قائد اعظم کے کھوٹے سکے

mirza

اسلام مرزا

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ”میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں“۔ یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور دہرانے والوں کی اکثریت جمہوریت میں کیڑے نکالنے والوں کی ہے۔ یہ بات کسی نا کسی شکل میں عوام کے دماغ میں بٹھا دی گئی ہے۔ کیا واقعی قائد نے یہ بات کہی تھی اور اگر کہی تھی تو کس موقع پر کہی تھی؟ آج تک اس کا تعین نہیں ہوسکا۔

اگر اسے سچ مان لیا جائے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا قائد اعظم اتنے ہی بیوقوف تھے کہ کھوٹے سکوں کی ٹیم کو ساتھ لے کر پاکستان بنانے چل نکلے۔ قائد یقیناً اتنے بیوقوف ہرگز نہیں تھے۔ تو پھر اس بات کا مقصد کیا ہے؟ اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر غور کیا جائے تو اس بات کا واضح مقصد سیاستدانوں کو نااہل ثابت کرنا اور عوام کو بیوقوف بنانے کے ساتھ ساتھ اقتدار و اختیارسے محروم رکھنا ہے۔

سب سے پہلے تو ان کھوٹے سکوں کو ایبڈو کے ذریعے سیاست سے فارغ کیا گیا اور اہل سیاستدان پیدا کرنے کے لئے ملک میں بنیادی جمہوریت نامی نرسری قائم کی گئی۔ اور ساتھ ہی بچوں کونصاب میں بنیادی جمہوریت کو ہی اصلی اور خالص جمہوریت کے طور پر پڑھایا جانے لگا کہ جمہوریت کو عام آدمی تک پہنچانے کا یہی بہترین طریقہ ہے مگر حقیقت میں اس کا مقصد عام آدمی کو اقتدار تک پہنچنے سے روکنا تھا۔

مگر پھر بھی لوگوں میں جمہوریت کی خواہش کو دفن نہ کیا جاسکا۔ چنانچہ تحریک چلی جس کے نتیجے میں ایک اور ڈکٹیٹر نے اقتدار سنبھال لیا مگر اسے اعلان کرنا پڑا کہ عام انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔ جس کا مطلب یہ کہ اب عام آدمی بھی عوامی تائید سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکے گا۔

مگر اس قسم کی جمہوریت خدا کے برگزیدہ بندوں کو ہضم ہونے والی نہیں تھی اس لئے علامہ اقبال کی دانش کا استعمال کرتے ہوئے ایک نیا فکری محاذ کھول دیا گیا۔ اخبارات میں ”جمہوریت کس سونے کی چڑیا کا نام ہے؟“ قسم کے مضامین لکھے جانے لگے جن میں اس بات پر زور دیا جاتا کہ گدھا اور گھوڑا ایک برابر نہیں۔ گویا عوام بس گدھے ہیں۔

اس کے باوجود عام انتخابات ہوگئے اورجالب کے عوام نامی گدھوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ گو کہ بدقسمتی سے ملک دو لخت ہوگیا مگر اقتدار بہرحال گدھوں کے چنے ہوئےکھوٹے سکوں کو مل گیا۔ جنہوں نے ایک متفقہ آئین کے ذریعے اقتدار میں عوام کی شراکت کی ضمانت دی ۔ اور ساتھ ہی خدا کے برگزیدہ بندوں کی خوشی کے لئے قرارداد مقاصد کو بھی بطور تبرک آئین کے ساتھ نتھی کردیا۔ جس کا عملاً آئین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

اب بظاہر تو سب ٹھیک تھا مگر موقع ملتے ہی کھوٹے سکوں کو پھر سے نکال باہر کیا گیا۔ اس دفعہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے لوگوں کا کوئی مستقل بندوبست کیا جائے ورنہ عوام پھر انہیں واپس لے آئیں گے۔ ایسا کرنے کے لئے پاکستان کی سیاسی لغت میں کچھ نئے الفاظ شامل کئے گئے۔ جیسا کہ ”کرپشن“، ”احتساب“ ، “بادی النظر“ ، ”اخلاقی جواز“ اور ”قانونی جواز“۔ چنانچہ ملک میں پہلی بار ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کا نعرہ لگوایا گیا تاکہ ناپسندیدہ سیاستدانوں کا راستہ روکا جاسکے۔

مگر احتساب کرنے والے یہ بات بھول گئے کہ سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کرنے کے لئے سیاست میں کرپشن کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ ناپسندیدہ سیاستدانوں کی روک تھام کے لئے ”قانونی جواز“ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں ”اخلاقی جواز“ تلاش کیا گیا اور آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ متعارف کروائے گئے۔ اور ساتھ ہی سیاست میں کرپشن کو بھی متعارف کروایا گیا۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا تاکہ کوئی بھی قانون خدا کے برگزیدہ بندوں کی منظوری کے بغیر نہ بنایا جاسکے۔

سیاسی جماعتوں کی غیر موجودگی میں غیر جماعتی امیدواروں کو الیکشن کے لئے چندہ جمع کرنا مشکل تھا اور سیاسی ورکروں کی بجائے کرائے کے ورکروں سے کمپین کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی۔ الیکشن کے لئے خرچ کی حد کو پندرہ ہزار روپئے سے بڑھا کر پانچ لاکھ کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے عام دیانتدار آدمی انتخاب لڑنے کے عمل سے باہر ہوگیا۔ یعنی اب کوئی امیدوار کارکنوں کی چلائی ہوئی انتخابی مہم کے زور پر صرف ایک سو سینتالیس روپئے خرچ کرکے قومی اسمبلی کا ممبر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

امیداروں کا خرچہ پانچ لاکھ روپئے سے بھی تجاوز کر گیا جس کے نتیجے میں انتخاب لڑنے کا عمل بزنس انویسٹمنٹ میں تبدیل ہوگیا۔ میاں نواز شریف صاحب نے اپنے پہلے انتخاب میں لاہور سے شائع ہونے والے تمام اخبارات میں اشتہار کے طور پر چار صفحات پر مشتمل رنگین کور لگوایا۔ اس وقت مشہور تھا کہ میاں صاحب نے اپنی الیکشن مہم پر دو کروڑ روپئے کے قریب رقم خرچ کی۔

اب ظاہر ہے لوگوں نے اتنی بڑی رقم منافع سمیت وصول بھی کرنی تھی مگر اس کے لئے ان کے پاس کوئی مروجہ طریقہ نہ تھا۔ ایسے میں جنرل ضیا نے ملک میں پہلی دفعہ ممبران اسمبلی کو نوازنے کے لئے ترقیاتی کاموں کی مد میں ممبران کو براہ راست مالی بجٹ جاری کرنے کی روایت ڈالی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ممبران کو بسوں کے روٹ پرمٹ، راشن ڈپو اور چھوٹے موٹے لائسنسوں کی صورت میں ہی نوازا جاتا تھا۔ اس طرح سیاست میں کرپشن کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جسے جنرل مشرف نے گراس روٹ لیول تک پہنچا دیا۔ اور ساتھ میں احتساب کے نام پر احتساب کو بھی ناممکن بنادیا۔

سیاست کو کرپٹ کرنے کے بعد ناپسندیدہ سیاستدانوں کو کرپشن کا الزام لگا کر ذلیل و خوار کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ جس سے زیادہ خطرہ محسوس ہوا اس پر ملک دشمنی اور غداری کا ضمنی الزام بھی لگایا جانے لگا۔ سیاستدانوں کی کرپشن کی نام نہاد فائلیں تیار ہونا شروع ہوئیں مگر ان فائلوں کو کسی بھی مقدمے میں عدالتوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ گویا یہ فائلیں صرف سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کے لئے ہی مشہور کی جاتی ہیں۔ ہر شام ٹی وی پر بیٹھ کر انہی نام نہاد فائلوں کی بنیاد پر اینکر نما مسخرے عدالت لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اینکر: کیا الف نے کرپشن کی ہے؟
تجزیہ کار: جی ہاں ”بادی النظر“ میں تو لگتا ہے کہ کرپشن کی ہے۔

بد دیانت سیاستدان: حضور یہ الف پر محض ایک الزام ہے۔
دیانت دار سیاستدان: دیکھیں اینکر۔ آخر الف نے کرپشن کی ہے تو الزام لگا ہے نا۔ آخر ب پر الزام کیوں نہیں لگا ؟
بد دیانت سیاستدان: ابھی الزام عدالت میں ثابت تو نہیں ہوا۔

سینیئر تجزیہ کار: ثابت نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے حضور۔ الف کو چاہئے کہ استعفیٰ دیکر پہلے اپنے آپ کو عدالت سے کلیئر کروائے۔
دیانت دار سیاستدان: بالکل اینکر، اور اپنے خلاف ثبوت بھی خود ہی پیش کرے۔ ورنہ عدالت کو چاہئے کہ وہ الف کے خلاف ثبوت تیار کروائے۔ آخر یہ عدالت کا کام ہی تو ہے نا۔

اینکر: کیا الف سے استعفیٰ مانگنے کا کوئی ”قانونی جواز“ ہے؟
سینیئر تجزیہ کار: چھوڑیں حضور۔ بات ”قانونی جواز“ کی نہیں۔ الزام لگنے کے بعد الف کے پاس اپنے منصب پر رہنے کا کوئی ”اخلاقی جواز“ نہیں بچا۔ ویسے بھی اللہ کے پیارے نبی نے فرمایا تھا۔ بلا بلا۔ الزام جو لگ گیا ہے تو اپنے آپ کو کلیئر کروائے۔

۔۔۔ اس سارے عمل کا اصل مقصد عوام کو جمہوریت سے بد دل کرنا ہے۔ ورنہ جن فرشتوں نے سیاست میں کرپشن شروع کرکے اس کی پرورش کی ہے وہ اسے ختم کرنے میں دلچسپی کیوں لیں گے۔ مگر انہیں یہ بخوبی علم ہے کہ اگر یہ لولی لنگڑی جمہوریت چلتی رہی تو آہستہ آہستہ ”گدھے“ سیاستدانوں کے احتساب کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے احتساب کا اختیار بھی حاصل کرلیں گے۔

نوٹ: اس تحریرکا مقصد ہرگز کرپشن کا دفاع یا کسی کی کرپشن کا جواز پیش کرنا نہیں ہے۔ صرف برائی کی اصل وجہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ برائی عام آدمی کو سیاست سے دور کرکے پیدا کی گئی ہے اور اس کا علاج بھی عام آدمی کے سیاسی عمل کا حصہ بننے میں ہی ہے۔ فرشتے آئیں گے تومزید گندگی پھیلائیں گے۔۔

Comments are closed.