جستہ جستہ

liaq

لیاقت علی ایڈووکیٹ

بھارت سیکولر ملک نہیں ہے ۔بھارت کا سیکولر ازم جھوٹا اور جعلی ہے ۔بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو پاکستانی ریاست اور اس کے دانشور اکثر دوہراتے رہتے ہیں ۔ نہ صرف بھارت کا سیکولر ازم قطعا آئیڈیل نہیں ہے بلکہ کہیں بھی سیکولر ازم اپنی آئیڈیل شکل میں موجود نہیں ہے ۔

لیکن پاکستان تو خود ایک مذہبی ریاست ہے جہاں مسلمان اول درجے کے شہر ی اور مذہبی اقلیتیں دوسرے درجے پر ہیں ۔ ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ بھارت میں سیکولرازم ناکام ہورہا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک تو سیکولر ازم الحاد ہے اور الحاد کی ناکامی تو خوش آیند ہے ۔بھارت میں سیکولرازم کی ناکامی پر اظہار تاسف کیوں کرتے ہیں ہمیں تو اظہار مسرت کرنا چاہیے ۔

بھارت میں ہندو مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتےہیں اس پر ہمیں منیر انکوائری رپورٹ میں جماعت اسلامی کے بانی اور پہلے امیر مولانا مودودی کا بیان ضرور پڑھ لینا چاہیے ۔ مولانا نے فرمایا تھا کہ اگر بھارت کی حکومت اپنے زیر نگیں مسلمانوں کو منور سمرتی کے قوانین مطابق دوسرے درجے کا شہری بنا رکھے تو انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

پا کستان کی ایک نظریاتی ریاست ہے جو مذہبی عقیدے کو اپنے قیام کا جواز اور اپنے استحکام کی خشت اول سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کو اپنا دوست منتخب کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک خدا کو ماننے والا ملک ہے بالکل پاکستان کی طرح ۔ اور ہم دونوں ملک ’خدا کے وجود سے انکاری ‘ سوویٹ یونین کے خلاف مل کر لڑیں گے ۔

اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا کسی قسم کوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن ہم نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔کیوں ؟ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں فلسطین میں مسلمانوں کے خلاف اسرائیل ظلم و زیادتی کر رہا ہے  ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار ہیں جب کہ اس کے ہمسایہ مسلمان ممالک نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔

ہم بھارت کے مسلمانوں کے لئے ہر وقت شمشیر بکف رہتے ہیں ۔ کیوں ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ہندو ہمارے برادر مسلمانوں کے خلاف زیادتیوں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمیں سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بالکل نظر نہیں آتیں۔

جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان جہادی تنظیموں کے خلاف کاروائی کرسکتا ہے وہ میرے نزدیک خوش فہم ہیں ۔ پاکستان جب تک اندرونی استحکا م اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہبی عقیدے کو استعمال کر تا رہے گا یہ اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کی اہلیت سے محرو م رہے گا ۔

جب تک آپ بھارت سنٹرک خارجہ پالیسی سے باہر نہیں آئیں گے خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔

جہادیوں کے خلاف انتہائی سخت اقدام کئے گئے ہیں لیکن یہ و ہ جہادی تھے جنھوں نے ہماری افواج اور اس کے ذیلی اداروں اور ان سے منسلک افراد کے خلا ف ہتھیار اٹھائے تھے ۔آج بھی وہ جہادی تنظیمیں اور ان کے رہنما جو جہاد ایکسپورٹ کرتے اور اندرون ملک جنگجوئی پر مبنی ایجنڈا لے کر چلتے ہیں ان کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔

ہمیں آج بھی خالصتان کا قیام اچھا لگتا ہے ۔ یہ سوچے بغیر کہ خالصتا ن کے نقشے میں کو ن سے پاکستانی علاقوں کو مجوزہ خالصتان کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے ۔

ہم کشمیر کی جد و جہد آزادی کے پر جوش حامی ہیں اور استصواب رائے کے ذریعے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔یہ سو چے بغیر کہ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کبھی بھی ’کشمیر بنے کا پاکستان‘ کا نعرہ نہیں لگایا ۔ وہ تو آزاد ریاست کشمیر کی بات کرتے ہیں اور یہ مجوزہ آزاد ریاست پاکستان کے شہر جہلم سے صر ف چند کلو میٹر کے فاصلے پر قائم ہوگی ۔

اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کشمیر کی آ زاد حکومت کا رویہ ہمارے ساتھ افغانستان جیسا نہیں ہوگا ۔

Comments are closed.