کریکلم کیا ہے؟۔ پہلا حصہ

سبط حسن

iuyt


ہمارے محلے میں کریانے کی ایک دکان ہے۔ محلے کا ہر گھر اسی دکان سے چیزیں خریدتا ہے۔ اس دکان کے مقابلے میں کئی دیگر دکانیں کھولی گئیں، مگر اس کے سامنے نہ ٹھہر سکیں۔ اس دکان کے مالک کا دعویٰ ہےکہ کئی صدیوں سے ان کا خاندان اسی پیشے سے منسلک ہے۔ ان کے بچے محض میٹرک تک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد دکانداری شروع کر دیتے ہیں۔ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو اسے خاندانی سطح پر دکانداری کے رموز سمجھنے اور ان کے کامیابی کے اطلاق کی تعلیم و تربیت شروع ہو جاتی ہے۔ اس تعلیم و تربیت کے مرکزی عناصر یہ ہیں:۔

۔۱۔ ایسی تعلیم و تربیت کی جائے کہ بچہ نتیجہ خیز کامیابیوں کے ساتھ دکانداری کر سکے، یعنی یہ کہ یہ تعلیم و تربیت محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ بامقصد ہدف رکھتی ہے۔

۔۲۔ دکانداری کے لیے بہت سی معلومات کا جاننا ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ کس جنس کی خریداری کہاں سے اور کب کرنی ہے۔ اگر کسی جنس کی قلت ہو رہی ہے تو کیا حربے استعمال کرنے چاہئیں۔ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت اور فروخت کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے کی ذہنی صلاحیت ہونا ضروری ہیں۔

۔۳۔ ایسی مہارتوں کی تعلیم کہ جن کو استعمال کر کے گاہک کے خریداری کے رجحان کا اندازہ کرنا۔ مثلاً مشاہدہ کرنے کی صلاحیت کہ جس سے معلوم ہو جائے کہ گاہک واقعی کچھ خریدنے آیا ہے یا صر ف بھاؤ پوچھ کر ہی چلا جائے گا۔ یہ قیاس کرنا کہ فلاں گاہک سستی برانڈ لے گا یا مہنگی برانڈ۔ بھاؤ کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا کہ گاہک زیادہ سے زیادہ قیمت دے جائے اور یہ سب کام خوشی رضا سے ہو جائے۔ یہ سب امور ضروری مہارتوں کے بغیر ممکن نہیں۔

۔۴۔ دکانداری سے متعلق علم اور مہارتوں سے ایک اچھی دکان تو ضرور سج جائے گی مگر منافع خوری یا ذخیرہ اندوزی کے باعث دکان کا لوگوں پر اعتبار نہ بن پائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دکانداری سے متعلق علم اور مہارتوں کے ساتھ ساتھ اچھے رویے بھی ضروری ہیں۔ کس طرح گاہک کو خوش آمدید کہنا ہے، کس طرح اس کا بھروسہ برقرار رکھنا ہے اور کس طرح اس کے ساتھ اپنائیت کو برقرار رکھنا ہے، اچھی دکانداری کے لیے یہ سب ضروری رویے ہیں۔

۔۵۔ دکانداری کی اس تعلیم و تربیت میں پانچ سال لگتے ہیں اور علوم، مہارتوں اور رویوں کو ایک درجہ بندی کے تحت بچوں کو سکھایا جاتا ہے۔ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ پہلے کونسی باتیں، مہارتیں اور رویے سکھائے جائیں گے اور بعد میں کون سے۔ سکھانے کے اس عمل میں پہلے آسان چیزیں سکھائی جاتی ہیں اور بعد میں مشکل۔

روایتی سطح پر، صدیوں سے ایک نسل اپنی آنے والی نسل کو اپنے تجربات، علوم، مہارتوں اور رویوں کی صورت میں منتقل کرتی رہی ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں روایت اور روایت پر مبنی زندگی کو تحفظ مل جاتا تھا۔ یہی نہیں ، وسیع تر سطح پر ایک نظام کو بھی جاری رکھنے میں مدد مل جاتی تھی۔ مثال کے طور پر بادشاہوں کے دور میں بادشاہت کے جبر میں گزارہ کرنے کے آداب بھی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کر دیے جاتے تھے۔ اسی طرح جیسے عورتوں کو مردوں کی بالادستی میں زندگی گزارنے کے لیے مخصوص تعلیم نسواں کا اجرأ کیا جاتا ہے۔

یورپ میں سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی اور ان پر مبنی اشیائے فروخت بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سلسلے کی سرپرستی ایسے لوگ کر رہے تھے جو زیادہ سے زیادہ اشیائے فروخت بنا کر اور پھر ان کی فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانا چاہتے تھے۔ جس طرح بادشاہت کے نظام کی بنیاد زرعی نظام پر تھی اور بادشاہت کو برقرار رکھنے والا غرض مند طبقہ جاگیرداروں پر مشتمل تھا، اسی طرح تجارت سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے والے طبقے نے اپنی غرض مندیوں کو تحفظ دینے کے لیے جدید ریاست کو قائم کیا۔ 

غرض مندیوں میں صرف منافع کمانا ہی نہ تھا بلکہ یہ بھی شامل تھا کہ ریاست میں رہنے والے لوگوں کا نظریۂ حیات کیا ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ بادشاہت میں رہنے والے لوگوں کا نظریۂ حیات جدید ریاستی نظام میں کارآمد نہیں ہو سکتا تھا۔ چیزوں کو بنانے کے لیے مزدوروں کی ضرورت تھی۔ پیشہ ور ہنر مندوں کے بغیر کارخانے چلانا ممکن نہ تھا۔ انتظامی امور کو سنبھالنے کے لیے افسروں کی ضرورت تھی۔ اشیا کی پیداوار اور فروخت کا یہ نیا نظام، قدیم زرعی نظام کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ تھا۔ اس نظام کو مسلسل اپنی پیداوار بڑھانے اور نئی منڈیاں تلاش کرنے کی ضرورت تھی جبکہ زرعی نظام ایک سطح پر آجانے کے بعد منجمد ہو چکا تھا۔ نئے نظام کا مقصد سرمایے کی افزائش تھا اور اس کے لیے نئی نئی جہتوں کو تلاش کرنا، نئی اشیا کو بنانا اور انھیں استعمال کرنے والوں کے اندر مسلسل خریدنے اور استعمال کرتے رہنے کی رمک برقرار رکھنا ضروری تھا۔

ایسی صورتحال میں قدیم روایتی نظام تعلیم و تربیت کافی نہ تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اقتصادی اہداف کے پیش نظر بڑی باریک بینی سے تحقیق کے بعد تعلیم و تربیت کا ایک نظام بنایا جائے۔ اس نظام کی بنیاد کریکلم پر رکھی جاتی ہے۔

عام طور پر کریکلم کے لیے اردو میں لفظ نصاب استعمال کیا جاتا ہے۔ نصاب سے مراد درسی کتب اور سکولوں میں کسی مضمون کے پڑھائے جانے والے عنوانات کی فہرست ، سلیبس، بھی ہے۔ معنوی اعتبار سے کریکلم اور سلیبس ایک دوسرے میں پیوست تو ضرور ہیں مگر دونوں کی اطلاقی حیثیت یکسر مختلف ہے۔ 

سلیبس اور کریکلم

کسی ماہر تعلیم نے سلیبس اور کریکلم میں فرق کی مثال اس طرح دی ہے ۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ فٹ بال کیا ہے تو آپ کہیں گے فٹ بال ربڑ یا چمڑے کا بنا ہوتا ہے اور اس سے کھیلا جاتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک تو درست ہے مگر دراصل فٹ بال ایک کھیل ہے۔ ایک کھیل کا پورا جہان ہے، جہاں گلیوں میں فٹ بال کھیلنے سے لے کر عالمی مقابلوں تک کے سلسلے ہیں۔ فٹ بال کے شاندار کھلاڑی ہیں، فٹ بال کھیلنے کی مہارتیں ہیں، کھیل میں گہری دلچسپی کے باعث فتح اور شکست کے جذبات ہیں۔ کھیل کے دوران دیکھنے والوں کے اندر موجزن ہیجانات ہیں۔ سیکھنے سکھانے کے سلسلے ہیں، جسمانی تندرستی اور چستی کی مشقیں ہیں۔

اسی طرح کریکلم محض عنوانات کی فہرست یعنی سلیبس ہی نہیں۔ ان عنوانات کو کس طرح زندہ اور متحرک بچوں کے لیے ایک عمل کی صورت دینا ہے، کریکلم ہی ہے۔ اس میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی عمر سے مطابقت رکھتے ہوئے ان کے لیے معلومات، مہارتوں اور رویوں کا انتخاب کرنا، پھر ان تینوں کو بڑے سہل طریقے سے بچوں تک پہنچانا کہ بچے ان کو سیکھ کر ان کی اپنے طریقے سے افزائش کرنے کے اہل بن جائیں۔ اس عمل میں بچے کو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بڑوں کا محتاج ہے اور بڑے اس کی ’بہتری‘ کے لیے جو بھی تجویز کریں، آخر کار وہ ان کے لیے بہتر ہو گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بچہ خود اپنی پسند اور فطرت کے حساب سے جو سیکھنا چاہتا ہے اسے سیکھنے دیا جائے۔ یہ سب معاملات کریکلم کی حدود میں آتے ہیں۔

کریکلم کی ضرورت

ہر ملک اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اپنے مخصوص جغرافیائی حالات، وسائل اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے حساب سے کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک کے پاس قدرتی وسائل کی کمی ہے تو اسے اپنے بچوں کو ایسی تعلیم کی طرف لانا پڑے گا کہ جس کی پیشہ وارانہ مانگ دیگر ممالک میں ہو۔ اس طرح وہ ملک اپنے بچوں کے لیے بہتر روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اگر کسی ملک کی زمین زرخیز ہے، دریاؤں کا پانی میسر ہے اور کھیتی باڑی کی روایت بھی ہے تو ایسے ملک کے بچوں کے لیے زراعت سے متعلق پیشوں کو سیکھنے کی حوصلہ افزائی کری چاہیے۔ اس طرح وہ ملک زرعی پیداوار کی برآمد کر کے زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ 

ایسی منصوبہ بندی انسانی وسائل کی تعلیم و تربیت کے بغیر اپنے اہداف پورے نہیں کر سکتی۔ انسانی وسائل کی ایسی تعلیم و تربیت کے لیے ہی کریکلم کی ضرورت پڑتی ہے۔ کریکلم میں نہایت باریکی کے ساتھ تعلیمی اہداف طے کیے جاتے ہیں۔ ان اہداف کو کیسے حاصل کیا جائے گا، اس کے لیے حکمت عملی اور وسائل کا تعین کیا جاتا ہے۔ کریکلم بنانے کا مقصد محض تعلیمی اہداف اور ان کا معیار ہی نہیں بلکہ یہ بھی طے کرنا ہے کہ انسانوں کا مزاج اور ان کے شخصی رویے کیسے ہوں گے۔ عام طور پر روایت پرست یا مخصوص نظریاتی ممالک میں کریکلم بناتے وقت روایت اور نظریاتی ترجیحات کی اشاعت کے لیے مخصوص مضامین اور نظریات کو پڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اگر یہ خیالات آفاقی اقدار سے مطابقت نہ رکھتی ہوں تو اس ملک کے بچوں کے لیے دیگر ممالک میں ملازمتیں اوّل تو ملتی ہی نہیں، اگر مل جائیں تو ایسے بچے معاشرتی سطح پر الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔

کریکلم کی اطلاقی وسعت اور اثر پذیری سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کریکلم کسی بھی ملک کی اجتماعی اور انفرادی تقدیر طے کرتا ہے۔ ہمارے ہاں نام نہاد کریکلم دراصل عنوانات کی فہرست سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ ان عنوانات کے وسیع تر اطلاق کے لیے کیا کچھ کرنا مقصود ہوتا ہے، اس کا واحد حل درسی کتاب کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ استاد بھی کریکلم کے اطلاق میں ایک وسیلے کا درجہ رکھتا ہے مگر اس کا انحصار بھی مکمل طور پر درسی کتب پر ہی ہوتا ہے۔ کریکلم کے مقاصد کس حد تک حاصل ہوئے، اس کی جانچ بھی درسی کتب میں دیے گئے مواد پر پوچھے گئے سوالات پر کی جاتی ہے۔ عام طور پر کریکلم میں دیے گئے عنوانات کو معلوماتی سطح پر درسی کتب میں کسی حد تک شامل کر دیا جاتا ہے۔

تعلیم کے دیگر مقاصد مثلاً مہارتوں اور رویوں کی افزائش یا ناقدانہ سوچ کی نمو جیسے اہم معاملات کو سرے سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے حقیقی اور ضروری مقاصد کی تعداد اگر سو تھی تو ان میں سے صرف بیس پچیس مقاصد کریکلم میں شامل کیے گئے۔ ان مقاصد کو جب درسی کتب میں شامل کیا گیا تو یہ صرف دس فیصد رہ گئے۔ استاد نے جب انھیں کمرۂ جماعت میں بچوں تک پہنچایا تو انھوں نے اس سبق بآواز بلند کسی بچے سے پڑھوا دیا اور بڑی کوشش کی تو مشکل الفاظ کے معانی بتا دیے۔ اس طرح بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کریکلم کے سو مقاصد میں سے دراصل جو مقاصد بچوں تک پہنچے وہ محض ایک دو فیصد سے زیادہ نہ تھے اور یہ مقاصد بھی ان کے سیکھنے کے عمل میں دیرپا حیثیت بھی نہ حاصل کر سکے۔ کمرۂ جماعت سے باہر نکلتے ہی یہ مقاصد ختم ہو گئے۔

کریکلم تعلیمی منصوبہ بندی کا ایک اہم حصہ ہے تاہم حقیقی کریکلم بنانا ہی کافی نہیں بلکہ کریکلم کا جزیاتی سطح پر اطلاق کا بندوبست کرنا اور اہداف کو حاصل کرنے سے ہی انسانی وسائل یا پیداواری وسائل کی ملکی منصوبہ بندی کامیاب ہو سکتی ہے۔
(
جاری ہے)