شکریہ دہشت گردو

asif-javaid4-252x300آصف جاوید

شکریہ دہشت گردوں، تم نے آج بلوچستان کے شہرکوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ کرکے 61 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور 116 اہلکاروں کو زخمی کرکے ریاستی پروپیگنڈے کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ نہ تحریکِ طالبان پاکستان، حکیم اللہ محسود گروپ کے مُلا داؤد منصور، حملے کی ذمّہ داری قبول کرنے کا پیغام بی بی سی کو دیتے ، نہ حملے کے بعد لشکر جھنگوی العالمی کے ملوث ہونے اور حملہ آور وں کے افغانستان سے ہدایات لینے کا انکشافات ہوتے، تو کوئٹہ کا سانحہ بھی انڈین را کی کارروائی قرار دے قوم کو گمراہ کیا جاتا۔ تمہارے حملے سے ہمارے جوان شہید اور زخمی تو ضرور ہوئے ۔ مگر اب شاید قوم کو ایم کیو ایم کے ٹرک کی سرخ بتّی کے پیچھے دہشت گرد، دہشت گرد کا شور مچا کر بھگانے کا ڈرامہ بند کرنا پڑ جائے گا۔

تمہارے حملے نے صورتحال ہی بدل ڈالی اور اب چاروں طرف سے آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں، کہ بس بہت ڈرامہ ہوگیا، اب خاموشی سے تزویراتی اثاثوں کی دکان بند کرکے اصلی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرو۔ ۔تمہاری کارروائی نے تو ریاستی پلان کا رُخ ہی موڑ دیا، ورنہ پہلے تو ریاستی داروں اور خفیہ ایجنسیوں نے تو قوم کو یہ راگ دیا ہوا تھا کہ پورے ملک کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف ایم کو ایم سے ہے، ایم کیو ایم ہی ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعت ہے۔

ریاستی اداروں نے تو اس حد تک پھرتیاں دکھائی تھیں کہ 120 گز کے مکان کی پانی کی چھوٹی سے ٹنکی جس میں ایک ٹینکر پانی بھی پورا نہیں آتا ہے، وہاں سے بھی تین ٹرک ناٹو کا جدید ترین اسلحہ جس میں اینٹی ائرکرافٹ گنیں بھی شامل تھیں نکال کر قوم کے سامنے پیش کردیا تھا۔ منصوبہ ساز تو پانی کی ٹنکی سے بحری بیڑہ اور آبدوزیں برآمد کرنا چاہتے تھے ، مگر پانی کی ٹنکی میں اتنی گنجائش نہیں تھی۔ اور عزیز آباد کی تنگ گلیاں اور ساتھ میں ملحقہ کھیل کا گراونڈ بھی اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہاں سے ایف۔16 طیّارے برآمد کئے جاسکتے، لہذا بات صرف تین ٹرک اسلحہ کے ذخیرے کی برآمدگی پر ہی ٹل گئی۔

حالات پر گہری نظر رکھنے والے ہمارے دانشور دوست کاشف رفیق کی دور رس نگاہوں نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈرامہ کرنے والے، دہشت گرد وں کے خلاف کارروائیاں بالکل اس ہی طرح کر رہے ہیں ، جیسے سگریٹ کی ڈبّی پر وزارت صحت ایک وارننگ لکھ کر بری الذمہ ہو جاتی ہے اور سگریٹ فیکٹریاں اپنا کام کھلے عام جاری رکھتی ہیں میڈیا انکی اشتہاری مہم چلا کر پیسے بناتا ہے اور لوگ سگریٹ پی پی کر مرتے ہیں۔

یہی حال ہمارے نیشنل ایکشن پلان کا ہے۔ ہم نے اب تک جتنی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا، وہ سب زندہ اور فعال ہیں ۔ اور جو تنظیمیں دہشت گرد پیدا کر ر ہی ہیں ، انتہا پسندسوچ کو پروان چڑھا ر ہی ہیں، سرکاری خزانے سے ان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ دنیا جن دہشت گردوں کو کو لگام دینے کا مطالبہ کر رہی ہے وہ ہمارے وزیرِ داخلہ کے ساتھ کھلے عام مذاکرات کررہے ہیں، اور ا ن کے سرپرست قومی سلامتی کی میٹنگز میں بیٹھ کر باقاعدہ مشاورتیں کر رہے ہیں ۔

ہم نے دنیا کو دکھانے کے لئے کچھ دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم ضرور قرار دے دیا ہے، انکے نام بھی مختلف لسٹوں میں ڈال دیئے ہیں ۔ مگر وہ اب، بھی ہمارا تزویراتی اثاثہ ہیں۔

پاک چائنا اکنامک کوریڈور کی نئی منصوبہ بندی کرنے والے اب ایک نئی ڈاکٹرائن لے کر آئے ہیں۔ اب وہ ان ہی دہشت گردوں کے ذریعے خان صاحب کو آگے لگا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ جس کیلئے بظاہر حالات سازگار کر دیئے گئے ہیں۔ کراچی سے خیبر تک ہر متوقع مزاحمت کو وقت سے پہلے ہی کچل دیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ اپنی اجارہ داری پر شکرانے کے نوافل پڑھ رہی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی جو صوبہ سرحد میں دہشت گردی کا فرنٹ لائن ٹارگٹ بنتی رہی ہے ۔ ابھی بھی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ایم کیو ایم جس کی قیادت گذشتہ 15 سال سے کراچی میں طالبانائزیشن کا رونا رو رہی تھی ، اور فرنٹ لائن پر انتہا پسندی کی مخالفت کر رہی تھی ، اسے انڈیا اور را کے ساتھ جوڑ کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔ سول سوسائٹی تو پہلے سے ہی غیر فعال تھی، روشن خیال سیاست بھی بے دست و پا ہو چکی ہے۔

اب میڈیا پر انتہا پسندی کے چاہنے والے اوریا مقبول جان ، ڈاکٹر شاہد مسعود ، مبشّر لقمان ، ہارون رشید جیسے صحافی اور قلمکار پاکستان میں ایک ایسے تاریک دن کیلئے راہیں ہموار کر رہے ہیں ،جو خدا نخواستہ ظہور پذیر ہوگیا تو اس دن سے رات کی تاریکی بھی شرمائے گی۔

کوئٹہ میں مرنے والے پولیس کے سپاہی ہیں۔ عوام کو ان کا کیا دکھ؟، یہ تو درمیان کی مخلوق ہیں شہری ان کی بداعمالیوں سے پہلے ہی تنگ آئے ہوئے ہیں، عوام ان کو با وردی ہونے کے ناطے اپنا نہیں سمجھتے اور وردی والے وزارت داخلہ کے غلاموں کو بلڈی سویلین ہی سمجھتے ہیں ، سو انکا نہ کوئی سوگ نہ کوئی غم ، یہ درخت پر اگتے ہیں اور پیروں تلے آ کر کچلے جاتے ہیں، ہاں کرپشن کا وہ پیسہ برآمد کرنا بہت ضروری ہے جسکا بٹوارہ نہیں ہو سکا اور کوئی تنہا ہی تنہا کھا گیا ہے۔ اس لئے میاں صاحب پر شکنجا کس دیا گیا ہے۔

خان صاحب کے قافلے میں لشکر طیبہ ، جیش محمد ، لشکر جھنگوی طالبان سمیت تمام کالعدم تنظیموں کی شمولیت ان عزائم کی تکمیل کیلئے وہ گھنا ونا قدم ہے جسکی مذمت کیلئے ہر مزاحمت کار کو کچل ڈالا گیا ہے ۔

چین نے ایک سڑک کیا بنانے کی ٹھانی حرص و ہوس نے کراچی کے تین کروڑ انسانوں کو جیتے جی مار دیا، تخت لاہور سے طاقت کے مرکز راولپنڈی تک اور اقتدار کے مرکز اسلام آباد سے واشنگٹن ڈی سی تک ، ہر کوئی کراچی پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے ۔ ممکنہ مادّی فوائد حاصل کرنے کیلئے غیر فطری طور پر کراچی کی اکثریتی آبادی اور کراچی کی نمائندہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو کو غّدار قرار دے کر دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ ہوس کی آگ پھر بھی ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اور اب مکمّل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کراچی کو دمشق اور حلب بنانے کی تیاریاں جاری ہیں، یقین نہ آئے تو دسمبر تک انتظار کرلیں۔

4 Comments