پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ، بلوچ کیا چاہتے ہیں ؟

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

گوادر ، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی ساحلی بندرگاہ ہے۔ گوادر 1958 میں پاکستان کو فروخت کئے جانے سے پہلے سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ گوادر ، صوبہ بلوچستان کے سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع میں سے ایک ضلع ہے۔ گوادر کویہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ گہرے پانی کی ایک قدرتی بندرگاہ ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ آبنائے ہرمز کے قریب خلیجِ فارس میں موجود ہے، جہاں سے دنیا کے تیل کی سپلائی کا 40 فیصد حصہ گزرتا ہے۔

گوادر کی تجارتی اہمیت اپنی جگہ پر ہے، مگر پاک چائنا اقتصادی راہداری کے طے شدہ رُوٹ کے مطابق ، گوادر بندرگاہ کی اہمیت ، چین کے نزدیک اس قدر زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کے استعمال سے چین کے مشرقِ وسطٰی کے ساتھ تجارتی روٹ کا فاصلہ اور وقت ایک تہائی رِہ جائے گا ۔

پہلے جو تجارت مشرقی چین میں جنوبی چائناسمندر اور آبنائے ملاکا کے ذریعے ہوتی تھی اس کے ذریعے مشرقی وسطیٰ کے سامانِ تجارت کو 9912 میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، جبکہ کاشغر سے گوادر تک کے تجارتی راستے کے ذریعے اس سامانِ تجارت کو مشرقِ وسطٰی سے وسطی چین تک صرف 3626 میل ، جبکہ مغربی چین تک صرف 2295 میل کا سفر طے کرنا پڑے گا۔

اس وقت چین کو مشرقی وسطی ٰ سے اپنے ساڑھے چھ ملین بیرل تیل کی ترسیل کے لئے روزانہ 18 ملین ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں ، گوادر کے راستے پاک چائنا اقتصادی راہداری بننے کے بعد چین ، صرف تیل کی ترسیل کے اخراجات کی مد میں 12 ملین ڈالر روزانہ بچا سکے گا۔

گوادر میں چین کی دلچسپی اور اِس کی سٹرٹیجک اہمیت یہ بھی ہے کہ گوادر کی بندرگاہ مستقبل میں اگر چین کے کنٹرول میں رہی تو آگے چل کر یہ بحرِ ہند میں چین کا فوجی بحری اڈہ بھی بن سکتی ہے، اور بیجنگ کو بھارتی اور امریکی بحریہ کی سرگرمیوں کی نگرانی اور مقابلہ کرنے کے قابل کر سکتی ہے۔

مئی 2013 میں چینی وزیرِ اعظم لی چی چیانگ نے پاکستان کے دورے کے دوران گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاک ، چین اقتصادی راہداری کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ چینی وزیرِ اعظم نے اس وقت کہا تھا کہ ہمیں دونوں اطراف کے رابطوں، توانائی کی ترویج اور بجلی کی پیداوار کے ترجیحی منصوبوں پر توجّہ مرکوز کرنا چاہے۔

پاک چائنا اقتصادی راہداری کا منصوبہ ایک بڑا اقتصادی اور تجارتی منصوبہ ہے۔ جِس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان میں گوادر بندرگاہ سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک ریلوے ، موٹر وے ، اور گیس و تیل کی پائپ لائنوں کے ذریعے ، تیل، گیس اور تجارتی سامان کی ترسیل کرنا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک کا برہِ راست سیدھا فاصلہ 2442 کلومیٹر طویل ہے۔

مگر پاک چائنا اقتصاددی راہداری کو پنجاب سے گزارنے کی وجہ سے فاصلہ طویل اور منصوبے کو مکمّل ہونے میں کئی سال اور کثیر سرمایہ درکار ہے۔ چینی وزیرِ اعظم نے منصوبے کی ابتدائی لاگت کے تخمینے کی تکمیل کے لئے فوری طور پر 46 بلین ڈالر لگانے کا وعدہ کیا ہے جس میں سے 11 بلین ڈالر اقتصادی راہدار ی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے ، اور باقی 35 بلین ڈالر توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

بیس 20 اپریل 2015 کو پاکستان میں چینی صدر کے دورے کے دوران پاک چائنا اقتصادی رہداری کے منصوبوں کے لئے مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ ان منصوبوں میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر (جو کہ تقریبامکمّل ہے)، برتھوں اور کنٹیر ہنڈلنگ ٹرمنلز کی تعمیر اور بندرگاہ کی چالیس سالہ لیز شامل ہے۔

کراچی سے لاہور کے درمیان موٹروے، حویلیاں سے خنجراب تک ریلوے لائن، ہزارہ موٹروے، گوادر رتوڈیرو موٹروے، حویلیاں ڈرائی پورٹ، گوادر کا بین الاقوامی ہوائی اڈّہ، گوادر سے نوابشاہ ایل این جی ٹرمنل و پائپ لائن پروجیکٹ، صحرائے تھر میں کوئلے کی کان کنی اور بجلی گھر کی تعمیر، فائبر آپٹک لائن منصوبے قابلِ ذکر ہیں۔

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کے جنوب مغرب میں گوادر کی بندرگاہ کو چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں کاشغر سے ملانے کے لیے ایک 1800 کلومیٹر طویل دو طرفہ ریلوے لائن، تیل کی پائپ لائنوں کا جال، اور نئی سڑکوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔

اس منصوبے میں توانائی کے منصوبوں کی ایک طویل قطار بھی ہے ،جس سے اندازاً 10400 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے امکانات ہیں۔ ، خصوصی اقتصادی زونز، راہداری کے روٹ پر چھوٹے ڈرائی پورٹس اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے بھی شامل ہیں۔ پورے منصوبے کی تکمیل کے لئے متوقع تخمینہ لگائی گئی قیمت 75 ارب امریکی ڈالر ہے جن میں سے 46 ارب امریکی ڈالر 2020 تک راہداری ، اور دیگر منصوبوں کویقینی طور پر قابل عمل بنانے کے ضامن ہوں گے۔

اقتصادی راہداری منصوبے کو دہشت گردی سے تحفّظ دینے کی خاطر حفاظتی فوج کی مسلّح اور جدید اسلحے سے آراستہ ایک ڈویژن فوج کی بھرتی، تربیت اور تعیناتی کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ فی الحال پاکستانی فوج نے 12،000 سیکورٹی اہلکاروں کو تربیت دینے کا منصوبہ بنایا ہے اور اقتصادی راہداری پر کام کرنے والے چینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ڈویژنتشکیل دیا ہے۔ پاکستان بھر میں 210 منصوبوں پر کام کرنے والے 8100 سے زائد چینیوں کی حفاظت کے لیے 8000 سیکیورٹی اہلکاروں کو پہلے ہی تعینات کیا جا چکا ہے۔

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جس مین سرِ فہرست اندرونی دہشت گردی، بھارت اور امریکہ کی ناپسندیدگی، اور بلوچستان میں امن و امان کے مسائل اور بلوچوں کے ساتھ ریاستی ظلم و ستم اور بلوچوں کی ناراضگی سرِ فہرست ہیں۔ پنجاب کے علاوہ باقی تین صوبے اقتصادی راہدار ی منصوبے کی ثمرات کے حصول پر بہت شدید تحفّظات رکھتے ہیں۔

پورے ملک میں اس سلسلے میں مباحثے جاری ہیں۔ مگر سرِ فہرست مسئلہ اہلِ بلوچستان اور بلوچ عوام کی شدید ناراضگی، ریاست سے ان کے شدید اختلافات اور تحفّظات ہیں۔ اس سلسلے میں خود بلوچ رہنماء، سیاست دان اور بلوچ اہلِ علم و دانشور کیا کہتے ہیں ، ہم اگلی قسط میں بات کریں گے۔

One Comment