پاکستان  کا مستقبل ، روشن خیال کیا کہتے ہیں؟

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

قارئین اکرام ، چونکہ ہماری توجّہ  کا زیادہ تر مرکز و محور پاکستان کے حالات  میں مثبت تبدیلیوں کی شدید خواہش ، اور پاکستان کو ایک روشن خیال،  مضبوط ، ترقّی یافتہ ،جمہوری ملک کے طور پر دیکھنے کا خواب شامل رہتا  ہے۔   لہذا ہمیں  ایسی تمام کوششوں سے ایک روحانی ربط اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے جو ملک کی سلامتی، خوشحالی اور حالات میں مثبت تبدیلیوں کے لئے کی جاتی ہیں۔

اس سلسلے میں تازہ ترین کوشش ابھی چند دن قبل  درد مند روشن خیال  پاکستانیوں کی  تنظیم ساتھ فورمکی جانب سے لندن ، انگلینڈ میں ایک کانفرنس  کا انعقاد تھا، جو  پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مشہور  دانشور،  اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر ، پروفیسر ڈاکٹر حسین حقّانی کی کوششوں سے    سے 28 سے 30 اکتوبر   تک تین دن مسلسل  منعقد کی گئی ۔

اِس کانفرنس میں پاکستان اور پاکستان سے باہر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ، دردمند روشن خیال  پاکستانی محبِّ وطن دانشور، لکھاری، صحافی اور انسانی حقوق اور  سماجی خدمت کے  عمل پرست اپنی اپنی  آراء اور تجاویزات کے ساتھ شامل ہوئے۔  اور  پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اپنی اپنی تجاویز سے ایک  متبادل بیانیہ مرتّب کیا ۔

ساتھ فورمدر اصل مخفّف ہے، ساوتھ ایشئین فورم برائے انسانی حقوق و انسدادِ دہشت گردی، اور اس فورم کے سربراہ جناب حسین حقّانی ہیں۔ جو بین القوامی سطح پر امورخارجہ اور بین الاقوامی تعلّقات کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ امریکی جامعات میں درس و تدریس اور تحقیقی  کام انجام دیتے ہیں۔ حسین حقّانی ایک درد مند پاکستانی اور روشن خیال  مدبّر ہیں۔ پاکستان کے حالات پر ان کا دل ویسے ہی کڑھتا ہے جیسے ہر درد مند پاکستانی کا دل کڑھتا ہے۔

حسین حقّانی نے اس کانفرنس کےانعقاد کے  بارے میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ  بد قسمتی سے پاکستان ایک ایسے مخصوص بیانئے کا شکار رہا ہے جس کا مکمّل فوکس بھارت دشمنی پر قائم ہے۔ اور اس بیانئے کے مطابق پاکستان میں صرف اور صرف افواجِ پاکستان ہی وہ ادارہ ہے جو پاکستان کے بقاء کی ضمانت ہے۔

بدقسمتی سے سوِل سوسائٹی حالتِ مراقبہ میں ہے اور سیاسی جماعتیں کمزور پرچکی ہیں۔ اور نتیجے میں سیاسی، سماجی،  اور معاشی انڈیکیٹرز کے حساب سے پاکستان ترقّیِ معکوس کی راہ پر چل کر اقوامِ عالم میں بہت پیچھے جاچکا ہے۔   ہم پاکستان کو ایک پلورل، لبرل اور ترقّی پسند سوسائٹی بنانا چاہتے ہیں۔

مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ریاست کی جانب سے طے گئے گئے بیانئے سے ہٹ کر سوچنے، سمجھنے، اور بات کرنے والے لوگوں کی ہر طرف سے زباں بندی کی جاتی ہے۔ انہیں ڈرایا دھمکایا اور چپ کرایا جاتا ہے۔ روشن خیالی  اورترقّی پسندی کی باتیں کرنے والوں کو اسلامی انتہا پسند جان سے مار دیتے ہیں۔ توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، انڈیا سے تجارت اور دنیا سے بہتر تعلّقات کی باتیں کرنے والوں کو انڈیا اور را کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں روشن خیالی اور ترقّی پسندی کے پرچار کی گنجائش بہت محدود ہے۔ مگر جو درد مند پاکستانی، پاکستان سے باہر موجود ہیں ، ان کے پاس اس سلسلے میں جدوجہد کرنے کے زیادہ مواقع موجود ہیں۔  پاکستان سے باہر رہ کر ہم پاکستان کے بارے میں زیادہ کھل کر بات چیت کر سکتے ہیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر پاکستان کے بارے میں زیادہ بہتر تحقیق کر سکتے ہیں۔ اور اُن حقائق کو سامنے لاسکتے ہیں جن کو ریاست اور اسٹیبلشمنٹ توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے۔ اور جن پر پبلک میں بات کرنا شجرِ ممنوعہ ہے۔

ہماری اس کانفرنس کا مقصد  ایسے تمام افراد اور ان تمام آوازوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا  ہے جو پاکستان میں ہم آہنگی،  پلورل ازم ، روشن خیالی  اور ترقّی پسند سوسائٹی کے فروغ میں کوشاں ہیں۔ ہم ان سب کو ایک صفحے اور ایک پلیٹ فارم پر لا کر ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ایک موثّر آواز بن کر پاکستان کی بھلائی  ، خوشحالی اور ترقّی کے لئے کوششیں کریں۔  ہماری اس کانفرنس میں بہت سی ایسی شخصیات شامل ہیں ،جن کا اپنا وِزن  (مطمعِ نظر)موجودہ پاکستان کے ریاستی وِیژن سے بہت مختلف ہے۔ ایسی آوازوں کو سننا اور ان کی تجاویزات پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ 

کانفرنس کے دیگر شرکاء کی آرا ء کا لبِّ لباب  یہ رہا کہ پاکستان اس وقت ایک بہت بڑے بحران سے گذر رہا ہے اور ہم خیال ، روشن خیال ، ترقّی پسند پاکستانیوں کا ایک پلیٹ فارم پر مل کر بیٹھنا اور ہم آواز ہوکر ریاستی بیانئے کے مقابلے میں روشن خیال ، ترقّی پسند بیانئے کا قیام پاکستان کی بقا اور فلاح کے لئے نہایت ضروری ہے۔  پاکستان میں ہر طرح کی ڈیموکریٹک اور لبرل آواز کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ پاکستان میں میڈیا بھی آزاد نہیں ہے۔ پاکستانی میڈیا ریاستی بیانئے اور ریاستی مزاج کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا۔

  آئی ایس پی آر کی  غیر اعلانیہ مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی میڈیا ہاوس اپنے پروگرام  میں ریاستی ایجنڈے اور بیانئے سے انحراف کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج مسخ ہوچکا ہے۔ اب پاکستان کو ایک  ڈیموکریٹک اسٹیٹ کی بجائے تھیوکریٹک اور ملٹری اسٹیٹ  کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ پاکستان جو خود ووٹ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اب وہاں ووٹ کی بجائے بوٹ کا راج ہے۔  عوامی نمائندے ، نان اسٹیٹ ایکٹرز،  کے سامنے بے بس ہیں۔ 

کانفرنس میں 100 سے زیادہ دانشوروں نے شرکت کی جن میں نمایاں نام ڈاکٹر محمّد تقی، ڈاکٹر عائشہ صدّیقہ، طاہر اسلم گورا، بیرسٹر باشانی،  ڈاکٹر فرحت تاج، اریب اظہر،  راشد رحمان،  عارف جمال،  خالد حمید فاروقی،  ڈاکٹرانیس ہارون،  بابر ایاز، ثقلین امام،  ماروی سرمد، شاہجہان بلوچ،  فرحین رضوی، صوفی لغاری، مرتضیسولنگی کے ہیں۔  

قارئین اکرام ہم امید کرتے ہیں کہ روشن خیال دانشوروں کی یہ کوشش کسی بڑی تبدیلی اور فلاح کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، اور  عوامی بیانیہ ، ایک نہ ایک دن ریاستی بیانئے کو شکستِ فاش دے  کر  روشن پاکستان کی شکل میں ظہور پذیر ہوگا۔

Comments are closed.