ٹوٹی ہوئی دیوار

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹرحمید باشانی

ڈاکٹر بلند اقبال کو اگر غیر معمولی ادمی لکھا جائے تو یہ اس لفظ کا بالکل بجا اور درست استعمال ہو گا۔یہ شخص توانائی اور دانش کا جیتا جاگتا شہکار ہے۔کنیڈا میں ڈاکٹرجیسے وقت اور محنت طلب پیشے سے منسلک ہونے کے باوجود ادب و فلسفے کے لیے وقت نکالناکیسے ممکن ہے اس بات کا اندازہ ان لوگوں کو ہے جو مغرب میں اس پیشے کے تقاضوں سے آگا ہ ہیں۔

ڈاکٹر بلند اقبال ایک میڈیکل سپیشلسٹ کی حیثیت سے کنیڈا کے کئی ہسپتالوں سے کل وقتی طور پر منسلک ہونے کے باوجود ادب اور فلسفے کے ساتھ بھی کل وقتی طور پر منسلک ہیں۔وہ گزشتہ کئی سالوں سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ان کے افسانوں کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔افسانوں پر انہوں نے نئے تجربات کیے۔ان کے بعض افسانے مختصر نویسی کا عظیم شہکار ہیں۔

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر بلند اقبال نے وقت کی کمی کے باعث افسانے کی نئی ہیت ایجاد کی ہے۔اور ظاہر ہے اس سے ان لوگوں کو تکلیف پہنچی جو ادب اور اس کی مختلف صنف پر اجارہ داریوں کے قائل ہیں۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ بلند اقبال کا ایک نیا اور کامیاب تجربہ ہے جو ہمارے دور کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ ہے۔

افسانے کی حد تک مختصر نویسی تو ٹھیک تھی مگر ایک دن جب ڈاکٹر اقبال نے مجھ سے یہ کہا کہ میں ناول لکھ رہا ہوں تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکالگا۔میرا پہلا سوال ہی یہی تھا کہ اتنا وقت کہاں سے نکالیں گے تو انہوں نے کہا کہ راتوں کو جاگ جاگ کر لکھتا ہوں۔میرا خیال تھا کہ ڈاکٹرصاحب کو اپنا ناول مکمل کرنے میں کئی سال لگیں گے۔مگر انہوں نے چند ماہ کے اندر نا صرف ناول مکمل کر لیا بلکہ ٹوٹی ہوئی دیوار کے نام سے اس کی ایک دیدہ زیب کاپی میرے ہاتھ میں تھما دی۔

یہ ناول لکھتے وقت بھی بلند اقبال نے اپنی مختصر نویسی کا فن استعمال کیا۔دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق انہوں نے ایک مکمل ناول ایک سو چھہترصفحات میں انتہائی مہارت سے سمو دیا۔بلند اقبال نے اپنے افسانے کی طرح اس ناول میں بھی نئے تکنیکی تجربات کیے ہیں جو ہمارے اس مصروف دور میں نئے لکھنے والوں کے لیے رہنمائی فراہم کریں گے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے ناول میں جن موضوعات پر بحث کی ہے وہ آج کے دور میں پوری اسلامی دنیا کے سب سے اہم ترین اور سنگین مسائل ہیں۔

ان میں سب سے اہم مسئلہ مذہبی شدت پسندی، فرقہ واریت اور نفرت ہے۔اس خشک بلکہ ڈروانے موضوع کو انہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے ایک دلچسپ کہانی میں بدل دیا جو قاری کو شروع میں ہی پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ناول کے کردار پیچیدہ فلسفیانہ مباحث کو بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان میں بیان کرتے ہیں جو بلند اقبال کی مکالمہ نگاری پر گرفت کا اظہار ہے۔

یہی بات منظر نگاری کے فن پر بھی صادق آتی ہے، قاری کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود وہاں کھڑا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ناول اسلامی دہشت پسندی اور فرقہ وارانہ نفرت کی مختلف پرتوں کو ایک ایک کر کہ کھولتا چلا جاتا ہے۔اس کے اسباب سے بھی پردہ اٹھاتا ہے اور نتائج بھی دکھاتا ہے۔ٹوٹی ہوئی دیوار میں جو مناظر دکھائے گئے وہ پاکستان کے ہر شہر میں بلکہ ہر گلی محلے میں رونما ہوئے۔کس طرح دیکھتے ہی لوگ، خدا، رسول اور فرقہ وارانہ عقائد کے نام پر جنون اور دشمنی کے راستے پر چل نکلے۔

کس طرح اسلام کے نام پر خود مسلمانوں نے ایک دوسرے کا لہو بہا۔صدیوں سے ایک ہی شہر ایک ہی محلے میں رہنے والے لوگ اچانک ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور دشمن بن گئے۔یہ جنون کسی وائرس، کسی وبا کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ یہ ایک وسیع اور خوفناک منظر ہے جو بلند اقبال نے بڑی چابک دستی سے ناول میں سمو دیا۔افغانستان کس جبر کا شکار ہوا۔ اہل کابل کس کرب سے گزرے۔افغانستان کس طرح دو عالمی نظاموں کے درمیان جنگ کا اکھاڑا بن گیا۔یہاں کس طرح عالمی طاقتوں نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔شدت پسندی کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے پورے سماج پر چھا گئی۔

سماج میں کس طرح روشن خیالی اور رجعت پسندی کے درمیان تضاد اور پھر باقاعدہ لڑائی شروع ہوئی۔یہ لڑائی کس طرح سکولوں اور یونیورسٹیوں سے ہوتی ہوئی سڑکوں تک پھیل گئی۔ڈاکٹر اقبال نے کتاب میں مذہب، عقیدے، اخلاقیات اور رسم رواج کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوال اٹھائے اور ان کے مدلل جواب فراہم کیے۔ناول میں حالات کی ایک خوفناک تصویر پیش کرنے کے بعد ایک رجائیت پسند آدمی کی طرح ایک اچھے مستقبل کی نوید دی۔

یہ مستقبل ان کے خیال میں مذہبی اور اخلاقی بندھنوں سے آزاد ہو کر انسانیت کو بطور مذہب اپنانے سے جڑا ہے۔ان کے خیال میں ارتقا ایک حقیقت ہے۔انسان جو چاہے کر لے وہ ارتقا کو نہیں روک سکتا۔اور ارتقا کے ذریعے اسے آخر کار ایک دن مہذب ہونا ہی ہے۔

ڈاکٹر بلند اقبال ایک سائٹیفک آدمی ہیں۔ وہ ارتقا کے سیدھے نظرئیے پر یقین رکھتے ہیں۔مگر جو کچھ افغانستان اور پاکستان میں گزشتہ نصف صدی سے ہو رہا ہے یہ اگر کوئی ارتقا ہے تو بالکل الٹی سمت میں ہو رہا ہے۔بہرحال یہ ناول پڑھنے کے قابل ہے اور ترقی پسند ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

One Comment