پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ، خود بلوچ کیا  چاہتے ہیں؟

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

آخری قسط

گزشتہ ماہ بلوچستان یونیورسٹی  آڈیٹوریم میں پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے   پر بلوچ عوام کے  خدشات و شکایات  پر بات چیت کے لئے ایک   جامع مذاکرے  کا اہتمام کیا گیا  تھا، جس میں بلوچستان سے تعلّق رکھنے والے قوم پرست سیاستدانوں، مفکّروں، دانشوروں، اور  دیگر رہنماوں نے اظہارِ خیال کیا ،  اور سوالات کے جوابات دیے۔ مذاکرے کے خاص موضوعات  درج ذیل تھے۔

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو  بلوچ کِس نظر سے  دیکھ رہے ہیں؟

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے پر   بلوچ قوم پرست سیاسی رہنماوں کی کیا سوچ ہے؟

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے پر بلوچستان کے عوام  کی مجموعی  سوچ کیا ہے؟

کلیدی اسپیکرز میں سردارکمال خان بنگلزئی ممبر قومی اسمبلی و رہنماءنیشنل پارٹی، نوابزادہ لشکری رئیسانی ، قبائلی و سیاسی رہنما،اصغر خان اچکزئی، رہنماء عوامی نیشنل پارٹی ، ڈاکٹر جاوید اقبال ، وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی، آصف بلوچ ایڈوکیٹ ، رہنما بلوچستان نیشنل پارٹی کے نام قابلِ ذکرہیں۔

سردار کمال خان بنگلزئی کا کہنا تھا کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبےمیں  سب سے بڑا خطرہ بلوچستان میں ڈیموگرافی کی تبدیلی کا خطرہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل کے دوران اور بعد میں جو لوگ بلوچستان میں رہائش اختیار کریں ان کا ووٹر لسٹوں میں نام نہ ہو، نہ ہی وہ جائیدادیں خرید سکیں ، نہ ہی ان کا کوئی حقِ ملکیت ہو۔

گوادر پورٹ سے  ہونے والی آمدنی میں سے بلوچستان کا حصّہ مختص ہونا چاہئے، پورٹ اور راہداری کا کنٹرول وفاق کی بجائے   بلوچستان کی مقامی انتظامیہ کے پاس ہونا چاہئے۔  بلوچستان اور گوادر کی مقامی آبادی اور بزنس کمیونٹی کو تجارتی مفادات میں شراکت داری ملنا چاہئے۔ جو روزگار پیدا ہو، اُس میں مقامی لوگوں کو پہلی ترجیح ملنی چاہئے، اور تمام متّفقہ تجاویز کو صوبائی، و قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرواکر آئینی و قانونی حیثیت ملنی چاہئے۔

لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ  پاک چائنا اقتصادی راہداری صرف ایک راستہ نہیں ہے ، بلکہ بلوچوں کے وجود کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ بلوچوں کو  اِس  منصوبے میں  ملازمتوں کی بجائے   حقِّ ملکیت ملنا چاہئے، تاکہ ہمارے ثقافتی اور تاریخی وجود کا تحّٖفظ یقینی ہو۔ اس منصوبے پر پہلے بحث و مباحثہ، پھر قانون سازی پھر عمل درآمد ہونا چاہئے، ورنہ معاملات نہیں چلیں گے۔

اصغر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ اگر بلوچستان کے سارے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا تو یہ منصوبہ ، بلوچستان کی تباہی و بربادی  کا منصوبہ ثابت ہوگا۔

ڈاکٹر جاوید اقبال، وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ ایک حقیقت ہے، اسے مکمّل ہونا چاہئے۔اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، اس منصوبے سے روزگار پیدا ہوگا جو  یونیورسٹی کے فارِغ التحصیل نوجوانوں کو ملے گا۔

آصف بلوچ ایڈوکیٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنماء کا کہنا تھا کہ، اِ س روٹ کو  کیوں بلاوجہ  اس کے اصل راستے کی بجائے  سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ  اور دیگر علاقوں میں گھمایا پھرا یا جارہا ہے؟وفاق کو ہمارے صوبے کے عوام پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو ہمارے پچاس ہزار نوجوانوں کو چائنا اور دیگر ممالک میں وظیفہ پر تعلیم و فنّی تربیت دے کر افرادی قوّت کا حصّہ بنایا جاتا۔

ممتاز جلاوطن بلوچ رہنما اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے چیئرمین نوابزادہ براہمدغ بگٹی کا کہنا ہے  کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبداالمالک بلوچ سے ملاقات ہوئی تھی ،جس میں انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے رائے مانگی تھی ، مگر پھر بھی ہمارے مثبت جواب کے بعد اب تک  کہیں سے کوئی کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

نواب براہمداغ بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کی  موجودہ سیاسی قیادت کسی بھی قسم کے جامع  مذاکرات کی اہل نہیں  ہے، کیونکہ بلوچستان کے حالات تو  عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں اگر وہ بات چیت کے ذریعے بلوچستان کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں، تو ہم بھی بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

عسکری اسٹیبلمنٹ  تو یہ چاہتی تھی کہ وہ ہمیں مذاکرات کی دعوت دیں اور ہم انکار کردیں اور پھر بلوچستان کی حالات کی خرابی کا ذمہ ہمیں ٹھہرایا جائے ۔ مگر مذاکرات پر ہماری آمادگی کے بعد اب حکومت خود پھنس چکی ہے۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو اس اربوں ڈالر کے معاہدے کا پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہے اور کون اس سے سب سے زیادہ مستفید ہو گا۔

بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ ،بلوچستان کے عوام کے ہاتھوں میں ہونا  چاہئے کیونکہ پنجاب کے لوگ  بلوچستان کے مسائل سے واقف نہیں ہیں ۔ بلوچوں کو اپنے فیصلے کا خود اختیار دینا ہو گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کسی بلوچ رہنما سے کوئی رائے نہیں لی گئی ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کا بلوچستان  کو نہیں بلکہ سارا فائدہ پنجاب کو ہوگا۔ ہمارے لیے کیا اچھا اور کیا بُرا ہے، فیصلہ ہم کریں گے۔

یہاں  پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر  مئی سنہ 2015 میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کا حوالہ دینا  بھی بہت ضروری ہے، جس میں اقتصادی راہداری منصوبے پر ہونے والی بحث میں بلوچستان میں  گذشتہ   کئی دہائیوں سے جاری بلوچ پشتون رقابت کی جھلک صاف نظرآ تی ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو نے بلوچستان میں آباد افغان پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ بلوچستان میں آباد افغانیوں کی وطن واپسی کا بندوبست کرنے کے بارے میں گفتگو کررہے تھے۔

میر حاصل خان بزنجو   نےخدشہ ظاہر کیا  تھا کہ ملازمتوں کی تلاش میں بہت سے پختون، بلوچستان آئیں گے، جس سے بلوچ آبادی پر مزید دباؤ پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان پناہ گزین اور غیررجسٹرڈ پختونوں کے مسئلے کو  آئندہ مردم شماری سے قبل لازماً حل کرلیا جائے۔ اِس پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) کے سربراہ محمود خان اچکزئی خود کو اس معاملے سے علیحدہ نہ رکھ سکے اور انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے میر بزنجو پر طنز کرتے ہوئے کہا ’’افغان پناہ گزیں پختونوں  کو افغانستان واپس بھیجنے سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اس اجلاس میں موجود ہم سب پختونوں کو بھی ملک چھوڑ دینا چاہیے۔

مذاکرے کے شرکاء اور بلوچستان کے دیگر بلوچ و پشتون قوم پرستوں کی آراء کا خلاصہ یہ کہ  پاک چائنا اقتصادی راہداری منصو بہ بہت اہمیت کا حامل ہے،  گوادر بلوچستان کی بندرگاہ ہے، یہ منصوبہ  بلوچستان کا منصوبہ ہے، بلو چستان کے عوام کا اس منصوبے پر حقِّ ملکیت ، حقِّ شراکت اور حقِّ حاکمیت  واضح  طور  تسلیم  ہونا چاہئے، بلو چستان کے عوام  کی تاریخ ، ثقافت اور رسم و رواج ، کا تحفّظ ہونا چاہئے۔

بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی عوام ،سیاستدان، دانشور، مفکّر، سماجی رہنماوں، منتخب نمائندوں ، سب کا اعتماد اس منصوبے میں شامل ہونا چاہئے۔  باقاعدہ قانون سازی کرکے   پاک چائنا اقتصادی راہدار ی کے ثمرات  کا حصول  بلوچستان کے عوام کے لئے   یقینی بننا چاہئے۔  

بلوچستان میں آئندہ ہونے والی مردم شماری اور انتخابی حلقہ بندیوں سے پہلے ، افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور بلوچستان کی ڈیموگرافی میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات   کا جامع  آئینی و قانونی  حل، گوادر پورٹ اور راہداری کا کنٹرول بلوچستان کے عوام  کے پاس ہونا چاہئے۔  بلوچ یہی کچھ چاہتے ہیں۔

 ♦

One Comment