ٹرمپ کی فتح اور سوشل میڈیا

15027447_10153855710476949_4454224487345228576_n

ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور امریکی صدر کے منتخب ہونے سے پوری دنیا شاک کا شکار ہوگئی ۔ کوئی یہ توقع ہی نہیں کر رہا تھا کہ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں لیکن تمام تر جائزوں کے باوجود انہونی ہو کر رہ گئی۔ سوشل میڈیا(فیس بک) پر مختلف ردعمل دیکھنے میں آئے ۔

لیاقت علی ایڈووکیٹ نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہمارے میڈیا نے اسلام دشمن اور پاکستان مخالف کے طور پر پیش کیا ۔ میڈیا ہاؤ سز نے ہیلر ی کلنٹن کو اسلام کی خیر خواہ اور مسلمانوں کی حمایتی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔لگتا تھا کہ الیکشن امریکہ میں نہیں پاکستان کی ٹی وی سکرینوں پر ہورہا ہے ۔ وہ پاکستانی امریکن جو امریکہ میں’ شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں‘اجتماعی طورپرہیلری کلنٹن کے کیمپ میں پائے جاتے تھے۔یورپ اور امریکہ میں رہنے والے پاکستانی وہاں کے انسانی حقوق کے قوانین اور احترام انسانیت کے ماحول کو استعمال کرتے ہوئے بنیاد پرستی کو پرموٹ کرتے ہیں ۔ہیلری کی شکل میں بھی وہ اپنے بنیاد پرستانہ ایجنڈے کی کامیابی دیکھ رہے تھے ۔ ہیلری جن جمہوری اقدار کی چمپین ہے مسلمانوں کو ان سے کوئی غرض نہیں وہ تو سمجھتے تھے کہ ہیلری کی کامیابی کی صورت میں اپنے رجعتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے انھیں مواقع میسر آئیں گے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ رہنا امریکہ میں نظام سعودی عرب ۔ اب شائد یہ نہ چل سکے ۔

سماجی ایشوز پر لکھنے والے ارشدمحمود نے لکھا کہ ٹرمپ امریکہ کے مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرسکتا جو سلوک مسلمان اپنے اسلامی ملکوں میں اقلیتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔۔ تہذیب یافتہ مغرب اتنا گھٹیا بن نہیں سکتا۔ٹرمپ کے آنے کے بعد پاکستان کو مزید تنہائی ہی نہیں، بلکہ احتساب اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ٹرمپ نے مہم کے دوران بھارت اور ہندووں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہاران الفاظ میں کیا تھا، انڈین اور ہندو کمیونٹی کو وہائٹ ہاوس میں اپنا سچا دوست ملے گا، میں مودی کے ساتھ مل کرکام کرنے کا انتظار کررہا ہوں۔ بھارتیوں نے بھی ٹرمپ کی محبت میں اب کے بار ٹرمپ سرکارکا سلوگن ٹرمپ کی کمپین کا حصہ بنایا تھا۔

ٹرمپ نے نیوجرسی کے ہندو مندر میں جا کردیوالی کی مبارک باد بھی دی تھی اور دیا بھی جلایا تھا۔ ہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ کو دنیا کے سامنےجھوٹ بولنے اور ڈبل گیم کرنے کی پرانی عادت ہے۔ امریکی اسٹیبلش منٹ ان کی کرتوتوں کو اچھی طرح جان چکی ہے۔ لیکن وہ ڈھلمل کا شکار رہتے تھے۔ جب کہ ٹرمپ منہ توڑ جواب اورردعمل دینے والا بندہ ہے۔ ادھر ہمارے جنرل یہ ثابت کرچکے ہیں، کچھ بھی ہو، وہ بدلنے والے نہیں۔ ورنہ دنیا اور وقت بدلنے کےساتھ یہ بھی اپنی سوچ کو اب تک بدل چکے ہوتے۔ اب ان کو امریکہ، بھارت اور دنیا سے ٹف ٹائم ملے گا۔

پاکستان کے لئے یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہوگی۔ جس کی ساری ذمہ داری ہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ کی تنگ نظر سوچ اور ضد پرہوگی۔ کسی دانشور نے کہا تھا، کہ جنرل اس قابل نہیں ہوتے کہ جنگ کرنے کا فیصلہ ان پرچھوڑا جائے۔۔چہ جائیکہ جنرل ہماری خارجہ پالیسی کے معمار بنائے جائیں۔ خارجہ امور کے معاملات میں ان کو شٹ اپ کال دینی تمام سیاسی قوتوں کا اب فرض ہے۔ تاکہ پاکستان کی اس بڑھتی ہوئی تنہائی پرقابو پایا جاسکے۔

بشری احمد نے لکھا کہ ٹرمپ کے جیتنے سے کم ازکم یہ توقع ہو گئی ہے کہ اب وائٹ ہاوس سے سعودی عرب نکل جائے گا۔

ممتاز صحافی امتیاز عالم نے لکھا کہ  “امریکی انتخابات کے خطرناک نتائج اب امریکی عوام اور ورکر بھگتے گیں کیونکہ ایک خطرناک مسخرا امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا ہے”۔

منیر پرویز لکھتے ہیں کہ ہم نے ریگن کا دور دیکھا، بش کام بلئیر کا(اور بل کلنٹن کا بھی) جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے رستہ بنایا۔ یہ دور بھی گذر جائے گا لیکن اس دفعہ زخم اور نشان زیادہ گہرے ہوں گے۔

کالم نگار آصف جاوید نے لکھاامریکی عوام نے شدت پسندی کے خلاف امریکی اسٹیبلشمنٹ کی منافقانہ پالیسیوں اور اچھے ، برے دہشت گردوں کی تفریق کے خلاف ووٹ دیا ہے ۔ امریکہ کے تمام سابقہ زندہ صدور نے امریکی عوام کو ٹرمپ کو ووٹ دینے سے منع کر کہ ٹرمپ کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ انسانیت دوست امریکی عوام امن عالم چاہتی ہے ، شدت پسندی کا بنا کسی سیاست اور مصلحت کے خاتمہ چاہتی ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر دہشت گردی کو امریکی عوام نے مسترد کر دیا ہے اس امید پر کہ ڈونالڈ ٹرمپ کسی مصلحت کو خاطر میں لائے بنا امن عالم کی جانب مثبت پیش رفت کرتے ہوئے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف راست اقدامات کرے گا ۔ ہیلری کی ناکامی مشرق وسطیٰ خاص طور پر شام ، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی دو عملی پر مبنی پالیسیوں پر امریکی عوام کا عدم اعتماد ہےجو ٹرمپ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ شدت پسندی کے خاتمہ کیلیے شدت پسند تنظیموں کا سہارا نہیں لے گا ۔

کالم نگار مقتدار منصور نے کہا پریشانی کس بات کی؟ امریکا کی ری پبلکن پارٹی شروع ہی سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرست رہی ہے۔ آئزن ہاور ایوب خان کے دوست تهے۔ریگن ضیا الحق پر اعتبار کرتے تهے. بش پرویز مشرف کو اپنا قریبی دوست قرار دیا کرتے تهے۔ اب ٹرمپ کس کی سرپرستی کریں گے؟دوسرا یہ کہ ری پبلکن کے دور میں کوئی نہ کوئی عالمی بحران پیدا ہوا ہے. اس بار کہاں بحران آئے گا؟

پروفیسر مبارک حیدر نے الیکشن سے کافی دن پہلے پیش گوئی کرتے ہوئے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے متعلق لکھا تھا کہ کونسا جرم ہے اگر امریکی پھر ایک قوم بننا چاہتے ہیں اپنی اقدار کے ساتھ، اپنے قوانین کے ساتھ اور اپنی سرحدوں کے ساتھ؟ پسند کرو یا نہ کرو۔۔۔ٹرمپ جیتے گا۔۔۔۔۔

اور آخر میں ٹرمپ کی اس تصویر کا ذکر جو سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہے جس میں ٹرمپ مسلمانوں کو مخاطب ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں میں آپ سے ایسا سلوک نہیں کروں گا جو مسلمان اپنے ملک میں غیر مسلم سے کرتے ہیں میں آپ کو واپس مسلم ملک بھیجوں گا تاکہ آپ شریعت سے مستفید ہو سکیں۔

Comments are closed.