سلام شہید جمہوریت

عظمٰی ناصر

کچھ عرصہ قبل آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ قائدین کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملاتو محترمہ بے نظیر بھٹو کا تذکرہ چھِڑا سابق ڈپٹی سپیکر شاھین کوثر ڈار نے ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے بی بی بے نظیر کا ایک واقعہ سنایافرماتی ہیں کہ سانحہ کار ساز کے بعد تمام پارٹی قیادت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بلاول ہاؤس کراچی میں ملاقات کی بی بی نے وہاں موجود تما م قیادت سے کہا آپ سب نے ہمارا بہت ساتھ دیا جس کے لئے میں آپ کی شکر گزار ہوں مگر ا ب موت میرے تعاقب میں ہے میں جانتی ہوں مجھے مار دیا جائے گا آپ میں سے جو ہمارا ساتھ چھوڑنا چاہتا ہے وہ جاسکتا ہے مجھے کوئی گلہ نہیں ہوگااور جو نہیں جانا چاہتا وہ سر پر کفن باندھ لے تمام قیادت نے کفن باندھنے کو ترجیح دی۔

جس دھج سے کوئی مقتل گیا ،وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ پیپلز پارٹی کی خوش نصیبی ہے کہ وفاجیالے کے خون میں شامل ہو جاتی ہے ،محترمہ بے نظیر کو ہم سے بچھڑے 9سال بیت چکے ہیں لیکن بے نظیر کے جاں نثاروں کو آج بھی لگتا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کے نظریہ پر جیالے آج بھی اپنی جان و مال قربان کرنے کو تیار ہیں جس کی وجہ سے بے نظیر کی سیاست کا انداز منفرد تھا۔انہوں نے اپنی پوری ذندگی اپنے والد کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے گزاری اور کبھی بھی غیر جمہوری قوتوں کے سامنے نہیں جھکیں۔

یہ انداز انہیں وراثت میں ملا تھا انہوں نے اپنے والد کو بڑی بہادر ی سے قید و بند کی صعوبتیں کاٹتے دیکھا تھا اور پھر انہوں نے آمریت کو للکارتے للکارتے اپنی جان جمہوریت کے لئے قربان کردی۔ بھٹو کاسیاسی قتل کرنے والے بھول گئے تھے کہ ان کی موت ملک کی سیاسی تاریخ کے ماتھے پر ایک بد نما داغ بن جائے گی ۔

اسی طرح محترمہ کی والدہ جنہیں مادرِ جمہوریت کا لقب بھی دیا گیا نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر اور اپنے دو بیٹو ں کی زندگیوں کو جمہوریت کے لئے قربان کیا خود جیل کی صعوبتیں اور تشدد برداشت کیا مگر کبھی اپنا راستہ نہیں بدلہ کبھی غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ نہیں ملایااور اِسی ورثہ کو لے کر بے نظیر آگے بڑھیں اور تمام عمر جمہوریت کے لئے جدوجہد کی اوراسی جدوجہد میں اپنی جان قربان کر دی۔ انہیں اس وقت کے آمر پرویز مشرف نے روکا تھا کہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انکی جان بھی جا سکتی ہے مگر وہ پاکستان آئیں اور جمہوریت کی بقاء کے لئے بھرپور جدوجہد کی ۔

بے نظیر کی ساری زندگی جدوجہد پر مشتمل ہے وہ 1977سے جمہوریت کی جنگ لڑ رہیں تھیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے والد کو جیل کو صوبتیں کاٹتے دیکھااور ان کی موت کا صدمہ جھیلا اور پھر اپنے جواں سال بھائیوں کی موت، جیل میں ذہنی تشدد اور پھر اس کے بعد اپنے شوہر آصف علی زرداری کی 9سال تک جیل اور جھوٹے مقدموں میں عدالتی ٹرائل کو برداشت کیا ۔

بے نظیر بھٹو کی سیاست سے خوفزدہ قوتیں ہمیشہ بی بی کی کردار کشی میں مصروف رہیں ان پر کرپشن کے الزامات لگے تو کبھی عدالتی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر وہ ڈٹی رہیں کبھی جھکی نہیں کبھی راستہ نہیں بدلہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا ء کی ایک عظیم خاتون لیڈر تھیں مگر ایک عظیم عورت ایک عظیم لیڈر ،جمہوریت دشمن اور عورت دشمن قوتوں سے برداشت نہیں ہوئی اور بی بی کو27دسمبر کو لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا۔ 

وہ ظالم سمجھتے تھے کہ شائد بے نظیر کی موت سے ہمیشہ کے لئے بھٹو کا نام مٹ جائے گامگر وہ بھول گئے تھے سیاست کے اس خارزار کو بھٹو خاندان کے لہو نے ایسی بہار دی ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آئے گی۔ بھٹو کا نام زندہ رہے گا کیونکہ بھٹو اور بے نظیر ایک نظریہ کا نام ہے نظریے مرا نہیں کرتے ۔بے نظیر نے جس بہادری سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جمہوریت دشمن قوتوں کو شکست دی وہ ایشیاء کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگئیں۔

بھٹوخاندان کی قربانیاں اور لازوال سیاسی خدمات کو ان سے عقیدت رکھنے والے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے پاکستان میں صرف سیاست جاگیرداروں اور صنعتکاروں کا مشغلہ سمجھی جاتی تھی مگر پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد سیاست کے میدان میں مزدور اور کسان بھی آئے اور ایک سیاسی شعور کی لہر نے سوئے ہوئے عوام کو بیدار کیا۔ پھر مزدور نے صنعت کار کو للکارا۔کسان نے جاگیردار سے اپنا حق مانگا اور یوں سیاسی بیداری کی ایک رسم چل نکلی جس کا سہرا بھٹو خاندان کے سر پہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان خدمات کے بدلے میں ایسی قوتیں جو سیاست سے عوام کو دور رکھنا چاہتی ہیں بھٹو خاندان کو لاشیں دیں مگر بھٹوں خاندان نے بڑے عزم اور حوصلے کے ساتھ ہر دور میں ان قوتوں کو للکارا ایوبی آمریت تو کبھی ضیاء کی ظلمت تو کبھی جنرل مشرف کے جبر کے سامنے ڈٹ گئے اور ان کے اس عزم اور حوصلے نے انہیں امر کردیا ۔

Comments are closed.