سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد

asif-javaid4-252x300آصف جاوید

قارئین اکرام آج ہم اپنی  گزارشات کا آغاز ایک کہانی سے کرتے ہیں، تاکہ آپ کو ہماری بات سننے اور سمجھنے  میں دلچسپی اور  آسانی رہے۔

کہا جاتا ہے کہ گئے وقتوں میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔  جس نے    جنگلی کتّے پالے ہوئے تھے، اس کے وزیروں میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا  تو بادشاہ اسے ان کتّوں کے آگے پھینکوا دیتا  اور کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر  اسے مار دیتے۔  ایک  دفعہ  بادشاہ کے ایک خاص وزیر نے بادشاہ کو غلط مشورہ دے دیا جو بادشاہ کو بالکل پسند نہیں آیا ،  اور بادشاہ نے فیصلہ سنایا کہ وزیر کو خونخوار کتّوں کے آگے پھینک دیا جائے۔  وزیر نے بادشاہ سے التجا کی کہ حضور میں نے  چالیس  سال آپ کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہیں اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں، آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بےلوث خدمت کے عوض مجھے آپ صرف  چالیس  دنوں کی مہلت  دے دیں ،پھر بلاشبہ مجھے  ان خونخوار کتوں  کے آگے  پھنکوا دیں۔  بادشاہ یہ سن کر  چالیس دن کی مہلت دینے پر راضی ہو گیا۔  وزیر وہاں سے سیدھا کتّوں کے رکھوالے کے پاس گیا ، جو ان کتّوں کی حفاظت پر مامور تھا ، اور جا کر کہا  خدا کے واسطے مجھے  چالیس  دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے دو،   میں  ان کی  خدمت کروں گا، ان کی مکمل رکھوالی میں کرونگا۔  رکھوالا وزیر کے اس فیصلے کو سن کر چونکا  تو ضرور ،مگر   پھر بھی اس  ترس کھا کر   نے وزیر کو اجازت دے دی۔

ان  چالیس  دنوں میں وزیر نے کتّوں کے کھانے پینے, اوڑھنے بچھونے, نہلانے دھلانے  تک کے سارے کام اپنے ذمے لیکر نہایت ہی تندہی کے ساتھ  تمام خدمات سر انجام دیں۔  اور کتّوں کو اپنا گرویدہ کرلیا۔

 جب چالیس  دن مکمل ہو گئے تو وزیر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا،   بادشاہ نے اپنے  سپاہیوں کے ذریعے    وزیر کو  خونخوار کتّوں  کے آگے  پھینکوادیا ۔ لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوگیا کہ کتّے بجائے وزیر کو نوچنے اور بھنبھوڑنے کے ، وزیر کے قدموں میں لوٹنے لگے اور وزیر کے پیر چاٹنے لگے۔  

بادشاہ یہ  منظر دیکھ کر حیران ہوگیا اور  وزیر  سے پوچھا  کہ ان کتّوں کو  آج کیا ہوا ہے؟؟؟

وزیر نے جواب دیا, بادشاہ سلامت میں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا ، میں نے صرف  چالیس دن ان کتّوں کی خدمت کی  ہے اور یہ میرے ان  چالیس  دنوں میں  کی گئی خدمات اور احسانات بھول نہیں پا رہے ہیں۔  اور  ایک میں بدنصیب ہوں، جس  نے یہاں اپنی زندگی کے  چالیس  سال آپ کی خدمت کرنے میں دن رات ایک کر دیئے،  لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت گُزاری کو پس پشت ڈال دیا، اور مجھے کتّوں کے آگے ڈال دیا۔

بادشاہ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا،وزیر سے معافی مانگی اور  پھر  وزیر کو اٹھوا کر  بھوکے  اور خونخوارمگرمچھوں کے تالاب میں پھنکوا دیا۔ 

professor-hassan-zafar-arif1

قارئین اکرام اس کہانی کا مورال یہ ہے کہ  جب  ریاست پر قابض عسکری اشرافیہ  ایک بار فیصلہ کر لے کہ  کسی سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے ، تو بس ختم کرنا ہے۔   سیاسی جماعت کا وجود مٹانا ہے تو بس مٹانا ہے۔ سیاسی جماعت کو ملک میں جاری جمہوری عمل سے خارج کرنا ہے تو  بس خارج کرنا ہے۔  اس کے لئے سیاسی جماعت کی جمہوری عمل میں حیثیت،  سیاسی جماعت پر عوامی اعتماد،  سیاسی جماعت کو عوام کے ووٹوں کے ذریعے دئے گئے مینڈیٹ کا احترام، سیاسی جماعت کے پارلیمنٹ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی نمائندوں  اور سیاسی جماعت کے کارکنوں اور دفاتر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔   سیاسی جماعت کی عوامی خدمات اور عوام کی طرف سے دئے گئے اعتماد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔    ملک کے   قانون اور آئین میں دی گئی ضمانتوں کی کوئی حیثیت نہیں، بس مقصد صرف   اس سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اور بس۔

پاکستان میں عسکری اداروں نے ہمیشہ جمہوریت کا قتل عام کیا ہے اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو پھانسیاں اور کوڑے مارے ہیں۔سنہ1992 سے ریاست پاکستان ، ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت  متّحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ محبّت اور نفرت کا کھیل کھیل رہی ہے۔  عسکری اشرافیہ کی ایماء پر خفیہ ایجنسیاں ، ریاست کے وردی پوش ادارے، تین بار متوسّط طبقے کی نمائندہ اس سیاسی جماعت پر شب خون مار چکے ہیں۔  ایم کیو ایم پاکستان کی وہ بدنصیب سیاسی جماعت ہے، جس پر تین بار ریاست کے وردی پوش عسکری اداروں نے مسلّح آپریشن کئے ہیں۔

  ایم کیو ایم کو عوام سے بدظن کرنے کے لئے، جناح پور کے نقشے، ٹارچر سیلوں ، اور بوری بند لاشوں کی تصاویر ، انڈیا اور را کا ایجنٹ ہونے کی کہانیاں ، میڈیا پر اپنے زرخرید صحافیوں، تبصرہ نگاروں کے پروپیگنڈے کے ذریعے چلائی ہیں۔ گزشتہ تین سالوں سے ایک بار پھر ایم کیو ایم بدترین ریاستی تشدّد اور ریاستی اشرافیہ کی نفرت کا شکار ہے۔

professor-hassan-zafar-arif2

ایم کیو ایم کو دئے گئے عوامی مینڈیٹ  کی بدترین پامالی کی جارہی ہے۔  جمہوری عمل کو ساقط کیا جارہا ہے۔ دفاتر کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کو تقسیم کیا جارہا ہے، ایم کیو ایم میں دھڑے بنائے جارہے ہیں ، کارکنوں کو بلاجواز گرفتار کیا جارہا ہے،    زیرِ حراست تشدّد کیا جارہا ہے، ماورائے عدالت قتل کیا جارہا ہے، مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جارہی ہیں۔  مہاجروں کے ساتھ انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جارہی ہے۔ ریاست  نے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ سیاسی جماعت  ایم کیو ایم کو جڑ سے اکھا ڑنے اور نیست و نابود کرنے  کا تہیّہ کیا ہوا ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الظاف حسین نے مسلسل اپنی جماعت کے ساتھ ریاست کے رویّے اور ریاستی جبر و تشدّد ، کارکنوں کی تشدّد زدہ لاشوں اور  منتخب جمہوری نمائندوں اور اپنی جماعت کو  دیوار کے ساتھ لگانے کے عمل سے دلبرداشتہ ہوکر  پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا تو، ان کی جماعت سمیت کسی مہاجر نے الطاف حسین کے اس عمل کی حمایت نہیں کی، الطاف حسین کو بھی جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو، الطاف حسین نے ریاست اور قوم دونوں سے معافی مانگ لی۔ مگر ریاست نہ تو الطاف حسین کو معاف کرنے کو تیّار ہے، نہ ہی جمہوری عوامی سیاسی جماعت ایم  کیو ایم کو معاف کرنے پر تیّار ہے۔

ریاست نے تہیّہ کیا ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کو بالکل اس ہی طرح ختم کرنا ہے جیسے 1971 میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی نمائندہ سیاسی جماعت عوامی لیگ کو ختم کیا  گیا تھا۔  ایم کیو ایم کو دئے گئے عوامی مینڈیٹ کی بالکل اسی طرح توہین  کرنی ہے جیسے 1971 میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ  کے مینڈیٹ کی  توہین کی گئی تھی۔  مہاجر عوام کی بالکل اسی طرح تذلیل کرنی ہے جیسے کبھی بنگالیوں کی تذلیل کی گئی تھی۔

آج  الطاف حسین کی جانب سے متّحدہ قومی موومنٹ کی  نئی تشکیل دی گئی رابطہ کمیٹی کے سربراہ ستّر سالہ بزرگ پروفیسر حسن ظفر عارف  جو جامعہ کراچی میں فلسفے کے استاد  رہے ہیں اور ایک بڑے دانشور ہیں،  ان کو جس طرح رینجرز نے بلا کسی جواز اور اشتعال کے گرفتار کیا ہے،  رابطہ کمیٹی کے رکن ساتھی اسحاق ایڈوکیٹ کے گھر چھاپہ مار کر ان کی  تیرہ سالہ بیٹی اور  سولہ سالہ بے گناہ بیٹے کو شدید تشدّد کا نشانہ بنایا ہے ۔  ادیب و دانشور کنور خالد یونس کو  بے ہودہ طریقے سے   گرفتار کیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ  عسکری  ریاست اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو چلتا ،نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔  عسکری ریاست کی اپنی ترجیحات ہیں۔ جمہوریت صرف دکھاوے کی ہے۔  

مختصرا یہ عرض کرنا ہے کہ  کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ریاست کا یہ سلوک ، ریاست کی بدترین  نفسیات اور ذہنیت کی عکاسی ہے۔فیض نے اس ہی موقعہ کے لئے کہا تھا کہ

 نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

صرف ایم کیو ایم یا کسی خاص لیڈر کا مسئلہ نہیں ہے۔  یہ پاکستانی عوام کے حقوق اور اور اسٹیبلشمنٹ کی روایتی استحصالی ترجیحات کی جنگ ہے۔  یہ جمہوریت اور سیکیورٹی اداروں کی جنگ ہے۔  ریاستی جبر کے باعث آج اگر ایم کیو ایم یا الطاف  حسین  ختم ہو جاتے ہیں تو یہ  خاتمہ   ایم کیو ایم یا الطاف حسین  کا خاتمہ نہیں ہو گا۔   بلکہ یہ سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں جمہوریت کا قتل ہوگا۔   اور  خاموش عوام اس قتل کے تماشائی ہونگے۔   اگر عوام اور دیگر سیاسی جماعتیں مِل کر  اس قتل کو نہیں روکیں  گی تو کل کسی اور سیاسی جماعت کے لئے مقتل سجا ہوگا۔ اور اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ 

4 Comments