جنرل قمر جاوید باجوہ ،نئے آرمی چیف

_04e2bcfe-b3d5-11e6-9428-9e75312725ed

وزیراعظم نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستانی فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے، جبکہ موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف اٹھائیس نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

کئی ہفتوں کی قیاس آرائیوں کے بعد  بالاخر  نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا فوجی سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کیا گیا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حکومتی اعلان میں بتایا گیا کہ صدر ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ باجوہ کو سب سے فیورٹ سمجھے جانے والے لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کی جگہ فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ملتان کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کو بھی اِس منصب کے لیے نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

اِس نئی تعیناتی کے حوالے سے عسکری تجزیہ کار امتیاز گُل کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے انتخاب میں سینیارٹی کی جگہ بعض دوسرے امور کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ گُل کے مطابق یہ  تھوڑا بہت حیران کن ضرور ہے لیکن غیرمتوقع نہیں ہے۔

کچھ حلقوں کی طرف سے جنرل باجوہ کو احمدی قرار دے کر ان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر عقابی سوچ کے حلقوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے جنرل باجوہ کو ’کمپرومائز‘ انتخاب قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق فوج کے عقابی نظریے کے حامل افسران یقینی طور پر جنرل اشفاق ندیم احمد  یا جنرل زبیر حیات کو اِس منصب پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اور اس فیصلے کے مطابق زبیر حیات کو پوری طرح فوج سے فارغ نہیں کیا گیا۔

عائشہ صدیقہ کے مطابق زبیر حیات کو چیئرمین جوائٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بنا کر فوج کے عقابی سوچ کے حلقوں کو ایک طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور آرمی کے سربراہ کے طور پر اپنی پسند کا جنرل مقرر کر دیا گیا ہے۔

فوج کے نئے سربراہ کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے اور اس رجمنٹ کی جانب سے پہلے بھی کمانڈرانچیف سامنے آ چکے ہیں۔ ان میں سابق صدر جنرل یحییٰ خان اور جنرل اشفاق پرویز کیانی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کے مطابق باجوہ ایک پیشہ ور فوجی ہیں اور فوجی معاملات کے ساتھ پوری طرح وابستہ رہتے ہوئے اپنی شہرت پر توجہ نہیں دیں گے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کے نزدیک پیشہ ور فوج کی اصطلاح بھی بہت مبہم ہے۔ ہر نئے آرمی چیف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پیشہ ور فوجی ہیں مگر وہ چند ماہ بعد ہی عسکری امور کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی ہاتھ بٹانا شروع کر دیتے ہیں۔

کیا جنرل باجوہ کی تعیناتی سے فوج کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی آئے گی؟

تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا ناممکن نظر آتا ہے۔ پاکستان کی فوج کا وجود ہی بھارت دشمنی پر قائم ہے ۔ اس لیے سیاسی حکومت چاہے جتنی مرضی کوششیں کر لے ، بھارت سے دوستانہ تعلقات ممکن نہیں اور نہ ہی طالبان کے سر سے ہاتھ اٹھایا جائے گا۔ ہاں ان عناصر کی بیخ کنی کی جائے گی جو سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بنیں گے۔

DW/News

One Comment