محمد علی جناح کی لیبارٹری 

عبدالحئی ارین 

دروغ بہ گردن راوی اور مطالعہ پاکستان کے مطابق چودہ اگست ۱۹۴۷ کو بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب نے ایک ایسی لیبارٹری یعنی تجربہ گاہ کی بنیاد رکھی جہاں مسلمانوں کو اپنی دین کی ترویج و تدریس کیلئے آزادی ہو، جہاں اسلام اپنی اصل شکل میں پنپ سکے۔ محمد علی جناح مسلمانوں کیلئے ایک ایسی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے جو اسلام کا قلعہ ہو ۔ 

مگر اس ملک کے مقتدر قوتوں کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اُنھوں نے نظریہ ضرورت کے تحت اس لیبارٹری میں کچھ اور ہی قسم کے تجربات کرنا شروع کردئے ہیں جہاں اسلام پر اور مسلمانوں پر سب سے زیادہ تجربات کئے گئے ہیں۔ اسلام کا قلعہ بننے کی بجائے اسلام اس قلعے میں قید ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسی تجربہ گاہ بن چکا ہے جہا ں مسلمان آپس میں بھائی بھائی بننے کی بجائے آپس میں قصائی قصائی بن گئے ہیں۔ اور ایمان اتحاد تنظیم کی بجائے کرپشن، فرقہ بندی اور ایک دوسرے کی تذلیل میں مصروفہیں۔

سنہ1947 کے بعد اس تجربہ گاہ یعنی ملک کونو سال تک بغیر کسی آئین کے چلایاگیا۔ بعد میں ملکی نظام چلانے کیلئے جو تین آئین بنائے گئے ، وہ ملک میں آباد اقوام کی ضروریات پوری کرنے کی بجائے ایک خاص طبقے کے استعماری مفادات کی تحفظ کرنے کیلئے بنائے گئے۔ جو عوام کو مطمئن کرنے کی بجائے ناانصافیوں کا سبب بنے اور اُن ناانصافیوں نے لوگوں کے درمیان نفرتوں کو جنم دیا۔

اس لیبارٹری میں روز اول سے ہی جمہوریت کو آ ئی سی یو میں رکھا گیا ہے۔ اور عوامی ضروریات کو مقدم رکھنے کی بجائے نظریہ ضرورت کی چُھری کے نیچے جنگجو افکار کو فروغ دیا گیا۔ ملک بننے کے نو سال بعد ہی انگریز فوج سے ورثے میں ملے ہوئے جنرل صاحب نے جمہوریت پر شب خون مارا اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر بوٹ رکھتے ہوئے ملک میں پہلا مارشل لا لگایا گیا۔یہ جنرل تقریباً ہر دس سال بعد وارد ہوتا اور ملک کے آئین کو ’ رکھیل‘ کی طرح طلاق دے دیتا اور ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا ایک اور فرسودہ تجربہ کر ڈالتا۔ 

اس لیبارٹری میں ہمیشہ استعماری پالیسیوں کو فروغ دیا گیا۔بار بار اپنی ہی قوم کو فتح کیا۔ اُن کے وسائل لوٹے ۔ اُن کی تاریخ مسخ کی جاتی ہے۔ اور اُن کی تہذیب، ثقافت و زبان کو تضحیک کانشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اُن کے جائز حقوق کو تسلیم کرنے اور معزز شہری کا درجہ دینے کی بجائے اُنھیں پسماندہ اور غدار جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ جناح صاحب کی اس بدقسمت لیبارٹری میں میرٹ کی بجائے اقربا پروری اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر چوکیدار سمیت زیادہ تر نااہل اور ایک ہی برادری کے لوگوں کو نوازاجاتا ہے۔

نتیجے کے طور پر ان عوامل نے جناح کی اس لیبارٹری کو زیست کے مسئلے سے دو چار کر رکھا ہے۔ اوران غیر جمہوری رویوں اور مارشل لاؤں کے نتیجے میں نا صرف جناح کی لیبارٹری ۱۹۷۱میں دو لخت ہوئی تھی بلکہ لیبارٹری میں’ تجربہ ‘کیلئے رکھے گئے باقی اقوام آج تک لیبارٹری کے چوکیدار کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہ چوکیدار لیبارٹری کے باہر ڈیوٹی دینے کی بجائے لیب کے اندرونی امور میں غیر ضروری مداخلت کرکے مختلف ناکام تجربے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ 

اس تجربہ گاہ میں حقیقی عوامی سیاست کو پنپنے کی بجائے یہاں پر فوج کے گملوں میں سیاستدان اُگائے نے تجربے کئے جارہے ہیں، نیشنل عوامی پارٹی و دیگر قومی سیاسی نرسریز پرپانی بند کرکے غیر جمہوری قوتوں کی کوکھ سے جنم لینے والی گالی گلوچ، مک مکا والے سیاست دانوں کو تیار کرنے ور پھر اُن کے ذریعے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بدنام کرنے کے تجربے کئے جارہے ہیں۔

لیبارٹری میں صرف ان تجربوں پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ مجاہدین، طالبان، شیعہ و سنی کی تقسیم، جہادی تنظیموں کی آبیاری اور کلاشنکوف کلچرز کے تجربے بھی اسی لیبارٹری میں کئے جارہے ہیں۔ لیبارٹری میں پراکسیز تیار کرکے اُن کے ذریعے ہمسایہ ممالک میں مداخلت کا کام لینے کے علاوہ لیبارٹری کے اندر بھی پشتونوں، بلوچوں اور سندھیوں کو دباؤ میں رکھنے کیلئے یہ صدابہار پراڈکٹ کارآمد بنایا گیا ہے۔

لیبارٹری میں ان تمام ناکام تجربات کے کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ فاٹا میں چوکیدار کی نگرانی میں دہشت گرد وں کو پناہ دینے کی پاداش میں ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے ،اور چوکیدار کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے فاٹا ،کوئٹہ اور پشاور کے عوام پر مظالم ڈھائے گئے۔ بچے یتیم ہوئے، خواتین بیوہ ہوئیں اور نوجوان لڑکیاں لاہور اور اسلام آباد کے بازار حسن کی زینت بن گئی ہیں۔ لاکھوں پشتون اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور کئے گئے ہیں ۔جبکہ تقریباً یہی حالت بلوچوں و دیگر اقوام کی بھی بنائی گئی ہے۔

جمہوریت کو بدنام کرنے اور دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے جعلی سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں و اتحاد پیدا کرنے کے تجربے کئے گئے، ملک کے اندر بلوچوں، پشتونوں، سرائیکوں، سندھیوں و دیگر اقوام کو پسماندہ رکھنے اور اُن کے سائل و سائل لوٹنے کے تجربے کئے۔

اب آئیں حقیقی جمہوریت کا تجربہ کرتے ہیں، عوام کو اُن کے جائز حقوق دینے اور ایک فلاحی ریاست بننے کا تجربہ کرتے ہیں۔ جہادی مدرسے تعمیر کرنے،طالبان و مذہبی جنونی پیدا کرنے کی بجائے عصری تقاضوں کے مطابق جدید سائنسی اور بین القوامی معیار کے مطابق تعلیمی ادارے بنانے کا تجربہ کرتے ہیں۔ ا استعماریت کی بجائے بلوچستان، فاٹا، و پشتونخوا کے عوام کو بھی معزز و پُرامن زندگی گزارنے کیلئے اُتنا ہی حق دیتے ہیں جتنا لاہور کے ایک شہری کا حق بنتا ہے۔

2 Comments