کوئٹہ حملہ: عوام کیا کہتی ہے

quettacollegeattack

  نیا زمانہ رپورٹ

دہشت گردوں نے ایک بار پھر کوئٹہ کو نشانہ بنایا ہے، اس دفعہ ان کا نشانہ پولیس ٹریننگ کالج تھا۔ حکومت نے ذمہ داری را پر ڈالنے کی بجائے لشکر جھنگوی پر ڈالی ہے جبکہ وائس آف جرمنی کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ بہرحال داعش ہو یا لشکر جھنگوی یا لشکر طیبہ یا داعش یہ تمام تنظیمیں آپس میں گہرا نیٹ ورک موجود ہے ۔ لیکن ان جماعتوں کے قائدین پاکستان میں آزادی سے گھوم رہےہیں اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے نعرے لگاتے ہیں۔

اس حملے سے ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک بار پھر ناکام ہو گئیں ہیں۔آئی جی ایف سی کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کو افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کو ہدایات جہاں سے مرضی مل رہی ہوں ان کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟   پاکستانی میڈیا ملٹرائزہو چکا ہے لہذا وہاں ایک خاص قسم کے مائنڈ سیٹ کے مطابق تجزیے کیے جا رہے ہیں  جو کہ پاکستانی عوام کی سوچ کے بالکل برعکس ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔

نامور کالم نگار مقتدا منصور نےلکھا

کوئٹہ میں61 نوجوان پیوند خاک کردئیے گئے۔ 100 سے زائد اسپتالوں میں موت وزیست کی کشمکش میں ہیں۔صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا فرمانا ہے کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ ماشااللہ کیا پورا شہر خون کی جھیل بن جاتا تو ان کی نظر میں بڑا نقصان ہوتا؟ یہ ہیں ہمارے حکمران، یہ ہیں ہمارے محافظ۔ انہیں یہ جملہ کہتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ اصولی طورپر تو انہیں اور چوہدری نثار دونوں کو مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ کیونکہ چند روز پیشتر ہی چوہدری نے کالعدم تنظیموں کے افراد کے شناختی کارڈ جاری کئے تھے۔جس جگہ یہ سانحہ ہوا،کہا جاتا ہے کہ کسی قسم کا حفاظت کو کوئی انتظام نہیں تھا۔ حیرت ہے کہ وہ شہر جہاں چپے چپے پر ایف سی کی چیک پوسٹس ہیں۔مگر کون پوچھے؟ کس سے پوچھے؟ کون جواب دے گا؟ کس کا احتساب ہوگا؟احتساب تو 80 برس کے بوڑھے فلسفی کا ہورہاہے،۔سابق طالب علم راہنما کا ہورہاہے۔جن پرارکھنے کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔ گویا وہ استاد جو ہاتھ میں چاک لئے ساری زندگی فلسفہ، منطق اور استدلال پڑھاتا رہا۔ کیا صرف نہتے لوگوں پر زور چلتا ہے؟

نامور سوشیالوجسٹ ارشدمحمود لکھتے ہیں

پاکستان کی وہ چند مصنوعاتجس سے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن ہے:۔لشکرجھنگوی، لشکرجھنگوی العالمی، جنداللہ، جند الحفصہ، ایشیئن ٹائیگرز، لشکر طبیہ، لال مسجد۔ ویسے دہشت گردی اور جہادی سرگرمیوں میں ملوث تنظیمیں 50 سے زائد رہی ہیں۔۔ پاکستانی ریاست اس وقت اپنے اندر پالے تمام تضادات کے ساتھ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر گتھم گتھا ہے۔ اسے کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

بلوچ لکھاری ذوالفقارعلی زلفی نے لکھا

لشکرِ جھنگوی العالمی ایک گمراہ کن نام ہے۔۔۔یہ درحقیقت وہی لشکرِ جھنگوی ہے جسے پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ نے بلوچ قوم پرستی کے مقابل تیار کیا۔۔۔کوئٹہ حملہ اندرونی تضادات کا شاخسانہ ہے جسے افغانستان اور بھارت کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔۔۔پولیس اہلکار ریاست کا نمائندہ ہے اور خودکش بمبار بھی اسی کا لاڈلا , سو دونوں کی لڑائی میں کون مرتا ہے اور کون جیتا ہے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۔۔مجھے پرواہ ہے ان کی جو لاپتہ ہیں ، جن کی مسخ لاشیں ملتی ہیں ، جنہیں ہیلی کاپٹرز سے گرایا جاتا ہے ، جن کے گھر جلائے جارہے ہیں ، جن کو فرقے کی بنیاد پر قتل کیا جاتا ہے۔۔۔ مجھے ساٹھ لاشوں کی گمراہ کن گنتی سے کوئی مطلب نہیں ، مجھے کروڑوں لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے سے مطلب ہے۔۔۔پیشہ ور قاتلوں , تم سپاہی نہیں۔….

سرائیکی لکھاری امام بخش نے لکھا

دہشت گردی میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کے قاتل اکیلے دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ بڑے اور اصل قاتل وہ ہیں، جو وطن عزیز میں علی الاعلان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ یہ بڑے قاتل آج بھی وطنِ عزیز میں سینہ تان کر گُھومتے ہیں۔وطن عزیر میں منافقت کا عروج دیکھیئے کہ دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے سب سے بڑے غمگسار بھی وہی بہروپیے بنے پِھرتے ہیں، جن کے ہاتھوں پر شہیدوں کے خون کے دھبے الم نشرح ہیں۔ قوم کے لیے لازم ہے کہ روزِ روشن کی طرح واضح اِن کرداروں کو پہچانے اور انھیں کیفرکردار تک پہنچانے میں اپنا فرض پورا کرے۔مزید برآں، یہ بھی سوچیئے کہ اصحاب وقار کی “حب الوطنی” اُلٹا اُنہی سیاسی و سماجی قوتوں کے خلاف زور کیوں مارتی ہے، جو دہشت گردوں کا اولین نشانہ ہیں۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ مشترک اقدار کیا پیغام دیتی ہیں؟

 محمود انجم لکھتے ہیں 

سالوں سے ملکی سرزمیں بیگناہوں کے خون سے تر ہے، بربریت کی بهیانک شام ڈهلنے میں نہیں آرہی، دشمن کی کمر توڑ ڈالنے کے تمام دعوے ایک نئی خونریزی کی واردات کے ساتھ مٹی میں مل جاتے ہیں، ضد پر اڑے کچھ حلقے اپنے بارے میں محتاط ضرور ہوئے ہیں لیکن سوچ پر نظر ثانی کر کے حکمت عملی تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہیں، قطعی فیصلہ کرنے کے لیے ایک مرکز کا نہ ہونا اس خلفشار کی سب سے بڑی وجہ ہے اور ایک مرکز کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کی مرضی پوچهے بغیر افغان جنگ میں بغیر کوئی حکمت عملی طے کیے ملک کو نہ صرف جهونکا گیا بلکہ اس سے پیدا ہونے والے بهیانک نتائج کی ذمہ داری کا تعین اور اس ذمہ دار کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا گیا، جو عوامل اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں وہ ملک کے تین وزرائے اعظم کی غیر فطری موت کے ذمہ دار بهی ہیں….ڈسپلن کا سب سے زیادہ شور مچانے والے خود کتنے ڈسپلنڈ ہیں اس بات کا اندازہ ملک میں چاروں طرف بہنے والی خون کی ندیوں سے لگایا جاسکتا ہے، یہ خون ریزی اس وقت تک بند نہیں ہوگی جب تک محکمے اپنی حدود کے اندر رہنے پر مجبور نہیں کر دیئے جاتے، جتنا جلد اس بات کا فیصلہ ہو گا اتنا ہی جلدی لاشوں اور اپاہجوں کا بڑهتا ہوا انبار مزید اونچا ہونے سے بچے گا۔

کاشف رفیق لکھتے ہیں

دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ بلکل اسی طرح ہے جیسے سگریٹ کی ڈبی پر وزارت صحت ایک وارننگ لکھ کر بری الذمہ ہو جاتی ہے اور سگریٹ فیکٹریاں اپنا کام کھلے عام جاری رکھتی ہیں میڈیا انکی اشتہاری مہم چلا کر پیسے بناتا ہے اور لوگ سگریٹ پی پی کر مرتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی ہمارا نیشنل ایکشن پلان ہے۔ ہم نے جتنی تنظیموں کو کالعدم کیا وہ سب فعال ہیں جو ادارے دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں انتہا پسندی کی سوچ کو فروغ دے رہے ہیں انھیں سرکاری خزانے سے نوازا جا رہا ہے دنیا جن دہشت گردوں پر گرفت کے مطالبے کر رہی ہے وہ ہماری سلامتی کی میٹنگز میں بیٹھ کر ہم سے مشاورت کر رہے ہیں ہم نے دہشت گردوں کو کالعدم کر دیا ہے انکا نام مختلف لسٹوں میں ڈال دیا ہے بس اتنا ہی کافی ہے۔

ظلم یہ ہے کہ انہی دہشت گردوں کے بنانے والے اور انھے تحفظ دینے والے انہی کے ذریعے خان صاحب کو آگے لگا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں جس کیلئے بظاہر حالات سازگار کر دیئے گئے ہیں کراچی سے خیبر تک ہر متوقع مزاحمت کو وقت سے پہلے کچل دیا گیا ہے پی پی سندھ پر ہی شکرانے کے نوافل پڑھ رہی ہے تو اے این پی جو دہشت گردی کا فرنٹ لائن ٹارگٹ بنتی رہی ہے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے ایم کیو ایم جس کی قیادت 15 سال سے طالبانائزیشن کا رونا رو رہی تھی اور فرنٹ لائن پر انتہا پسندی کی مخالفت کر رہی تھی اسے را کے ساتھ نتھی کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔

عوام کو انتہا پسندی کے سیلاب سے بچانے کیلئے روشن خیال سیاست بے دست و پا ہو چکی ہے میڈیا پر انتہا پسندی کے چاہنے والے اوریا مقبول جان ، شاہد مسعود، مبشر لقمان اور ان گنت شکلوں میں ایک ایسے تاریک دن کیلئے راہیں ہموار کر رہے ہیں جس سے رات کی تاریکی بھی شرمائے۔ کوئٹہ میں مرنے والے پولیس والے ہیں انکا کیا غم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو درمیان کی مخلوق ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سویلین انہیں با وردی ہونے کے ناطے اپنا نہیں سمجھتے اور وردی والے وزارت داخلہ کے غلاموں کو بلڈی سویلین ہی سمجھتے ہیں سو انکا نہ کوئی سوگ نہ غم یہ درخت پر اگتے ہیں اور پیروں تلے آ کر کچلے جاتے ہیں ہاں کرپشن کا وہ پیسہ برامد کرنا ضروری ہے جسکا بٹوارہ نہیں ہو سکا اور کوئی تنہا ہی تنہا کھا گیا ہے۔

اعظم علی لکھتے ہیں کہ آرمی چیف نے فوری طور پر ایک فوجی جوان کو ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے جس نے دوران حملہ ہوسٹل کی کھڑکی سے بہت سے کیڈٹس کو بھاگنے میں مدد دی مگر انہوں نے انٹیلی جنس کی ناکامی پر کسی کو سزا دینے کا اعلان نہیں کیا۔

Comments are closed.