سرائیکی قومی تحریک اور مہرے والا

ملک سانول رضا

سرائیکی دھرتی پر بیرونی حملہ آوروں نے اتنے ستم ڈھائے ہیں کہ ان کی ہےئت تک مٹتے مٹتے رہ گئی ہے۔ سامراجی طاقتوں نے ان کو اتنے لمبے عرصے تک غلامی کے جبر میں رکھا ہے کہ نیاز مندی ان کی عادتِ ثانیہ بن گئی۔ آریہ سے لے کر یورپی دراندازوں تک ایک طویل داستانی ستم ہے۔

ملتان سے13,320من سونا لوٹنے والا ابن قاسم تو ہمارا ہی ہم مسلک تھا۔ سرائیکی دیس کے باسیوں نے اپنے وطن پر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا اور اپنے دیس کیرکھوالی کا حق ادا کیا۔ سکندر کو زخمی کرنے والے ملتان کے باسی تھے۔ محمود غزنوی کو پنجند پر شکست دینے والے یہاں ہی کے جی دار جاٹ تھے۔ سلطان محمد غوری کو مارنے والے ڈیرہ غازی خان کے کھوکھر تھے۔ سکھوں کا مقابلہ کرنے والا نواب مظفر خان تو کل کی بات ہے۔ انگریزوں کا مقابلہ کرنے والے بجرخان گورچانی اور غلام حسین مشوری سرائیکی دھرتی کے ہی سپوت تھے۔

سرائیکی دیس1818ء میں تخت لہور کا قیدی ہوا اور آزادی کی یہ جنگ1947کے بعد بھی جاری رہی۔ فکری محاذ پر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد بھی سرائیکی شعراء نے اپنے وقت کے فرعون کو للکارا ہے۔ خواجہ فریدؒ کہتے ہیں۔
اپنی نگری آپ وساں توں
پٹ انگریزی تھانے
عزیز شاہد منادی دیتا ہے۔
اساں جھمرپیندے پیووں، جے پئی جھمربن
چھوڑنی پوسی تیکوں، ساڈے سندھ دی من
اسلم جادید کا نوحہ سنیں۔
میں تساں میڈی دھرتی تسی
تسی روہی جئی
میکوں آکھ نہ پنج دریائی
خورشید بخاری کی مایوسی بجا ہے۔
پل پل پیندے تخت انڑاں گے
ساہ ساہ سول ساولے
بھانویں روز نوواں سجھ ابھرے 
ساڈی سیت نہ ساولے
پروفیسر شفقت بزدار للکارتا ہے۔
کھاتے بدلو، کھوتے بدلو، بدلو آتھربورا
رُہ روہی تھل دامان دالیڈربے جرتابے زورا
اور عزیز شاہد آئینہ دکھاتا ہے۔
ساڈیاں نسلاں سنداں چاتے دفتر دفتر رلئن
پرانہاں دی دستک تے مقسوم دے درنہ کھلِئن
پل پل ہے سکرات غضب دی، پل پل عین عذابی
ہرکرسی تے کھورا چہرہ ہر چہرہ پنجابی

ریاست نے اپنی محکوم قوموں پر ستم ڈھانے شروع کیے سرائیکی دیس کے باسیوں نے ساٹھ کی دہائی سے اپنی سیاسی اور ثقافتی جدوجہد کا آغاز شروع کردیا۔
سیاسی بنیادوں پر
سرائیکی صوبہ محاذ، 
سرائیکی صوبہ تحریک،
سرائیکی تھنکرفورم،
پاکستان سرائیکی پارٹی،
سرائیکی نیشنل پارٹی،
سرائیکستان قومی موومنٹ،
سرائیکی انقلابی کونسل،
سرائیکی صوبہ موومنٹ،
سرائیکستان قومی انقلابی پارٹی اور
سرائیکی قومی اتحاد سامنے آئے۔

اور ادبی اور ثقافتی محاذ پر1985ء میں سب سے بڑا کٹھ بنگلہ کورائی محمد پور میں ہواجہاں سچی سانجھ وسیب دی کے نعرے کے ساتھ سرائیکی لوک سانجھ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تاریخی اجلاس میں شریک ہونے والوں میں استاد فداحسین گاڈی (تونسہ) ، مظہر عارف (ملتان)، پروفیسر اکرم میرانی (لیہ)، احسن واہگہ (تونسہ)، کریم نواز کورائی(میزبان) (محمد پور)، زمان جعفری (ملتان)، عاشق بزدار (مہرے والا)، ڈاکٹر اشو لعل (کروڑلعل عیسن)، اسلم رسولپوری (رسول پور)، صوفی تاج گوپانگ (فاضل پور)، سید امتیاز عالم(بہاولپور)، عبدالرؤف لنڈ(جام پور)،حزب اللہ خان (ڈیرہ اسماعیل خان)، بلنداقبال(ڈیرہ اسماعیل خان)، ڈاکٹر ارشد ملک (ڈیرہ غازی خان)، امجد ملک (ملتان)، ملک غلام حسین (کروڑلعل عیسن)، استاد اعجاز(رحیم یار خان)، اعجاز بلوچ (بھکر)، منظور دریشک (راجن پور) نمایاں تھے۔

استاد فداحسین گاڈی کو سرائیکی لوک سانجھ کا پہلا صدر مظہر عارف کو پہلاجنرل سیکرٹیری منتخب کیا گیا۔ اسی تناظر میں اگلے سال پھر لوک سانجھ کااجلاس ہوا پھر عاشق بزدار نے دوسرے سال سے بقول اسماعیل احمدانی سرائیکی آسمان کے سب ستارے مہرے والا کی دھرتی پر اتار لیے اور سرائیکی میلے کی شروعات ہوئیں۔

ویسے صدیوں سے سرائیکی مشاعرے اور موسیقی کے پروگرام ہوتے رہے ہیں مگر مہرے والا کے سرائیکی میلے میں مسلسل24سال سے مشاعرہ، موسیقی، جھمر، مذاکرہ، ڈرامہ کی ایسی شروعات ہوئیں کہ اب سرائیکی میلہ ایک استعارے کے طور پر شعر وادب کا حصہ بن گیا ہے۔
سعید اختر سیال اپنی کتاب وساخ میں کہتا ہے۔
دول مہرے والے وچ وجن
یار شیرن وچ نچن
رفعت عباس اپنی کتاب’’جھومری جھوم ٹریے‘‘ میں کہتے ہیں کہ۔
اِتہاں مہرے والیاں ٹوری اے ہک گال
اُتہاں شہر کروڑ وچ جھمرلئی رفیق
ڈاکٹر اشولعل کہتا ہے۔
ہک جات اومہرے والے دی
پئی قصیاں دے جاگدی اے
سرائیکی میلے میں کم وبیش سارے قوم پرست شاعر اور دانشور شریک ہوچکے ہیں۔حتیٰ کہ موجود سیاسی قیادت بھی اس میلے سے فیض حاصل کرچکی ہے۔ اس میلے میں ہر سال پاس ہونے والی قرادادوں میں سرائیکی صوبے کا قیام اور دیگر مطالبوں میں۔
۔1۔ملتان میں میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹی
۔2۔رحیم یارخان، ڈیرہ غازی خان میں میڈیکل کالج
۔3۔چولستان اور تھل کی زمین مقامی لوگوں میں تقسیم کرنا
۔4۔انٹری ٹیسٹ کا خاتمہ شامل ہے۔ وغیرہ

سرائیکی میلہ سرائیکی قوم پرستوں کے لئے بہت بڑے پلیٹ فارم کے طور پرسامنے آیا۔ یہ سرائیکی قومی شعورہی ہے۔ کہ جس ترکیب کو بلھے شاہ نے فخر سے کہا تھا’’اساں قیدی تخت لہوردے‘‘ سرائیکی قوم نے اس ترکیب کو استحصالی نعرے کی صورت دی۔ سرائیکی میلے میں پہلی دفعہ سرائیکی قومی گیتوں کو مقامی فنکاروں نے گانے کی طرح ڈالی۔
سرائیکی ڈرامے اور جھومرکا احیاء ہوا۔
دوروزہ سرائیکی میلے میں آج تک کوئی مقامی، لسانی، اور فرقہ وارانہ جھگڑا نہیں ہوا یہ لوگوں کے خوبصورت رویوں کی مثال ہے۔اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ سرائیکی دیس کے مسلسل چوبیس سال ہونے والے اس اہم واقعہ سے ابھی تک کونسے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے۔
۔1پہلے چند سال چھوڑ کر سرائیکی میلہ یکسانیت کا شکار ہوگیا۔
۔.2اتنے بڑے پلیٹ فارم کے ذریعے سرائیکی قوم پرستی کو فکری محاذ پر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
۔.3جس طرح حج مسلمانوں کا بہت بڑا سیاسی اکٹھ ہونا چاہیے تھا جسے آہستہ آہستہ بے عمل مسلمانوں نے عبادتی رسم بنادی ہے وہیں سرائیکی میلہ بھی ایک کتھار سس کا ذریعہ بن کے رہ گیا ہے۔
۔.4سرائیکی میلہ سیاسی قوم پرستی کی ایک تحریک میں ایک چنگاری ہے جو ابھی تک شعلہ نہیں بن سکی۔
۔.5سرائیکی میلے میں پڑھی جانے والی شاعری اگلے سال کتابی صورت میں چھپ کر میلے کے سٹال پر موجود ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔
۔.6اس میں پڑھے جانے والے مقالات کو بھی کتابی صورت میں مرتب نہیں کیا گیا۔
۔.7سرائیکی قوم پرستوں کا فریضہ بنتا ہے کہ اسے چھوٹے قصبے سے اٹھاکر ملتان یا ڈیرہ غازی خان جیسے بڑے شہروں میں منعقد کیا جانا چاہیے تھا۔
۔.8ابھی تک سرائیکی میلے کے انتظام کے لیے کوئی باقاعدہ ٹرسٹ سامنے نہیں آیا۔
۔.9اور ابھی تک باقاعدہ میلے کے لئے کسی فنڈنگ کا انتظام بھی نہیں ہوسکا۔ اکیلا عاشق بزدار کب تک سرائیکی میلے کے لئے ہاتھ پھیلاتارہے گا۔
۔.11ہر سال میلے میں اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہے کہ ہم نے ایک سال میں کیا کھویا، کیا پایا۔

سرائیکی قومی تحریک ابھی تک سیاست پر اپنے اثرات مرتب نہیں کرسکی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے دانشوروں کا عملی نہ ہوناہے۔ شاعری لکھتے افسانہ سناتے یاناول مرتب کرتے کرتے لکھاری کی زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب اسے سیاسی فیصلے بھی کرنے ہوتے ہیں کہ اس لمحے کے سیاسی ضمیر کا فیصلہ اس کی پوری لکھت پر بھاری ہوجاتا ہے۔ جب سارتر نے نوبل پرائز اور ٹیگورنے سرکاخطاب واپس کرنے کا اعلان کیا تو ان کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور۔۔۔ آج پھر ایسا وقت آیا ہے ڈاکٹر طاہر تو نسوی اور عاشق بزدار صدارتی ایوارڈ واپس کرکے اپنے دیس کی محبت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔

جب جمشید دستی منظور دریشک کے جلسے میں کہتا ہے کہ سرائیکی صوبہ بنانا ہے تو کم سے کم دولاکھ کا مجمع ڈیرہ غازی کے چوک پر اکٹھا کرو۔ اب یہ سرائیکی دیس کے دانشوروں کا فرض ہے کہ اس جلوس کی قیادت کریں۔شخصی حکومتوں کے حوالداروں اور لانس نائیکوں نے مصنوعی لیڈر بنا کر سرائیکی قوم کی نمائندگی کروائی ہے، اس سے سرائیکی تحریک کو یہ فائدہ ہواکہ نہ صرف نام نہادر ہنما بے نقاب ہوئے ہیں بلکہ ریاست کی عوام دشمنی کھل کرعیاں ہوگی ہے۔

سرائیکی قوم کے شعور کو عوام کے سیاسی شعور کے ذریعے پہچانا جائے گا نہ کہ اتاکوں کے دڈیروں یا بیرکوں کے بیروں سے۔سرائیکی عوام کو یہ بھی شعور ہے اور اس کا بھر پور ادراک بھی رکھتے ہیں کہ سرائیکی صوبہ منزل نہیں ہے۔روف لنڈ اور مجید پتافی چیخ چیخ کرکہہ رہے ہیں کہ تخت لہور کی غلامی سے نجات کے بعد ہمیں ایک اور جنگ اپنے اندر کے ظالم طبقات سے لڑنی ہوگی کیونکہ طبقاتی بنیادوں پر لڑی جانیوالی لڑائی ہی فیصلہ کن جنگ ہوتی ہے۔
**
نومبر2009 کو پہلی دفعہ شائع ہوا

One Comment