ہم دہشت گردوں کی کمر توڑ دیں گے

واجد بلوچ

250363_23905061

مجھے ہمیشہ کمر درد کی شکایت رہتی ہے۔ہیلو پیتھی سے لیکر ہومیو پیتھی تک سب ٹوٹکے آزمالیے لیکن کبھی استفادہ نہ ہوا۔جب بھی کترینہ کی لچکاتی کمر کو دیکھتا ہو تو رشک محسوس ہوتا ہے کہ کم بخت کتنی شائستگی کے ساتھ اپنی کمر سے کھیل سکتی ہے۔دوسری طرف ایک ہم ہیں جو سیدھی کمر کے ساتھ شانتی کے ساتھ سو نہیں سکتے۔یاد رہے کہ شانتی میری پہلی محبوبہ کا نام ہے۔جی تو میں عرض کر رہا تھا کہ اس کمر کا آخر کیا کیا جائے۔

اسی سوچ اور جستجو میں، میں نے دنیا بھر کی ریسرچ کی اور کچھ ایسے ا داروں کے حوالے سے مواد اکٹھا کرنا شروع کیا جو ٹوٹی ہوئی کمر کو باآسانی بنا کسی بارقی رقم کے جوڑنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان اداروں میں ’’داعش کمر مینوفیکچرنگ لمیٹد‘‘،القائدہ کمرالحبیبی، تحریکِ طالبان بیک بون پاکستان اور ’’لشکر جھنگوی کمر ایسوسیشن العالمی‘‘ قابل الذکر ہیں۔ جبکہ جماعت ادعوہ الکمریہ ان تمام بڑی کمپنیوں کے لیے پبلک ریلیشز کا کام سر انجام دیتا ہے۔

ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایسے مریض موجود ہیں جن کی کمر کو دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوج اوردنیا کی نمبر ون ایجنسی باہمی آپریشن کے ذریعے کافی بار توڑچکی ہے۔لیکن انکے پاس موجود دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی فارمولے کی برکت سے وہ تمام مریض دس پندرہ دن کی مدت میں شفایاب ہوکر پاکستان کی سڑکوں،مسجدوں،پولیس چوکیوں اور مندروں میں رام کی لیلا اور لیلا کا رام کرنے کے لیے دوبارہ آجاتے ہیں ۔آپ یقین نہیں آتا ؟ رام رام ! تو آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔

نہیں جی رکھیے ایک منٹ!

تاریخ سے مراد پاکستان کی نصابی کتابوں میں موجود محمدبن قاسم اورغزنوی کے قصوں کو نہیں بلکہ پچھلے دس سال میں دہشت گردی کے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لینا مقصود تھا۔

اچھا جی آپ پاکستانی ہیں!۔ 

یقیناََ آپکا حالات حاضرہ اتنا مضبوط نہیں ہوگا۔ چلیں آپ کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا واقعہ تو یاد ہوگا؟ ہاں۔۔ہاں۔۔ بالکل وہی واقعہ! جس میں ایک سو اڑتالیس بچوں کو شہید کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ہماری عسکری اور سیاسی مشینیں چلنا شروع ہوگئی تھی۔ ملک بھر میں ایک ضربِ عضب نامی آپریشن کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ شہداؤں کے لیے بہت سے گانے تیار کیے گئے تھے تاکہ اس جذباتی قوم کو مزید جذباتی کیا جائے۔ اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو ایمانداری سے بتائیں اس واقعے سے لیکر واقعات در واقعات تک کتنی بار ان دہشتگردوں کی کمر توڑی گئی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ انکی کمر کو موچ بھی آئے۔

ابھی چند ماہ پہلے ہی کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ان کی کمر کی بھر پور نمائش ہوئی۔ جس میں ۷۰ لوگ جان سے ہاتھ دو بیٹھے۔ ابھی کچھ دن پہلے کی ہی بات کے کوئٹہ سے چند منٹ کی دوری پر ایک پولیس ٹریننگ سینٹر پر لشکرِ جھنگوی نے اپنے کچھ بیلی ڈانسرز کو بھیج کر باسٹھ نوجوانوں کو شہید کردیا۔ جن کی لاشیں ویگنوں کی چھت پر لاد کر لواحقین کے حوالے کی گئی۔ کیونکہ صوبائی حکومت کے پاس ہیلی کاپٹر موجود نہیں تھے۔ ہاں ویسے بھی ہیلی کاپٹڑ کا کرنا کیا ہے۔ ہمارے پاس سی۔پیک جوہے۔ بس ایک پیک لگاؤ اور سوجاؤ۔

میری آنکھوں کے سامنے اچانک ثنااللہ زہری صاحب کی معصوم صورت آگئی تھی تو موضوع سے بھٹکنے کے لیے معافی چاہتا ہوں۔

جی تو کوئٹہ میں بیلی ڈانس کی نمائش نے مجھ پہ کافی گہرا اثر ڈالا۔ میں اس حادثے کے بعد روز شمشاد کے یہاں (جو میرا لنگوٹیا ہے) جاتا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہوں ۔ ابھی پرسوں کی بات ہے کہ میں نے شمشاد سے کہا کہ میاں یہ جو ہماری نمبر ون ایجنسی ہے جس نے سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوادیے تھے انھیں کیا ان کمر جوڑ کمپنیوں کی خبر نہیں ملتی۔ شمشاد نے آہستہ سے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔یہ بڑے باخبر لوگ ہیں۔۔۔انھیں تو بلوچستان میں حاملہ عورت کے پیٹ میں بچے تک کی خبر ہوتی ہے کہ مذکرہے ۔۔۔یا مونث۔۔۔یو نو! فل الٹراساونڈ سسٹم۔

اس کی سرگوشی ختم ہوئی تو میں نے پوچھا کہ بھائی پھر یہ دہشت گردی کے واقعات رکتے کیوں نہیں۔ یہ کوئٹہ میں اسکولوں سے زیادہ ایف سی چوکیاں جو موجود ہیں۔ کیا انھیں خبر نہیں پڑتی۔ کیا یہ ہے تمھاری انٹیلی جنس۔ شمشاد نے سگریٹ سلگائی اور کش لیتے ہوئے بڑے دھیمی آواز میں کہا۔ بلوچ بھائی۔ نیشنل انٹرسٹ! نیشنل انٹرسٹ! میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سامنے ہوٹل کے ٹی وی پر خبر چلی کے شاہ نورانی کے مزار پر خود کش دھماکہ سے بیالیس افراد جاں بحق ہوگئے اور لاتعداد زخمی۔

اتنے میں وزیروں اور منشیوں کے بیانات کی پھٹی چلنا شروع ہوئی کہ ہم ڈرتے ورتے نہیں۔۔۔۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دیں گے۔۔۔میں نے غصے سے شمشاد کی طرف دیکھا۔ اس نے سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ بھائی۔۔۔۔ فوجی سیمنٹ فوجی سیمنٹ۔ 

One Comment