ذاکر نائیک کی تنظیم پر پانچ برس کی پابندی

54f4544f88c6e

ذاکر نائیک کے مطابق صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے جبکہ دوسرے تمام مذاہب جھوٹے ہیں لہذا ان کو ختم ہوجانا چاہیے۔ ان کے مطابق اسلام میں لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں اور بقول ان کے بائیل میں پورنو گرافی کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ سوچ صرف ذاکر نائیک ہی کی نہیں بلکہ تمام اسلامی فرقے اسی قسم کی سوچ رکھتے ہیں۔


بھارتی حکومت نے متنازعہ مذہبی شخصیت ذاکر نائیک کی غیر سرکاری تنظیم ’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘ پر ایک ’غیر قانونی ادارے‘ کی حیثیت سے پانچ سال تک کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس ادارے پر پابندی کی منظوری کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق ’غیر قانونی ادارہ‘ اور ایک ’دہشت گرد ادارے‘ کی تعریف میں فرق ہے۔ ’غیر قانونی ادارے‘ سے معاشرے کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس پابندی کے بعد اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن یا آئی آر ایف کے ملک بھر میں قائم دفاتر بند کر دیے جائیں گے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ذاکر نائیک اور ان کی اس غیر سرکاری تنظیم کے کارکنان کے خلاف کئی ایف آئی آر پہلے سے ہی درج ہیں۔ بھارتی انٹیلیجنس بیورو نے ذاکر نائیک کی کئی تقاریر کی فہرست مرتب کی ہے جن میں وہ اسامہ بن لادن کی تعریف کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنی تقاریر میں کہا تھا کہ اگر اسامہ بن لادن دہشت گرد ہیں تو پھر تمام مسلمانوں کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔انہوں نے اکثر اپنی تقاریر میں جہاد کی تعریف کرتے ہوئے نوجوانوں کو غیر مسلموں کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہ بھی کہا کہ اسی فیصد بھارتی شہری ہندو مذہب کے پیروکار نہ ہوتے اگر مسلمان خود کش حملوں اور تلوار کے زور پر انہیں اسلام قبول کرواتے۔

ذاکر نائیک نے اپنی تقاریر میں ہندوؤں کے دیوتاؤں کے بارے میں بھی قابل اعتراض کلمات ادا کیے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر خطبات ’پیس ٹی وی‘ کے ذریعے نشر کیے جا چکے ہیں۔ پیس ٹی وی کا کافی مواد ہارمنی میڈیا پرائیویٹ لمٹیڈ کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ ذاکر نائیک کی اہلیہ اور وہ خود اس ادارے کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔

ذاکر نائیک کے خلاف تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ڈھاکہ میں دہشت گردانہ حملے میں ملوث روہن امتیاز نے ذاکر نائیک کا نام استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا تھا کہ وہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں قائم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل سے بڑی مالیت کی رقوم ہارمونی میڈیا کو بھجوائی گئی تھیں۔ بھارتی کابینہ کے مطابق اگر فوری طور پر آئی آر ایف پر پابندی عائد نہیں کی جاتی تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ بھارت کی نوجوان نسل شدت پسندی کی طرف مائل ہوسکتی ہے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ذاکر نائیک بھارتی انٹیلجنس ایجنسیوں کی نظر میں تب آئے جب بنگلہ دیش کے ایک اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ اس برس یکم جولائی کو ڈھاکہ میں دہشت گردانہ حملے میں ملوث روہن امتیاز نے ذاکر نائیک کا نام استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پروپیگینڈا کیا تھا۔

ذاکر نائیک پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں برطانیہ، کینیڈا اور ملائیشیا میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

ذاکر نائیک پر جب پہلی دفعہ الزامات لگے تو وہ ملک سے باہر چلے گئے اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت وہ سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ پچھلے ماہ اکتوبر میں ان کے والد ڈاکٹر عبدالکریم نائیک کا انتقال ہوگیا تھا ۔ لیکن ذاکر نائیک گرفتاری کے ڈر سے اپنے والد کے جنازے میں شریک نہ ہوئے۔

ذاکر نائیک کو 2015 میں اسلام کی خدمت کرنے پر دو لاکھ ڈالر کی مالیت کے کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے انعامی رقم پیس ٹی وی کو دینے کااعلان بھی کیا تھا۔ انہوں نے نائن الیون حملوں کے متعلق کہا تھا کہ یہ امریکہ کی ایسٹیبلشمنٹ نے ہی کرائے تھے۔

DW/TOI/News Desk

One Comment