کلبھوشن کی حقیقت کیا ہے

نادر علی چیمہ

download-1

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کا معاملہ کیوں نہیں اٹھایا۔

یادرہےکہ کچھ ماہ پہلے پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی، نےبلوچستان سے ایک بھارتی شہری کلبھوشن کو گرفتار کیا تھااور میڈیا کے سامنے اسے بھارتی جاسوس کےطورپرپیش کیا گیااور میڈیا میں اس کے جاسوس ہونے کی اعترافی ویڈیو بھی دکھائی گئی تھی۔

اعتزاز احسن کے بعد اب ایک سینئر تجزیہ نگار آصف جیلانی نے نیا زمانہ میں لکھا کہ حکومت کلبھوشن کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلا رہی۔ جیلانی صاحب یہ جانتے ہوں گے کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی میں بھارت دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ان کا کاروبار بھی اسی دشمنی پر چل رہا ہے۔ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی جس میں کوئی بھارتی جاسوس پکڑ اجائے اور پھر اسے پھانسی پر نہ لٹکایا جائے ۔

مگر پرابلم یہ ہے کہ نری دشمنی سے کام نہیں چلتا اس کے لیے ثبوت چاہیں جو کہ ہیں نہیں اور یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ کلبھوشن کا کیس آئی ایس آئی ہینڈل کر رہی ہے اور سیاسی حکومت کی وہاں تک کوئی پہنچ نہیں ہے۔

آئی ایس آئی جو اپنے آپ کو دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی تو قرار دیتی ہے مگر اس کی کارگردگیصفرہے۔ یہ دوسرے ملک کے جاسوسوں کا کیا پتہ چلائے گی یہ تو اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کاپتہ نہیں چلاسکتی ۔

پاکستان کی آئی ایس آئی نے اسے جاسوس کے طور پر بنا کے ضرور پیش کیا مگر یہ جھوٹ چل نہ سکا۔ کلبھوشن  بھارتی نیوی کا سابق افسر ہے  اور ریٹائر منٹ کے بعد ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں کسی نجی کمپنی میں نا کام کر رہا تھالیکن وہ کم ازکم پاکستان میں جاسوسی میں ملوث نہیں تھا۔پاکستان کی حکومت چونکہ سعودی عرب کے قریب ہے اور ایران کی مخالف،لہذا کلبھوشن کے ایشو کو ایران کے خلاف بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ایرانی صدر نے ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا۔

پاکستان کی حکومت پچھلے چالیس پچاس سالوں سے ہمیشہ پاکستان میں ہر گڑبڑکی ذمہ دار بھارتی ایجنسی را کو ٹھہراتی ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آئی ایس آئی کی کارگردگی زیرو ہے جو اس کا مقابلہ نہیں کر پا سکتی۔یہ ایجنسی  ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ بھارتی جاسوس پکڑسکے۔

آئی ایس آئی انٹیلی جنس میں تو زیرو ہے مگر ڈرامہ کرنے میں نمبر ون ہے۔ کلبھوشن کی اصل حقیقت کیا ہے ،اسے کسی قسم کا کوئی لالچ دیا گیا ہے؟ اس کا علم تو بعد میں ہی ہو گا ۔اس کی جب اعترافی ویڈیو سامنے آئی تھی تو غیر جانبدار پاکستانی تجزیہ کاروں نے اسی وقت اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اس سلسلے میں ڈیلی ڈان اور ڈیلی دی نیوز کے اخبارات دیکھے جا سکتے ہیں۔

آئی ایس آئی نے کلبھوشن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اس لیے یہ معاملہ زیادہ دن نہ چل سکا اور اپنی موت آپ مر گیا۔ کلبھوشن بھی اب سکھ علیحدگی پسند رہنماوں کی طرح آئی ایس آئی کی زیر نگرانی لاہور کی کسی کوٹھی میں مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہوگا۔

اعتزاز احسن نے نواز شریف پر یہ تنقید ضرور کی ہے کہ اقوام متحدہ میں کلبھوشن کا معاملہ کیوں نہیں اٹھایاگیا۔ دراصل وہ نوازشریف پر نہیں پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

جیلانی صاحب کے علم میں ہوگا کہ پاکستان کی حکومت اکثر کہتی ہے کہ وہ بین الاقوامی فورمز میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش کرے گی مگر ایسا ہوتا نہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے سال(2015میں) جب نوازشریف نےجنرل اسمبلی سے خطاب کرنا تھا تو پاکستانی میڈیا میں بڑے زور وشور سے یہ مہم چلائی گئی تھی کہ حکومت پاکستان، اقوام متحدہ میں بھارتی ایجنسی را  کی بلوچستان میں مداخلت کے  ثبوت پیش کرے گی۔

لیکن نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں ایسی کوئی بات نہ کی ۔ جب صحافیوں نے را کی مداخلت کے ثبوتوں کے متعلق پوچھا تو کہا گیا کہ ہم نے وہ ثبوت امریکی وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کر دیئے ہیں۔

مگر جب سینٹ کی خارجہ کمیٹی نے پاکستان کے جزوی وزیر خارجہ سے پوچھا کہ بھارتی مداخلت کے کون سے ثبوت پیش کیے گئے ہیں تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ حکومت کے پاس ٹھوس شواہد نہیں تھے۔

ڈیلی ڈان ( 20 نومبر2015) کی رپورٹ کے مطابق سرتاج عزیز نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا گیا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے ملوث ہونے کے جو ثبوت دیئے گئے تھے اس میں کوئی ’’ٹھوس شواہد ‘‘ نہیں تھے۔

سینٹ کی خارجہ کمیٹی ، جس کی صدارت سینٹر نزہت صادق کررہے تھے، کے سامنے پاکستان کے جزوقتی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھارتی مداخلت کے جو ثبوت دیئے گئے تھے وہ محض زبانی کلامی ، اخباری بیان اور اندازے تھے۔

پرابلم یہ ہے کہ ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کو پاک فوج نے ہائی جیک کر رکھا ہے ۔ یہ سیکیورٹی ایجنیساں جو مہم جوئیاں کرتی ہیں اس کا خمیازہ سویلین حکومت اور سیاستدانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کارگل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کارگل پر مہم جوئی پاک فوج نے شروع کی مگر جب مار پڑنی شروع ہوئی تو معافی مانگنے کے لیے نواز شریف کو آگے کر دیا۔

حال ہی میں سرل المائڈہ کی رپورٹ میں یہی کچھ بتایا گیا ہے پاک فوج دہشت گردوں کی سرپرستی کررہی ہے ۔خارجہ سیکرٹری نے واضح الفاظ میں کہا کہ جناب والا سیکیورٹی ایجنسیوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک تنہائی کی طرف جارہا ہےلہذا ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے۔ لیکن کیا کیا جائے فوج کے سٹرٹیجک اثاثوں کو سیاسی حکومت کنٹرول تو کر نہیں سکتی ، انہیں گندہ تو کر سکتی ہے۔

اسے بھی پڑھیں

کھودا پہاڑ نکلا چوہا

One Comment