ایران اور سعودی عرب کی نئی پراکسی وار

Shiites walk along a street during a protest calling for the release of their leader Malam El-Zakzaky in Kano, Nigeria, December 21, 2015 REUTERS/Stringer EDITORIAL USE ONLY. NO RESALES. NO ARCHIVE - RTX1ZNKV

مسلمان جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں آج سے پندرہ سو سال پہلے ہدایت مل گئی تھی لیکن پندرہ سو سال بعد بھی اس ہدایت کے باوجود دور جاہلیت میں زندہ رہ رہے ہیں۔

مسلم دنیا کا المیہ ہے کہ امیر مسلمان ممالک مسلمانوں کے لیے اچھے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بجائےآج بھی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہیں۔

پاکستان، شام، یمن اور فلسطین کے بعد اب شمالی نائجیریا بھی سعودی عرب اور ایران کی ’پراکسی جنگ‘ کا تازہ ترین میدان بن گیا ہے۔ اس علاقے میں ان دو ممالک کے حامیوں کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

عزالہ تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد، جن کی پشت پر سعودی عرب ہے، نے گزشتہ ماہ اسلامک موومنٹ اِن نائجیریا (آئی ایم این) کے حمایتیوں پر حملہ کیا تھا۔ آئی ایم این کا جھکاؤ شیعہ اکثریتی ملک ایران کی طرف ہے۔

گزشتہ ماہ عاشورہ کے موقع پر شمالی نائجیریا کے چار شہروں میں آئی ایم این کی مجالس پر عزالہ کی جانب سے حملے کیے گئے تھے۔ ان حملوں میں آئی ایم این کے کم از کم دو کارکن ہلاک بھی ہو ئے تھے۔ عزالہ کے گڑھ کادونا میں کئی روز تر شدید لڑائی جاری رہی تھی۔

عینی شاہدین کے مطابق مشتعل سنی ہجوم دو روز تک لوٹ مار کرتے رہے اور ’’مزید شیعہ نہیں چاہییں‘‘ کے نعرے بلند کرتے رہے۔

مسلم اکثریتی ملک نائجیریا میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ خاص طور پر کادونا میں صورت حال انتہائی خراب ہے۔

علاقے کی حکومت آئی ایم این کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے غیر قانونی تنظیم قرار دے چکی ہے۔

زاریہ شہر میں گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں جھڑپیں ہوئی تھیں، جس میں حکومتی فوجیوں نے آئی ایم این کے تیس سو کارکنوں کو ہلاک کردیا تھا۔

دسمبر کے واقعات اور حالیہ جھڑپوں کو ماہرین شمالی نائجیریا میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ’پراکسی وار‘ یا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر شیعہ اور سنی تنظیموں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی جنگ قرار دے رہے ہیں۔  لبنان، یمن اور شام میں یہ ’پراکسی وار‘ کافی عرصے سے دیکھی جا رہی ہے، اور اب یہ کشمکش نائجیریا میں بھی نمایاں ہو رہی ہے۔

زاریہ کی یونی ورسٹی سے وابستہ سیاسی امور کے ماہو ابوبکر صادق محمد کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب کئی ممالک میں شیعہ شکن تحریکوں کی معاونت کر رہا ہے۔ اگر نائجیریا میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے تہران ان کی امداد کرے گا اور ریاض اس کے برعکس کارروائی کرے گا‘‘۔

مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک کے علاوہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلم اکثریتی ملکوں میں ایران اور سعودی عرب کے اثر و رسوخ کی جنگ جاری ہے۔ پاکستان بھی کئی دہائیوں سے ان ممالک کی پراکسی وار کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔جبکہ مسلم مبصرین ان ممالک کی مذمت کرنے کی بجائے اسے امریکی و اسرائیلی سازش قرار دیتے ہیں۔

DW/News desk

Comments are closed.