کون جیتا، کون ہارا؟ 

asaf-jilani-268x300

آصف جیلانی 

پاناما لیکس کے بارے میں تحقیقات کے لئے ، ٹرمز آف ریفرنس طے ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کاجو فیصلہ کیا ہے اس کے فورا بعد، تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے ، اسلام آباد بند کرنے کا فیصلہ ترک کرنے ، اور جشن اور یوم تشکر منانے کا جو اعلان کیا ہے اس پر عام طور پر لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کون جیتااور کون ہارا؟

یہ سوال اس وجہ سے بھی نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے کہ خود عمران خان نے اسلام آباد بند کرنے کو ایک اہم میچ قرار دیا تھا اور انہوں نے اپنے کارکنوں کو کھلاڑی قرار دیا تھا اور اپنی مخالف ٹیم کا بھی اعلان کردیا تھا ، نواز شریف کپتان اور ان کی ٹیم میں زرداری، مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی خان شامل کئے تھے۔ بلا شبہ سیاسی معرکہ آرائی کو یوں کرکٹ کا میچ قرار دینا نہایت غیر سنجیدہ عمل تھا اور اسی بنیاد پر یہ سوال کہ کون جیتا کون ہارا، اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ 

ایک بات جو ملک کے سنجیدہ لوگ شدت سے محسوس کرتے ہیں وہ یہ کہ جب سے دھرنوں اور دار الحکومت پر چڑھائی کی تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، ملک کی سیاست میں عدم برداشت اور ایک دوسرے پر نہ صرف سنگین الزامات کی کیچڑ اچھالنے ، بلکہ گالم گلوچ کی افسوس ناک روایت پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔ وہ دن ہماری سیاست سے معدوم ہو تے نظر آتے ہیں جب ، سخت اختلافات کے باوجود سیاست دان،آپس میں نہایت مہذب انداز سے مکالمہ کرتے تھے اور تہذیب کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک ، عمران خان کے ان بلند بانگ دعووں کے بعد کہ وہ دس لاکھ افراد کا طوفان لے کر دار الحکومت میں داخل ہوں گے اور حکومت کو یکسر مفلوج بنا دیں گے اور پچھلے کئی دنوں سے بنی گالا کے نیچے کارکنوں اور پولیس کی جھڑپوں اور خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں ایک لشکر کی اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کے پیش نظر ، اچانک اسلام آباد بندکرنے کا فیصلہ، ترک کرنے کا اقدام، عمران خان کی شکست ہے جسے وہ اپنی جیت قرار دے کر یوم تشکر منانے کا اعلان کر رہے ہیں۔

عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اپنی شادمانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مطالبہ کے مطابق سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف کی ’’تلاشی‘‘ شروع ہوگئی ہے۔لغت میں احتساب کے لئے ’’تلاشی‘کی اصطلاح ایک نہایت بھونڈی اصطلاح ہے۔ یہ عمران خان کی عجیب و غریب منطق ہے ۔ ابھی سپریم کورٹ میں ، حکومت اور حزب مخالف نے اپنے ٹرمس آف ریفرنس پیش نہیں کئے اور نہ سپریم کورٹ نے ان پر اتفاق کیا ہے اور نہ کوئی کمیشن قائم ہوا ہے ، اسے ’’تلاشی ‘‘ کا عمل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ سراسر اپنے کارکنوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا ہے اور ملک کے عوام کو بھی گمراہ کرنا ہے۔ 

سوال یہ کیا جارہا ہے کہ عمران خان نے اچانک دھرنا ختم کر کے جشن منانے اور یوم تشکر منانے کا کیوں اعلان کیا؟ یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے یہ محسوس کیا کہ وہ کامیاب دھرنے اور اسلام آباد کو بند کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پچاس ہزار افراد بھی اسلام آباد پہنچ جاتے تو عمران خان دھرنے کے بجائے جشن کا اعلان نہ کرتے۔ دوسرے ، پہلے دھرنے میں ان کے ساتھی ، ڈاکٹر طاہر القادری بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ تن تنہا رہ گئے تھے۔ پھر انہوں نے یہ دیکھا کہ انتظامیہ کسی صورت میں بھی ان کے دھرنے اور اسلام آباد بند کرانے کی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دے گی اور انہوں نے راست ٹکر لی تو بڑے پیمانہ پر خون خرابہ ہونے کا خطرہ ہے۔

عمران خان کا یوم تشکر منانے کا جواز اس لحاظ سے حق بجانب ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے نتیجہ میں تحریک انصاف خفت سے بچ گئی اور خون خرابہ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔عمران خان کا جشن قدرے قبل از وقت نظر آتا ہے کیونکہ جس کو یہ وزیر اعظم کی ’’تلاشی‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ محض ان کی خوش فہمی ہے۔ ابھی پاناما لیکس کی تحقیقات اور اس مسئلہ کے حل کے لئے ،بہت طویل سفر ہے۔ ظاہر ہے سپریم کورٹ جو بھی کمیشن قائم کرے گی وہ خود مالی معاملات کے بارے میں تفصیلات جمع نہیں کر سکے گا اور خود تفتیش نہیں کر پائے گا اور لا محالہ اسے اس مقصد کے لئے کسی ادارے کو تعینات کرنا ہوگا۔

یہ سرکاری ادارہ یہ تفتیشی عمل کتنی جلد مکمل کر سکے گا اس کے بارے اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ وہ کمیشن سے پورا تعاون کریں گے اور جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوگا اسے قبول کریں گے ، لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے حکومت ہی کے ذریعہ بیرونی ممالک کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے گا۔ بہت سے لوگوں کو خطرہ ہے کہ اس عمل میں کہیں پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر اعظم گیلانی کے سوئس بنک کو خط نہ لکھنے کے کیس کی طرح ایک طویل تعطل پیدا نہ ہو جائے۔
پھر جب مرحلہ ، پاناما کی حکومت سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے آف شور بنک اکاونٹس کی تفصیلات معلوم کی جائیں گی تو پاناما کی حکومت اس سلسلہ میں اپنی بے بسی کا اظہار کر سکتی ہے کیونکہ لاء فرم موساک فونسیکا کے پاس یہ آف شور اکاونٹس ہیں جو صرف پاناما میں ہی نہیں بلکہ اس کے دنیا کے 35ممالک میں خفیہ اکاونٹس ہیں جن میں نیوادا ، ہانگ کانگ اور برٹش ورجن آئی لینڈس شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے کمیشن کو ان تمام 35ممالک کی حکومتوں سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے اکاونٹس کے بارے میں اور اگر اس کے دائرہ کار میں دوسرے پاکستاینوں کے خفیہ اکاونٹس کی تحقیقات بھی شامل ہوئی توان کے بارے میں بھی تفصیلات کے حصول میں ایک خاصا طویل عرصہ لگے گا۔

اس وقت پاناما اور پاکستان کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت حکومت پاکستان خفیہ اکاونٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔ وہ لوگ جن کا یہ خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے آف شور اکاونٹس کے بارے میں ساری تفصیلات اگلے عام انتخابات سے پہلے منظر عام پر آجائیں گی ، وہ بلا شبہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔

Comments are closed.