طبقاتی معاشرہ۔۔۔ طبقات اور انقلاب

anwhitehead-sketchsml

مشتاق احمد


ہمارا معاشرہ طبقاتی ہے۔ ہر طبقاتی معاشرے میں انسان طبقات میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب تک جتنی بھی معاشرتی تنظمیں وجو دپذیر ہوئی ہیں۔ ان میں ابتدائی اشتراکی معاشرے کو چھوڑ کر سب میں یہ طبقات موجود رہے ہیں۔ غلام داری معاشرے میں آقا اور غلام، جاگیردارانہ معاشرے میں جاگیردار اور کسان اور سرمایہ دارانہ نظام معاشرہ میں سرمایہ دار اور مزدور معاشرہ طبقات میں تقسیم اس وقت ہوا۔ جب کچھ انسانوں نے کچھ چیزوں کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا۔ ابتداء میں زمین کسی کی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ سب لوگ مل جل کر کھیتی باڑی کرتے تھے اور پیداوار آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔ لیکن پتہ نہیں۔ کب اور کس شخص نے کسی قطعہ زمین پر اپنی ملکیت قائم کر لی اور یہ کہا۔ یہ میری زمین ہے۔یوں ذرائع پیداوار پر ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا۔ اور یہی ذاتی ملکیت طبقات کے وجود میں آنے کا سبب بن گئی۔ جو لوگ ذرائع پیداوار پر قابض ہو گئے۔ ان کو اپنی ملکیت قرار دے دیا۔ وہ ایک طبقہ بن گئے اور جن لوگوں کو ذرائع پیداوار سے محروم کر دیا گیا۔ وہ دوسرا طبقہ بن گئے۔

اب صورت حال یوں ہوئی کہ ذرائع پیداوار سے محروم لوگ اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ ذرائع پیداوار کے مالک لوگوں کے لیے کام کریں۔ ان ذرائع پیداوار پر جواب ان کی ملکیت نہیں رہے تھے۔ اپنی محنت صرف کریں اور جو کچھ پیدا کریں۔ اس میں سے تھوڑا سا حصہ یعنی اتنا جتنے پر وہ زندہ رہ سکیں لے لیں اورباقی ذرائع پیداوار کے مالک لوگوں کے حوالے کر دیں۔ اس طرح انسانی محنت کے استحصال اور لوٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔پھر اس لوٹ کو قائم رکھنے اور استحصا ل کومستقل بنانے کے لیے ذرائع پیداوار کے مالک لوگوں نے جبروتشدد اور ظلم وناانصافی سے کام لیتا شروع کر دیا۔ اس طرح طبقاتی معاشرہ، استحصالی ہونے کے ساتھ ساتھ ظالمانہ اور جابرانہ معاشرہ بھی بن گیا۔ یہ جبر، ظلم اور استحصال ہر سماجی تنظیم میں جاری رہا۔ ہر تنظیم میں لوٹنے والے اور لوٹے جانیوالے ظلم کرنے والے اور ظلم سہنے والے طبقات موجود رہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کشمکش بھی ہمیشہ جاری رہی۔ یہی طبقاتی کشمکش ہی انسانی معاشرے کی تاریخ میں معاشروں کے تغیروبتدل اور ان کے ارتقاء کا قانون رہی ہے تاریخ صدیوں سے غلط لکھی اور پڑھائی جار ہی ہے اور یہ باور کروایا جاتا رہا اور کرایا جا رہا ہے کہ تاریخ بادشاہ ، سپہ سالار ، مشاہیر اور عظیم لوگ بناتے ہیں۔ آگے بڑھاتے اور اسے بدلتے ہیں۔ بے شک ان لوگوں کا بھی ایک رول ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یہ رول انھیں طبقاتی کشمکش عطا کرتی ہے۔یہ لوگ حالات کی پیداوار ہوتے ہیں اور تاریخ کی ضرورت۔ وقت ان کا تقاضہ کرتا ہے اور ان کو برسرکار لے آتا ہے۔

معاشرتی ارتقاء کا محرک طبقاتی کشمکش ہوتی ہے۔ یہ کشمکش ذرائع پیداوار کے مالک اور ذرائع پیداوار کی ملکیت سے محروم رہنے والے طبقوں کے درمیان ہوتی ہے دونوں طبقے ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہوتے ہیں اور حریف بھی۔ انقلاب اس کشمکش کو ختم کر دیتا ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کہ ہر سماجی نظام میں دو طبقے ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔ غلام اور آقا ، جاگیردار اور کسان اور پھر سرمایہ دار اور مزدور۔ لیکن طبقاتی معاشروں میں ان دو حریف طبقوں کے علاوہ اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے طبقے یا سماجی پرتیں ہوتی ہیں۔ جب کوئی معاشرہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے اور انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے تو دو حریف طبقوں کے علاوہ یہ چھوٹے طبقات یا سماجی پرتیں بھی اپنا اپنا رول ادا کرتی ہیں۔ اس مضمون میں مجھے یہی بتانا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت کون کو نسے طبقات موجود ہیں اور وہ موجودہ بحرانی کیفیت میں سماجی انقلاب کے لیے کیا کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟

طبقاتی معاشرے میں ذرائع پیداوار کے مالک طبقات طاقتور اور غالب طبقات ہوتے ہیں۔ وہ ریاست کے مالک اور ریاست کے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔ریاست کے تمام ادارے مثلاً فوج، پولیس، عدالتیں، انتظامیہ حتیٰ کہ دستور ساز اادارے بھی انہی کے محکوم ہوتے ہیں۔ یہ سارے ادارے انہی کے مفادات کے تحفظ اور ان کے غلبے اور تسلط کو مستحکم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ انفرادی لحاظ سے ان میں باہمی جھگڑے اور چپقلش بھی چلتی رہتی ہیں اور یہ ایک دوسرے سے اقتدار چھینتے اور ایک دوسرے کے ساتھ دغا فریب بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن بحیثیت طبقہ کے یہ دوسرے طبقات کے مقابلے میں متحد اور ایک ہی ہوتے ہیں۔ ان کو زندگی کی ساری سہولتیں بلکہ سارے عیش میسر ہوتے ہیں۔ ریاست کے تمام ادارے اور سبھی قوانین ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ جو چاہے کرتے ہیں۔ وہ دوسرے طبقات پر فرمانروا ہوتے ہیں اور جس طرح چاہیں۔ انھیں لوٹتے اور ان سے کام لیتے رہتے ہیں یہ طبقے کسی بھی سماجی انقلاب کے سخت دشمن ہوتے ہیں اور کبھی بھی حالات بدلنے نہیں دیتے۔ 

معاشرتی انقلاب کے لیے اٹھنے والی کوئی آواز ان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔ وہ ہر اس آواز کو دبا دیتے ہیں۔ جو معاشرتی انقلاب کے لیے بلند ہو اور ہر اس قلم کو توڑ دیتے ہیں۔ جو انقلاب کے لیے لکھتا ہو۔ پاکستان میں یہ طبقات سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں۔ شروع شروع میں یہ ایک دوسرے کے حریف تھے۔ لیکن عوام میں بیداری کے آثار دیکھ کر اب یہ ایک دوسرے کے حلیف بن گئے ہیں۔ چونکہ سامراج ان کی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ طبقات بھی سامراج کے پٹھو اور دلال ہیں۔ یہ سامراجی آقاؤں کی مرضی کے مطابق حکومت کرتے اور محنت کش عوام کا گلا گھونٹتے ہیں ۔ یہ ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی انقلاب کے کھلے کھلے دشمن ہوتے ہیں اور کوئی ایسی تحریک نہیں چلنے دیتے اور نہ ہی کسی ایسے نظریے کو عام ہوتے دیکھنا برداشت کرتے ہیں۔ جو ان کے مفادات کے لیے خطرہ ہو۔ پاکستان کے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات اس وقت متحد ہو کر سامراجی آقاؤں کی تائیدو حمایت کے ساتھ پاکستان میں اپنے جبر استحصال اور لوٹ کے نظام کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اور جب تک ان کا بس چلے گا۔ وہ اس غیر فطری اور غیر انسانی سماجی نظام کو قائم رکھیں گے۔

ذرائع پیداوار کے مالک طبقات کے مقابلے میں وہ طبقات ہوتے ہیں۔ جو ذرائع پیداوار سے محروم ہوتے ہیں جو ذرائع پیداوار سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ طبقات ان ذرائع پیداوار پر جوان کی ملکیت نہیں ہوتے ۔ اپنی قوت محنت لگاتے ہیں اور ان سے پیداوار حاصل کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس پیداوار کے جو اگرچہ ان کی محنت کا ثمر ہوتی ہے۔ محض اس لیے مالک نہیں ہوتے ۔ کہ ذرائع پیداوار ان کی اپنی ملکیت نہیں ہوتے۔ وہ اپنی پیدا کی ہوئی پیداوار سے صرف اتنے حصے کے حقدار سمجھے جاتے ہیں۔ جتنے حصے کو استعمال کر کے وہ زندہ رہ سکیں۔ تاکہ پیداوار کا عمل جاری رہ سکے۔ ان لوگوں کی زندگی نہایت بری ہوتی ہے۔ انھیں زندگی کی سہولتیں تو کیا بعض اوقات زندگی کی ضروریات تک بھی پوری طرح میسر نہیں ہوتیں۔ یہ لوگ انسانوں جیسی نہیں جانوروں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ان کو گھر نصیب نہیں ہوتے۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ بیمار ہو جائیں۔ تو علاج نہیں کروا سکتے۔ ہمارے ملک میں اور ساری دنیا میں یہ طبقات کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ 

یہی وہ طبقات ہیں جو معاشرتی اور معاشی انقلاب کے خواہاں ہوتے ہیں۔ چونکہ تمام تر دولت پیدا کرنیکے باوجود وہ اس دولت سے محروم رہتے ہیں۔ ان کو اپنی پیدا کی ہوئی پیداوار سے صرف زندہ رہنے کے لیے حصہ ملتا ہے۔ اس لیے وہ اس ظالمانہ اور استحصالی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ حالات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سماجی انقلاب کے سپاہی ہوتے ہیں۔ بالخصوص مزدور طبقہ انقلاب کے لیے بہت بڑی قوت ہوتا ہے۔ انقلاب چونکہ ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ انقلاب کے لیے لڑتے اور قربانیاں دینے سے دریغ نہیں کرتے ۔ لیکن انقلاب کے لیے جدوجہد اور سماجی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے آمادہ پیکار وہ اس وقت تک نہیں ہو سکتے۔ جب تک وہ اپنے آپ کو سماجی شعور سے بہرہ ور اور انقلابی سائنس سے واقف نہیں کرواتے۔ سماجی شعور حاصل کر کے اور انقلاب کی سائنس کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد وہ اپنے آپ کومنظم کرتے ہیں اور متحد ہو کر اپنے حریف طبقوں یعنی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف لڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ ذرائع پیداوار پر سے انفرادی ملکیت کو ختم کر دیتے ہیں اور ان پر اجتماعی ملکیت قائم کر دیتے ہیں۔ یوں وہ بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جس کیوجہ سے دوسروں کی محنت کا استحصال کیا جائے۔ اور ان کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا جائے۔ انقلابی جدوجہد کے لیے مزدوروں اور کسانوں کا باہمی اتحاد بے حد ضروری ہے۔اس لڑائی میں مزدور کی حیثیت رہنما کی ہوتی ہے اور کسان طبقہ اس کے پیچھے ہوتا ہے۔

پاکستان میں کسان اور مزدور دونوں طبقے ہی ابھی تک سماجی شعور سے بہت حد تک بے بہرہ اور انقلابی سوچ سے خالی ہیں۔ وہ منظم اور متحد بھی نہیں المناک حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسے مزدور لیڈروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں۔ جو انھیں جان بوجھ کر سماجی شعور سے اور انقلاب کی سائنس سے آگاہ نہیں ہونے دیتے۔ اور نہ ہی انھیں متحد اور منظم ہونے دیتے ہیں۔ چند ایک مخلص مزدور رہنماوں کے سوا اکثریت ایسے لوگوں کی ہے۔ جو مزدوروں کو نہ صرف گمراہ کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے بھولپن اور سادگی کی وجہ سے خوب مالی اور مادی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ وہ ٹریڈ یونینوں کے صدر اور مزدور رہنما بن کر سرمایہ داروں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں اور خوب مال کماتے ہیں۔ پاکستان کے مزدوروں اور کسانوں کو اس وقت تک ظلم اور جبر سے چھٹکارا نہیں مل سکتا اور نہ ہی ان کی محنت کا استحصال ختم ہو سکتا ہے۔ جب تک وہ ان جھوٹے اور مکار مزدور رہنماؤں سے اپنا ناطہ نہیں توڑتے۔

ذرائع پیداوار کے مالک اور ذرائع پیداوار کی ملکیت سے محروم ان دو حریف طبقوں کے علاوہ ہر سماجی تنظیم میں بہت سی چھوٹی چھوٹی سماجی پرتیں بھی ہوتی ہیں۔ جن کو ہم درمیانہ یا متوسط طبقہ کہہ سکتے ہیں۔ ان کے حالات زندگی ذرائع پیداوار سے محروم ، مخلوم اور مظلوم طبقوں سے بہت حد تک بہتر ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے کاروبار یا جائیدادیں ہوتی ہیں۔ یا پھر ان کے پاس ایسے ، ہنر اور ایسا علم ہوتا ہے۔ جس کیوجہ سے یہ ذرائع پیداوار کے مالک ظالم طبقات کے ظلم کا نشانہ بہت کم بنتے ہیں اس لیے ان کی ان حکمران طبقوں کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہوتی۔ وہ ان سے لڑنا پسند بھی نہیں کرتے۔ بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے۔ کہ وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے زیادہ زیادہ دولت حاصل کر کے بڑے طبقوں میں شامل ہو جائیں۔ وہ ذرائع پیداوار سے محروم طبقات مثلاً کسانوں اور مزدوروں کو اپنے سے بہت گھٹیا اور کمتر سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو شریف اور معزز، پڑھے لکھے اور اہل دانش خیال کرتے ہیں۔ جبکہ مزدور اور کسان طبقے کو رزیل، جاہل اور ان پڑھ سمجھتے ہیں۔ وہ ان سے نفرت کرتے ہیں اور نفرت نہ بھی کریں تو کم ازکم ان سے ملنا ملانا ربط ضبط رکھنا اپنے لیے معیوب اور برا سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ حکمران طبقوں کے ساتھ میل ملاپ بڑھایا جائے۔ ان کے ساتھ دوستیاں اور رشتے داریاں قائم کی جائیں۔ تاکہ یہ دوستیاں اور رشتے داریاں ان کے حالات زندگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے میں مدد دیں۔

اس کے برعکس وہ محنت کش محکوم طبقوں سے دوستی تو کیا ان کے قریب بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی رشتے داری بھی ہو تو اسے بھلا دیتے ہیں۔ ترک کر دیتے ہیں۔ یہ ہمیشہ حاکم طبقات کی طرح محکوم طبقات کے خلاف ہوتے ہیں۔ انقلاب کے لیے ان کی جدوجہد کو برا سمجھتے ہیں۔ انقلابی خیالات کی مذمت کرتے ہیں۔ اور سماجی تبدیلی کے خواہاں لوگوں کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے ہو کر بھی سائینٹفک سوچ کے مخالف ہوتے ہین۔ اور سائنس کی تمام تر سہولتوں اوربرکتوں سے فیض یاب ہو نے کے باوجود سائینٹفک سوچ کو پسند نہیں کرتے۔ بلکہ ایسے لوگوں کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ جو سائینٹفک سوچ رکھتے ہیں۔ یہ عموماً مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا تصور مذہب بھی اسی طرح کا ہوتا ہے۔ جو ان کے مفادات اور حکمران طبقوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ انقلاب کی مخالفت حکمران اور ذرائع پیداوار کے مالک جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ کرتے ہیں اور آخر وقت تک انقلاب کی راہ روکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ڈاکٹر ، وکیل، انجینئر۔ سکولوں کے اساتذہ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیکچرار، خوشحال تاجر اور دوکاندار، سرکاری اور فوجی بیورویو کریٹس اور مذہبی پیشوا اسی درمیانے یامتوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ سب لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود رجعت پرست ور انقلاب کے مخالف ہیں۔ یہ موجودہ سماجی صورت حالات سے ناخوش تو ہیں۔ لیکن اس صورت حال کو انقلاب سے نہیں، اصلاحات کے ذریعے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کسانوں اور مزدوروں کو باغبانہ اور سرکش خیالات سے بچایا جائے۔ انھیں پرامن رہنے کا درس دیا جائے۔ نیک اور حلال کمائی کی تلقین کی جائے۔ دوسری طرف حکمران طبقوں کو کہا جائے کہ وہ فلاحی کاموں میں حصہ لیں۔ غریبوں کی مدد کے لیے امدا دی انجمنیں اور ادارے قائم کرے تاکہ معاشرتی امن قائم رہے۔ ان کا جھکاؤ مذہبی تعلیمات کی طرف بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ تبلیغی جماعتیں بناتے ہیں۔ ان کو چندے دیتے ہیں اور ہر قسم کی سہولتیں مہیا کرتے ہیں تاکہ یہ تبلیغی جماعتیں لوگوں پر دنیاوی زندگی کو بے حقیقت اور فضول ہونا اور اگلی زندگی کا اہم اور لازماً بہتر ہونا واضح کرتی رہیں۔وہ دنیا پرعذاب زندگی سے نجات حاصل کرنے کی حورو قصور کے لیے عبادت وریاضت میں لگے رہیں۔

ہمارے ملک میں یہ لوگ ابھی تک اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ بالخصوص مذہبی پیشوا پورے جوش و خروش کے ساتھ حکمران طبقوں کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں اور حکمران طبقے بھی ان کی پوری پوری مدد کر رہے ہیںیہ حکمران طبقے خود نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں مسجدوں اور مذہبی درسگاہوں کو خطیر رقمیں ، چندے کے طور پر ضرور دیتے ہیں۔ ان کے اپنے بچے انگریزی سکولوں میں بلکہ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہاں قائم ہونے والے اسلامی مدارس درسگاہوں اور خانقاہوں کے لیے بطور عطیات بہت کچھ دیتے ہیں۔ گویا انقلاب کو ٹالنے اور رجعت پرستی کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کی مدداور تگ ودو کرتے ہیں۔ 

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے متوسط طبقے میں کئی سماجی پرتیں شامل ہوتی ہیں اپنے کاروبار، اپنے پیشوں اور حالات زندگی کے لحاظ سے یہ مختلف الخیال ہوتے ہیں۔ لیکن مختلف الخیال ہونے کے باوجود انقلاب دشمنی میں یہ پوری طرح متحد الخیال ہوتے ہیں۔ ان میں پورے پورے مذہبی لوگ بھی ہوتے ہیں اور مذہب سے بیزار ملہدانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ بھی ۔ حتیٰ کہ ان میں کمیونسٹ خیالات رکھنے والے والے نراجیت پسند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اور چونکہ ان پر دانشور ہونے کا لیبل لگا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ روشن خیال اورلبرل ہوتے ہیں۔ مگر بیحد عافیت کوش۔ اس لیے کبھی بھی انقلاب کا ساتھ نہیں دیتے۔ بلکہ ان کی کوششیں اس کے برعکس ہوتی ہیں۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ انقلاب کی خواہش رکھنے والے کسانوں اور مزدوروں کو راہنما ان ہی میں سے ملتے ہیں اور ملتے رہے ہیں۔ تا ہم ایسے افراد اس طبقے میں خال خال ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انقلاب کے مخالف ہی ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو کمیونسٹ کہلاتے ہیں۔ ان کا رویہ بھی دوسرے لوگوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ 

پاکستان میں یہی صورت حال ہے۔ یہاں متوسط طبقے میں بھی یہ سارے لوگ موجود ہیں اور یہ بھی انقلاب کے کسی طرح بھی حامی نہیں۔ خواہ لبرل یا کمیونسٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ آج جبکہ انقلاب کو روکنے کے لیے مذہب کو استعمال کرنے کی پوری طرح کوشش کے جارہی ہے۔ اور لوگوں کو رجعت پرستانہ خیالات سے بہرو ور کیا جا رہا ہے۔ مذہبی پیشوا مستند طریقے سے لوگوں پر اپنے نظریات مسلط کر رہے ہیں۔ یہاں کے لبرل طبقے سے بھی قطعاً ایسی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ مذہب کے نام پر مسلط کی جانیوالی اور انقلاب سے معاشرے کو بچانے والی رجعت پرستی کے خلاف کوئی تحریک منظم کریں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ بھی انقلاب دشمن ہے۔ کسان طبقہ اور مزدور طبقہ ہی دو طبقے صحیح معنوں میں انقلاب پسند ہیں۔ لیکن یہ بڑی حدتک سماجی شعور اور انقلابی سوچ سے بے بہرہ ہیں، غیر منظم ہیں اور چند مستثنیات کے علاوہ مفاد پرست کسان اور مزدور راہنماؤں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ جو انھیں انقلاب کے راستے سے دور رکھتے ہیں اور کبھی سچی اور سائنٹیفک انقلابی سوچ سے بہرہ ور ہونے نہیں دیتے۔ لہٰذا ہمارے ہاں کسی سماجی انقلاب کی توقع کم ازکم مستقبل قریب میں نہیں کی جا سکتی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ حالات بدستور خراب ہوتے جائیں گے اور پھر شہر کا منظر وہ ہوگا جو پیچھے پلٹ کر دیکھے گا پتھر ہو جائے گا۔

3 Comments