفوظ رکھنے میں مثبت رول ادا کرتی ہیں، ترک وطن کر کے بھارت چلی گئیں۔

تجارتی برادریوں اور ذاتوں کے پاکستانی پنجاب سے ترک وطن کرنے کی بدولت ایک ایسا سماجی عدم تواز ن پیدا ہوا ہے جو پاکستانیوں میں ایک ایسی ریاست کے قیام کی خواہش کا موجب بنا ہے جس پر سپاہیوں کو غلبہ اور برتری حاصل ہو۔ پاکستانی فوج کے سر براہ جنرل کیانی ملک کی خارجہ پالیسی چلاتے ہیں۔ وہی ملک کی سکیورٹی پالیسی کو دیکھتے ہیں اور زیادہ تر معاشی پالیسیوں کے نگران بھی وہی ہیں اورا س کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی اس ساری صورت حال پر معترض ہونے کی بجائے خوش ہیں کیونکہ ’مجاہد ‘ کے ہاتھوں میں ریاست کی نگہبانی ان کی جنگجو سائیکی کے عین مطابق ہے ۔ 

بھارت پر کھتری ذات سے تعلق رکھنے والا پنجابی،چکوال کا من موہن سنگھ، حکمران ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’ذات‘ ایسی باتوں کے لئے پیمانہ بن سکتی ہے ؟ہاں میرے نزدیک ایسا ہی ہے ۔ میں نے دو ایسی سٹڈیز کی تھیں جن کے نتائج میرے اس نظریے کی تائید کرتے ہیں ۔پہلی سٹڈی فوربس نے ارب پتیوں کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں شامل پچپن بھارتیوں کی ذاتوں کے حوالے سے تھی۔دوسری ان بھارتیوں کی ذاتوں کے بارے میں جو غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں ۔

ان دو سٹڈیز کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارت اور غیرت کے حوالوں سے بھارتیوں کی ذاتوں کا کردار کس قدر اہم ہے ۔ مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مذکورہ سٹڈیز کے اخذ کردہ نتائج پاکستان پر کیوں منطبق نہیں کئے جاسکتے ایک ایسا علاقہ جو 63 سال قبل ہندوستان تھا اور جس کی ثقافت کے بہت سے عناصر ابھی تک وہی ہیں جو چھ عشرے قبل تھے ۔

بھارت میں غیرت کے نام پر قتل مخصوص برادریوں اور ذاتوں سے متعلق افراد کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک غیرت کا ایک مخصوص مفہوم ہے ۔بنئے اور برہمن اپنی بیٹیوں کو کسی ’غیر‘ سے محبت کرنے کی بنا پر قتل نہیں کرتے ۔ایسا عام طو ر پر کسان اور وہ بھی جاٹ کرتے ہیں۔حتی کہ کسانوں میں بھی بعض ذاتیں ایسی ہیں جو غیرت کے نام پر قتل نہیں کرتیں کیونکہ ان کے کلچر میں ’عزت‘ اور ’غیرت ‘کا کوئی مخصوص اور متعین مفہوم موجود نہیں ۔گجرات (بھارت ) کے کسان غیرت کے نام پر قتل نہیں کرتے کیونکہ پنجابیوں کے برعکس ان کا کلچر تجارتی عناصر سے مرکب ہے۔

اگر ہم معروف پاکستانیوں کی ذاتوں پر ایک نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک خاص پیٹرن نظر آتا ہے۔اپنے اس نکتے کو واضح کرنے کے لئے میں چند ایک پاکستانیوں اور ان کی ذاتوں کا ذکر کروں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ۔مشہور سائنس دان پرویز ہو د بھائی ( لوہانہ کھوجہ ) عبد الستار ایدھی ( لوہانہ میمن ) اورنجم سیٹھی ( کھتری )۔یہ تینوں افراد پاکستان کے بہترین اور شاندار پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ 

میرا یہاںیہ کہنے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں کہ ان تینوں افراد میں جو صلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہیں وہ محض مخصوص ذاتوں سے تعلق رکھنے کی بدولت ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی ذاتوں میں ایسی متانت اور سنجیدگی ضرور پائی جاتی ہے جس کی بدولت ایسی شخصیات بڑی آسانی سے پیدا ہو جاتی ہیں ۔زراعت پیشہ ذاتوں میں ایسا ہونا مشکل ہے اور حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی آبادیوں میں زراعت پیشہ ذاتوں ہی کو غلبہ حاصل ہے ۔ان کی ذات اور ثقافت عملیت پسندی کی بجائے غیرت اور عزت کے گرد گھومتی ہے ۔

جنرل کیانی نے ، جو پنجابی اور گھکھڑ جیسی مارشل ریس سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ خوشحالی کی خاطر پاکستان کی عزت کا سودا نہیں کیا جائے گا ‘۔ایک مجاہد ہی ایسا بیان دے سکتا ہے اور ایک مجاہد قوم ہی ایسا بیان قبول کر سکتی ہے۔ہمارے ہاں بھارت میں جنرل کیانی جیسی سوچ کے حامل افراد کو جواب دینے کے لئے پر ویز ہود بھائی ، ایدھی اور سیٹھی جیسے بہت سے افراد موجود ہیں ۔

پاکستان کا مسئلہ یہ نہیں کہ یہاں مجاہدانہ طرز عمل کی حامل ریاست کی مزاحمت کرنے والے افراد موجود نہیں ۔اس کا مسئلہ یہ ہے کہ تقسیم پنجاب کے بدولت یہاں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے ۔

(ترجمہ :لیاقت علی ایڈووکیٹ)

3 Comments