چین۔پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اور انڈیا

ایمل خٹک

ان سطور میں یہ بات کئی دفعہ کی گئی ہے کہ چین۔پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ( سی پیک ) ایک گرینڈ پلان کا حصہ ہے اور آگے جا کر اس میں بھارت سمیت علاقے کے دیگر ممالک بھی شامل کئے جائینگے ۔ کیونکہ چین کی سٹرٹیجک سوچ ایک عسکری سے زیادہ ایک بنئے کی یعنی کاروباری سوچ ہے۔  چین کے پالیسی سازوں کیلئے سی پیک ایک دو فریقی منصوبہ نہیں بلکہ ایک کثیرالفریقی طویل المدت منصوبہ ہے۔ جس میں وہ افغانستان ، ایران ، انڈیا اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ 

ایک اہم پاکستانی فوجی جنرل کی جانب سے انڈیا کو سی پیک منصوبوں میں شرکت کی دعوت سے علاقے میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ گزشتہ دنوں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹنٹ جنرل امیر ریاض نے کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت دشمنی چھوڑ کر افغانستان ، ایران اور سینٹرل ایشیا کی ممالک کے ساتھ مل کر سی پیک سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ا نہوں نے کہا کہ سی پیک کے چرچے ساری دنیا میں ہو رہے ہیں اور اس منصوبے سے بلوچستان سمیت پورا ملک ترقی کرئیگا ۔ 

کسی فوجی حلقے کی طرف سے یہ بیان انتہائی اہم ہے کیونکہ پاکستان میں بھارت کے ساتھ دوستی میں سب سے بڑی رکاوٹ فوج  کو سمجھا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک کئی مواقعوں پر سیاسی قائدین کی جانب سے بھارت سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کو فوج نے ویٹو کیا ہے۔ فوج کا بھارت کے حوالے سے موقف بڑا جارحانہ اور غیر لچکدار رہا ہے۔ سدرن کمانڈر کا یہ بیان ادارہ جاتی سوچ میں نئے رحجانات اور اندرونی سوچ و بچار میں تبدیل کی غمازی کر رہا ہے ۔ گو کہ یہ تبدیلی ابھی بہت ہی ابتدائی نوعیت کی ہے مگر خوش آئند ہے۔

انڈیا کی سی پیک منصوبوں میں شرکت کی بحث ابھی تک پالیسی مباحث میں اور وہ بھی بڑے بڑے بند دروازوں کے پیچھے ہو رہی تھی ۔ اگر کھلے عام کوئی بحث تھی بھی تو وہ یہ تھی کہ انڈیا سی پیک کا مخالف ہے اور بلوچستان میں سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے مداخلت کر رہا ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز اور ریاستی دانشوروں کا سارا زور اسی نکتے پر رہا کہ انڈیا پاکستان کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا جبکہ امریکہ بھی چین کو لگام ڈالنے کیلے اس منصوبے کو ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے دونوں ممالک مل کر اس کی مخالف ہیں اور اس کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں ۔  

ہو سکتا ہے ایسا ہو بھی مگر جو نکتہ وہ انڈیا کے ساتھ اپنی روایتی دشمنی کی وجہ سے دیکھنے سے قاصر تھے وہ یہ تھا کہ انڈیا بھی معاشی مفادات کے حصول کیلئے سی پیک منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے انڈیا کی مخالفت کا اہم نکتہ اس منصوبے کا متنازعہ علاقوں میں سے گزرنا ہے۔ دوسری طرف انڈیا کی سنجیدہ پالیسی ساز حلقوں میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ پاکستان میں ترقی کے عمل سے عسکریت پسندی کمزور پڑئیگی۔ جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انڈیا پر پڑے گا۔ 

اگرچہ پاکستان میں فوجی جنرل کی جانب سے خارجہ نوعیت کے اس اہم ایشو پر بیان پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے کسی پیشہ ور افسر کی جانب سے خارجہ پالیسی سے متعلق بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔  جبکہ اسٹبلشمنٹ کے حامی کچھ حلقوں کو انڈیا کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت ہضم نہیں ہو رہی ۔  

مگر چین کے سرکاری حلقوں میں اس بیان کو کافی پذیرائی مل رہی ہے اور چین کے ایک سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں ایک دن میں دو مضامین چھپے ہیں ۔ جس میں اس تجویز کو سراہا گیا ہے ۔ چین کے پالیسی سازوں کی انڈیا کے رسمی موقف کو سننے کیلئے بے چینی اور بے صبری نمایاں ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کی سی پیک میں شرکت کے حوالے سے ان کی کھلی پالیسی ہے۔

 دوسرے الفاظ میں چین کو انڈیا کی شرکت پر کوئی اعتراض نہیں ۔ چین کی ترجمان نے کہا کہ منصوبے میں کسی بھی تیسرے فریق کی شرکت کا فیصلہ پاکستان سے مشاورت کے بعد کیا جائیگا۔ ترجمان نے کہا کہ ان کو نہیں لگتا کہ انڈیا پاکستانی آرمی جنرل کی اس پیشکش کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر لے گا ۔  

اخبار نے لکھا ہے کہ حیرانگی یا حیرت کو ایک طرف رکھ کر انڈیا کو اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ اخبار نے ساتھ میں انڈیا کو خبردار بھی کیا ہے کہ اگر اس نے پاکستان کی اس کھلے پن کا بروقت جواب نہ دیا تو مخالف سوچ دوبارہ حاوی ہو سکتی ہے اور یہ موقع ضائع بھی ہوسکتا ہے ۔ اخبار کے مطابق سی پیک منصوبے میں شرکت سے انڈیا چین کے ساتھ اپنے تجارتی خسارے کو نئےتجارتی راستوں سے برآمدات بڑھا کر کم کر سکتا ہے ۔مزید برآں یہ کہ سی پیک میں شرکت سے پاکستان کی سرحد پر واقع انڈیا کے شمالی علاقوں اور مقبوضہ کشمیر کو بیشمار معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔   

  اخبار نے لکھا ہے کہ چین سی پیک کے ذریعے پاک ۔انڈیا تنازعہ میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ بلکہ اس منصوبے میں انڈیا کی شمولیت پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور دونوں ہمسایہ ممالک یعنی پاکستان اور انڈیا میں دوستانہ ربط و تعلق بڑھنے سے اسے خوشی حاصل ہوگی ۔ اور باہمی مفادات پر مبنی معاشی تعلقات کے قیام سے کشیدگی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ 

جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو وہاں اس بیان پر حیرانگی اور شک و شبہے کا اظہار ہو رہا ہے ۔ اور سرکاری سطح پر ابھی تک حکومتی موقف سامنے نہیں آیا۔ لگتا ہے کہ بیان کے سیاق و سباق کا گہرا مطالعہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں موجود شدید بدگمانیوں اور شکوک و شبہات کو دیکھ کر ایک بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ عموماً ایسی پیشکشوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور کوئی نئی سازش سمجھا جاتا ہے۔ 

ماضی میں امریکہ سمیت کئی دوست ممالک کا پاکستان پر انڈیا سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے دباؤ رہا ہے ۔ سیاسی قیادت علاقے میں امن اور استحکام کیلئے انڈیا سمیت تمام ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہاں ہے۔ مگر اسٹبلشمنٹ اور اس کی بی ٹیم کہلائے جانے والی پارٹیاں یا اس کی پروردہ عسکری تنظیمیں انڈیا سے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ اپنی اس بی ٹیم کو حکومت پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کے زریعے ریلیاں اور مظاہروں کا انعقاد کرواکر اور مصنوعی طریقے سے مخاصمانہ اندرونی رائے عامہ بنا کر بیرونی دباؤ کو بھی کاؤنٹر کرنے کیلئے استعمال کرتی رہی ہے۔

اب چین بھی غیر محسوس یا اپنے انداز سے دباؤ ڈال رہا ہے ۔ چین جس تیزی سے پاکستان میں سرایت کر رہا ہے اور پاکستان کا چین پر کئی حوالوں سے انحصار بڑھ رہا ہے ۔ آگے جا کر بہت سے سٹرٹیجک معاملات میں پاکستان کیلئے چین کو ناراض کرنا مشکل ہوتا جائیگا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق چین اپنے مفادات کو پروان چڑھانے میں امریکہ سے زیادہ خطرناک ہے۔ اور مطلب براری کےان کو کافی گرُ آتے ہیں۔ 

دوسری طرف پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے موجود اندرونی اختلاف ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور اس حوالے سے چینی حکام کی فرسٹریشن قابل دید ہے ۔ چین کی حکومت نے پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں سے روابط بڑھالیے ہیں ۔ نہ صرف پاکستان میں متعین چینی سفارتکار نے سی پیک کے حوالے سے رابطے اور ملاقاتیں بڑھائی ہیں بلکہ سیاسی اور سماجی حلقوں کی مختلف بہانوں سے چین میں آمد و رفت بڑھ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ چین کے سفارتکار کے اسلام آباد میں حالیہ اظہارات بھی اہم ہیں ۔ 

چین سی پیک کے حوالے سے کئی معاملات کو اپنے ہاتھ لے رہا ہے۔ سی پیک کی چھٹے جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی ( جے سی سی ) کا ایک اہم اجلاس29 دسمبر کو بیجنگ میں ہو رہا ہے۔ جس میں پنجاب، سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلی اور درجن بھر اعلی حکام شرکت کریں گے۔ جے سی سی میں پہلی دفعہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں اور علاقوں کے نمائندوں کو شرکت کا موقع مل رہا ہے۔ اجلاس میں سی پیک منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ نئے منصوبوں کو حتمی شکل دی جائیگی۔ 

وفاقی حکومت کی پنجاب مرکز پالیسیوں کی وجہ سے خاص کر سی پیک کے حوالے سے اب اس منصوبے کو چین۔پنجاب اقتصادی راہداری منصوبہ کہا جاتا ہے۔  وزیراعظم میاں نواز شریف سیاسی قیادت سے مغربی روٹ کے حوالے سے بار بار وعدوں کے باوجود اقتصادی راہداری کے حوالے سے چھوٹے صوبوں مثلا ًخیبر پختونخوا اور بلوچستان کے تحفظات اور خدشات دور کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ بیجنگ کانفرنس سے پہلے حالیہ جے سی سی کی تیاریوں کے سلسلے میں پلاننگ کمیشن کا اجلاس اگر ایک طرف شرمندگی سے بچنے کا طریقہ تو دوسری طرف یہ تاثر دینا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے تمام داخلی شراکت دار آن بورڈ ہیں۔ 

منصوبے کے بنیادی خدوخال طے ہونے کے بعد اب اندرونی اور بیرونی دباؤ کے تحت پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں اور کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو مشاورت کیلئے بلایا جانے لگا۔ وفاقی حکومت نے صوبے سے دو دو صنعتی زون اور ترقیاتی منصوبے سی پیک میں شامل کرنے کا عندیا دیا ہے۔ حکومت بعض حلقوں کی جانب سے سی پیک کے حوالے سے موجود شدید تحفظات اور خدشات کو دور کرنے کیلئے کل جماعتی کانفرنس بلانے کے مطالبے کو نظر انداز کر رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی اور غم وغصہ بڑھ رہا ہے ۔ 

One Comment