وجودیت کا ایک تنقیدی جائزہ 

پائند خان خروٹی

بنی نوع انسان کی تاریخ میں انقلاب فرانس کو جاگیرداری کے خلاف تبدیلی اور تغیر کے حوالے سے ایک روشن مینار نورکی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے جلووپلو میں اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس اور فیڈرک اینگلز کے فکر انگیز انقلابی نظریہ اور مبارزہ نے نسل انسانی کو اپنی قسمت اپنے ہاتھ لینے پر مائل کیا۔ جب تقدیر کی بجائے تدبیر کے ذریعے وہ اپنے مقدر کا خود مالک بننے کی ڈگر پر چل پڑا تو سسٹم اینڈ سٹیٹس کو جوں کا توں برقرار رکھنے میں عافیت محسوس کرنے والے سرمایہ دار طبقے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام خاص کر اہل علم ودانش نے ان کو ناکام اور بدنام کرنے کیلئے ان کے خلاف اپنی کمانیں سیدھی کرلیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ تاریخ کا معروضی عمل حکمرانوں اور استحصالی عناصر کی پسنداور ناپسند پررکا یا بدلہ نہیں جا سکتا۔ ’’ارتقاء اور ترقی کے نظریات نے انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسان مجبور محض اور تقدیر کے ہاتھوں میں قیدی نہیں ہے بلکہ وہ برابر آگے کی جانب بڑھ رہا ہے اور انسانی تہذیب وتمدن مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ ‘‘ (۱)۔

 مارکسی تعلیمات کے اس عالیشاں فکری اور عملی سفرکو رکنے کی خواہش میں مبتلا عناصر نے مختلف شعبوں میں مختلف نعروں ، اصولوں ، پروپیگنڈوں اور خود ساختہ نظریات کا پرچار شروع کیا جس میں علم وادب کے شعبے میں ان کی مختلف کوششوں میں وجودیت کی تحریک بھی شامل ہے۔ اس کی علاوہ مختلف رحجانات جنہوں نے کارل مارکس اور دیگر ترقی پسند انقلابیوں کا مقابلہ کرنے کا ٹھان لی ان میں انارکسزم، لیبرلزم، ماڈرنزم ، عدم تشدد کے علمبردار اور سیگمنڈ فرائیڈ کے زیر اثر ایک طرف تو سیکولرزم اور آزاد خیالی کے حامی رہے تو دوسری جانب طبقاقی سماج اور استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کے حق میں بھی رہے ۔

ان کے ساتھ ساتھ سوشلزم کے منحرف عناصر سوشل ڈیموکریٹس ، فیبین سوسائٹی اور لیون ٹراٹسکی کے چاہنے والے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر قومی مزاحمتی تحریکوں اور انقلابیوں کو نقصان اور کینسر زدہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مندرجہ بالا سیکولرزم ، جدیدیت اوربورژوا انقلابیت کے تمام دعویدار دنیا بھر کی محکوم قوموں اور انقلابی عوامی مزاحمتی تحریکوں کی مخالفت اور دشمنی پر متفق ہیں۔ کانگریسی قائدین اور عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی اورپنڈت نہرو تمام اختیارات اور اقتدار کے مالک بننے کے باوجود بھی برہمن کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے اپنے شودر اور دلت کو غلام رکھا جو آج بھی ہندوستان اور عدم تشدد کے دامن پر ذات پات کاایک بدنما داغ ہے۔

جس طرح سرخ جھنڈا اٹھا کر سرخ جھنڈے کی مخالفت کی جارہی ہے بالکل اسی طرح پاکستان جیسے ترقی پذیر بلکہ پسماندہ ملک میں استحصالی نظام کے رکھوالے جاگیر دار ، سرمایہ دار اور قبائلی عناصر موجود ہ سسٹم اور سٹیٹس کو کوبرقرار رکھنے کیلئے اکثر جمہوریت اور تبدیلی کے علمبردار نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ لوگ قدامت پرست اور رجعتی مذہبی عناصر سے مل کر ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔

وجودیت فلسفے کے شعبے میں تشکیک ، تجرید اور لا یعنیت جیسے رحجانات کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ براعظم یورپ میں سورین کیرکیگارڈ(1813-55) نے پہلی بار اسے فکری رحجان کی شکل دی ۔ و ہ اپنے بنیاد ی فکر کے اعتبار سے دائیں بازو کا رجعتی عالم ہے ۔ اس نے زندگی کی بے معنویت کو عام کرکے موجودہ نظام کے خلاف تحریکوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ۔ اس طر ح ایک زمانے میں مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی نئی نسل فرار کی را ہ پر ڈالنے کا اس رحجان میں مناسب بندوبست نظر آیا۔ لہذا سرمایہ دار دنیا نے اس رحجان کی باقاعدہ پرورش اور افزائش شروع کی ۔ بعد ازاں فریڈرک نطشے ، مارٹن ہائیڈیگر ، کارل جیسپرز ، جبرئیل مارسل اور دوستو فیسکی سے لے کر جین پال سارتر(1905-1980) تک اس رحجان کو وجودیت کے نام سے ایک علیحدہ مکتبہ فکر اور مارکسزم کے متبادل کے طور پر پیش کرتے رہے۔ البرٹ کا میو اور فرانز کا فکہ کے فعال کردار کی وجہ سے ادب اور آرٹ پر وجودیت کی تحریک کا دیر تک سایہ رہا۔

جین پال سارترنے وجودیت میں اپنا الگ مکتبہ فکر بنانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اس نے بقیہ وجودی مفکروں کے مقابلے میں خود کو نسبتاً ترقی پسند اورانقلابیوں کا دوست قرار دینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ جین پال سارتر نے اپنے پیش رو سے مختلف کردارادا کرتے ہوئے دنیا میں محکوم قوموں ویت نام ، کیوبا اور الجزائر وغیرہ کی بھر پور حمایت کی ۔ ’’ سارتر کی سامراج دشمنی غیر ممالک تک محدو د نہیں۔ اس نے اپنے ہی ہم وطنوں (فرانسیسی) کے ظلم وتشد د کے خلاف ہمیشہ الجزائر ی حریت پسندو ں کا ساتھ دیا اور ہر ممکن طریقے سے ان کی جدوجہد آزادی کی تائید وحمایت کی یہاں تک کہ اس نے الجزائر میں مقیم فرانسیسی فوجیوں سے اپنے فرائض سے دستبردار ہو کر فرار ہوجانے کی اپیل کی۔ ‘‘(۲)۔

محکوم قوموں کی حمایت ، معروضیت اور موضوعیت کی کشمکش ، سامراج کی دشمنی ، مذہبی وجودیت سے دہری وجودیت ، نوبیل پرائز کے حصول سے انکار اور جدلیاتی مادیت کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وجودی مکتبہ فکر بری طرح تقسیم اور دھڑہ بندی کا شکار ہوا۔ اس طرح جودیت کے اثرات محدود ہونے لگے۔وجودیت کے معدوم ہونے سے نیشنلزم اور کمیونزم کو تقویت ملی۔ تحریک وجودیت کے مفکرین کے درمیان اتفاقات سے اختلافات زیادہ ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وجودیت کے ایک متفقہ تعریفپر بھی متفق نہ ہوسکے۔ ’’ وجودیت کی تعریف کرنا نہ صرف مشکل بلکہ خود وجودی نقطہ نظر کے خلاف ہے ۔ کیونکہ تعریف کا مطلب ’’جوہر‘‘ کا بیان ہے اور وجودیت انسان کے کسی جوہر کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے‘‘۔(۳)۔

علی عباس جلالپوری نے وجودیت کی اصطلاح کا ذکر کرتے ہوئے اردو ترجمہ کی خامی کی جانب نشاندہی کی اور بتایا کہ ایگزسٹینشل ازم کا اردو ترجمہ وجودیت نہیں بلکہ موجودیت ہے۔ ’’ ایگزسٹینشل ازم کا ترجمہ بعض لوگوں نے وجودیت سے کیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ وجود کا ترجمہ

Being

ہے ۔

Existent

 کا ترجمہ “موجود” ہے۔ مزید برآں وجودیت سے ہمارے ہاں وحدت الوجود یا ہمہ اوست مراد ہے۔ جو صوفیہ اس نظریے کے قائل ہوئے ہیں۔ انہیں وجودی یا وجودیہ کہا گیا ہے۔‘‘ (۴)۔

وجودیت کی تحریک تین مفروضات پر مشتمل ہے :۔
۔1۔انسانی عقل محدود ہے اور مسائل کا جامع حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ 
۔2۔انسان اپنی ابتدائی مطلق سچائی سے علیحدہ ہونے کے بعد مسلسل کرب اور تشویش میں جکڑ گیا۔ 
۔3۔انسان اور فطرت کے مابین ہم آہنگی موجود نہیں ہے لہذا انسانی زندگی مسلسل بے معنویت کا شکار ہے۔ اس کے نتیجے میں حزن وملال انسانی زندگی کے مستقل رحجانات ہیں۔ 

بیسویں صدی انسانی ارتقاء کے معراج کی صدی سمجھی جاتی ہے ۔ اس صدی کا سب سے اہم جوہر انسانی عقل کی بالادستی کا رحجان ہے ۔ انسانی علوم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی نے عقل کی بالادستی کو مصدقہ آفاقی رحجان بنا دیا۔ وجودیت پرست عناصرنے انسانی عقل کو محدو د بتا کر دراصل قدامت پرست مذہبی عناصر نے جن خیالات کا اظہار کیا اور جن مفروضات کو قبول یا رد کیا ان سب کیلئے انسانی عقل ہی واحد میزان ہے پھر بھی وہ انسانی عقل اورسائنس کی مخالف پر بضد ہیں۔

سارتر کے مطابق وجود کو جو ہر پر تقدم حاصل ہوتا ہے۔ لیکن انسانی وجود کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے سارتراس بنیادی اصول کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر دیتا ہے۔ جومادے میں حرکت و تغیر کے اٹل قوانین کے منافی ہے ۔ جب وہ انسانی وجود کو اپنے جوہر سے آزاد کر دیتا ہے تو انسانی زندگی کا معنی گم ہو جاتا ہے اور سماج پر فرد کو فوقیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ فرد اور انسان کا یہ تضاد سرمایہ دارانہ نظام اور اس میں ہونے والے استحصال کے فائدے میں جاتا ہے اور وہ بنی نوع انسان کی اجتماعی ترقی اور سوشلزم کے خلاف صف آراء ہو جاتے ہیں۔ موجودہ نظام کوتبدیل کرنے کی مشترکہ کاوشوں کا حصہ بننے اور معاشی غنڈوں کو عوامی رنگ میں بدلنے کو وجودی عناصر فرد کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہیں۔ اس طرح فرد کی آزای کا نعرہ انسان کو نظام کی تبدیلی کی جدوجہد سے باز رکھنے کے کام آتے ہیں۔ حالانکہ’’عظیم شخصیتیں بھی اس لئے عظیم بنتی ہیں کہ وہ معاشرے کے افراد ، ان کے خیالات ، خواہشات اور امنگوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اس لئے وہ معاشرے کی اجتماعی قوت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب وہ اپنے عہد کے لوگوں کے ساتھ چلنے پر تیار ہوں اس لئے تاریخی عمل معاشرہ کے تمام سرگرمیوں سے مل کر بنتا ہے اور ان کی اجتماعی، ذہنی وجسمانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ‘‘(۵)۔

وجودی مفکرین انسانی وجود کی اہمیت وعظمت کا احساس جگانے کے لئے فرد کی آزادی اولین شرط قرار دیتے ہیں۔ وہ انسان کے لئے پہلے سے طے شدہ یا بنائے گئے اداروں اور نظاموں کی پاسداری سے انکارکر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک وجودیت میں سب سے پرکشش اور مقبول نعرہ فرد کی آزادی ہے جو آج بھی توجہ طلب مسئلہ ہے ۔ مگر وہ فرد کے اجتماعی فرائض اور ان کی حدو د کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ فرد کی آزادی تو ضروری ہے مگر سماج کی آزادی اس سے زیادہ ضروری ہے۔ سماج کے مفادات نہ صرف فرد کے مفادات پر مقدم ہیں بلکہ سماج کی آزادی ہی سماج کے تمام افراد کی آزادی کیلئے نئی راہیں متعین کرتی ہے ۔ انسانی زندگی فطرت ، ماحول اور دوسرے انسانوں سے مربوط عمل ہے ۔ لہذا فرد کو سماج سے الگ تھلک رکھنے کی تمام کوششیں ناکام رہ جاتی ہیں۔ اس ضمن میں جب وجودی مفکرین نئے اقدار کی بنیاد رکھنے اور انسان کے اجتماعی فرائض کا تعین کرنے میں ناکام رہ گئے تو وجودیت متبادل فلسفہ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ اس طرح پھر لوگوں نے فرانس کے پایہ تخت پیرس میں وجودیوں پر ’’کافی ہاؤس فلاسفرز‘‘ کا لیبل لگایا۔ 

جس طرح قطرہ سمندر سے الگ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا بالکل اسی طرح فرد اجتماعیت سے الگ ہو کر اپنے منصب سے گر جاتا ہے۔ 

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اترجاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم 
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

حوالہ جات
۔1۔ ڈاکٹر مبارک علی ، تاریخ اور فلسفہ تاریخ ، تاریخ پبلیکیشنز لاہور ، 2012،ص 79
۔2۔ قاضی جاوید ، وجودیت ، فکشن ہاؤس لاہور ، 2010،ص81-82
۔3۔ ایضاً.. ص14
۔4۔ علی عباس جلالپوری ، روایات فلسفہ ، تخلیقات لاہور، 2013، ص 158
۔5۔ ڈاکٹر مبارک علی ، تاریخ اور فلسفہ تاریخ ، تاریخ پبلیکیشنز لاہور ، 2012،ص 107

2 Comments