جنید جمشید ۔۔۔ شعیب منصور سے مولانا طارق جمیل تک

عرفان احمد عرفی 

کہا جاتا ہے ’’ایکس فیکٹر ‘‘ شوبزنس میں سکرین پر جلوہ گر ہونے والے ہر اُس چہرے کے لیئے انتہائی اہم ہے جو رنگ اور روشنی کی اس دنیا میں تابناک مستقبل دیکھنا چاہتا ہے ۔محنت ، موقعہ یا خوش قسمتی اپنی جگہ لیکن اگر ’’ ایکس فیکٹر ‘‘ کی کمی ہے تو صلاحیت کے باوجود فنکار کبھی بھی سٹار نہیں بن سکتا ۔ سکرین بڑی ہے کہ چھوٹی حتیٰ کہ نیوز کاسٹر ، اینکر پرسن ، سیاست دان ، دانشور ، صالح یا واعظ کے لیئے بھی لازم ہے کہ اگر آن سکرین ہے تو ایکس فیکٹر کا ہونا اُسکی مقبولیت کی بنیادی ضرورت ہے ۔

ادب میں منیز نیازی ، مستنصر حسین تارڑ،، اشفاق احمد ، پروین شاکر ایسی متعدد مثالیں ہیں جو سکرین اور سٹیج پر نمودار ہوئے تو اُنہوں نے اپنے قارئین کے علاوہ ایکس فیکٹر کی وجہ سے اپنے ناظرین پر بھی ایک تاثر چھوڑا۔۔۔ اُن کے تخلیقی معرکے اپنی جگہ لیکن اگر اُن میں ایکس فیکٹر کی کمی ہوتی تو وہ کبھی بھی عوام میں مقبولیت نہ حاصل کر پاتے۔ 

شعیب منصور ایک ایسے ڈائریکٹر ہیں کہ فلم کے اشتہاری بل بوڑد یا پوسٹر پربطور لکھاری اور ہدایتکار اُن کا نام لکھا ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے نام نہیں کسی سپر سٹار کی تصویر دیکھ رہے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آف کیمرہ فنکار بھی ایکس فیکٹر کے حامل ہوتے ہیں۔ ایکس فیکٹر کا ہونا یا نہ ہونا ایک قدرتی مگر خوشگوار حادثہ ہے اس پر کسی کا زور نہیں اور نہ ہی اِسے پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تربیتی مشق یا تجربہ ہے جو اِسے تخلیق یا دریافت کر سکتا ہے ۔ یہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔۔ تاریخ گواہ ہے فلم ، ڈرامہ ، میوزک اور فیشن انڈسٹری کے عظیم سپر سٹارز بہت کمزور ٹیلنٹ اور معمولی شکل و صورت کے باوجود فقط اس ایکس فیکٹر کی بدولت عالمی مقبولیت کے حقدار ٹھہرے حتیٰ کہ لیجنڈز بھی مانے گئے ۔ 

ایک زمانہ تھا جب موسیقی کی دنیا میں گلوکار کی فقط آواز اور گائیکی کے انداز میں ایکس فیکٹر کا ہونا لازم ہوتا تھا ۔ بیگم اختر سہگل ، لتا ، آشا ، محمد رفیع ، کشور کمار سے لے کر مہدی حسن اور مالا ایسی بیشتر آوازیں جو اپنے ’’آڈیو ایکس فیکٹر ‘‘کے باعث سپر سٹارز کے منصب پر فائز رہیں اِن کے بصری امیج کی ضرورت ہی نہیں تھی ان میں سے لاتعداد نام مثلاً امانت علی خان ، میڈم نور جہاں ، فریدہ خانم ، تصور خانم ، آشا بھوسلے ، رونا لیلی ، طاہرہ سید جیسے اور بھی بہت ، جو ’’آڈیو ایکس فیکٹر ‘‘کے ساتھ ساتھ ’’بصری ایکس فیکٹر‘‘کی بدولت بھی مقبولیت کے آسمان پر سٹار بن کر جگمگائے ۔

کیمرے اور مائک کے علاوہ ایکس فیکٹر سٹیج اور کھیل کے میدان اور جلسے یا عبادت گاہ کے ممبر پر بھی ہوتا ہے۔ کھیل کے میدان میں بہت سے کھلاڑی اپنے واجبی سے ٹریک ریکارڈ کے باوجود سپر سٹار کے عہدے پر فائز رہتے ہیں۔اسی طرح بہت سے مقرر یا اداکار جو سٹیج پر تو ایکس فیکٹر رکھتے ہیں لیکن سکرین پر نمودار ہو کر سٹارڈم کھو دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ’’ امان اللہ ‘‘ ایک بہت اچھی مثال ہے جو سکرین پر وہ رنگ نہیں جما پاتے جو سٹیج پر جما پائے ہیں۔ 

جنید جمشید بطور پاپ سنگر اِسی ایکس فیکٹر کے باعث اپنی پہلی جلوہ افروزی پر برق رفتاری سے دیکھنے والوں کے من پسند سٹار بن گئے ۔ یہ اُس غیر معمولی ایکس فیکٹر کی بدولت تھا کہ وہ فن گائیکی کی بنیادی اور واجبی سی صلاحیت کے باوجود ایک رجحان ساز گائیک کی حیثیت سے بہت جلد مان لیئے گئے ۔ اس میں شک نہیں کہ اُن کے مینٹر شعیب منصور کا آف کیمرہ ایکس فیکٹر بھی اُن کی چمکتی دمکتی پیشانی میں منعکس ہوا اور وہ اپنے بینڈ کے تعاون پر پروڈکشن کے بہترین معیاروں کے باعث بہت تیزی سے اَسّی کی دہائی میں بطور پاپ سٹار شو بزنس میں اپنا کیریئر کامیابی سے بناتے چلے گئے ۔ بہت سی شوبز سلیبریٹیز اپنے ایکس فیکٹر کو شوبز ترک کرنے کے بعد دیگر سماجی کاموں میں کیش کرواتے رہے اس ضمن میں ہالی ووڈ کے لاتعداد سپر سٹارز کا نام سرِ فہرست ہے ۔ 

بینڈ سے جدا ہونے کے بعد بطور ’’سولو سنگر ‘‘جب جنید نے دو ایلبمز ریلیز کیں تو کسی حد تک وہ اُتنی کامیاب نہ ٹھہریں جتنی بینڈ کے ساتھ ریلیز ہونے والی ایلمبز تھیں یوں بھی نجی چینلوں کی بھرمار کے نتیجے میں نوّے کی دہائی کے آخر تک پاکستان کے پاپولر میوزک کا منظر نامہ خاصا بدل چکا تھا اور اب میوزک لورز کی تسکینِ ذوق کے لیے بہت سے نئے ستارے شہرت کی بلندیوں پر جگمگانے لگے ۔یہ وہ دِن تھے جب جنید جمشید کے پاس موسیقی کے شعبے میں کچھ بھی نیا کرنے کو نہیں تھا ۔

یہ بہت فطری امر ہے اس میں کسی بھی فنکار کے تخلیقی ، غیر تخلیقی یا باصلاحیت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ صادر کرنے کی ضرورت نہیں دُنیا میں بہت لوگ ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے امکانات ایک حد تک ہی ایکسپلور کر پاتے ہیں اور پھر یا تو وہ منظر نامے سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں یا پھر کسی نئے امکان کو دریافت کر کے اپنے پہلے والے امیج کی چھتری میں سماجی اور معاشی بقا کے لیئے نیا کام شروع کر دیتے ہیں اس میں قباحت نہیں اگر تو فنکار اپنے اگلے مرحلے میں کامیاب ہے تو یہ اُسکا حق ہے کہ وہ اُس میں اپنی بقا کے حتی الامکان راستے تلاش کرتا رہے ۔

جنید جمشید نے بھی ایسا ہی کیا پاکستان جیسی قدامت پسند سوسائٹی میں اُن کے تبلیغی امیج نے نہ صرف اُن کی مقبولیت کو قبولیت کے درجے پر لا کر اقلیت سے اکثریت تک پہنچایا بلکہ اُن کے کاروبار کے پھلنے پھولنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ 

جنید جمشید کو ہم ذاتی طور پر شاید اُتنا نہیں جانتے جتنا اُن کے اُس امیج کے ساتھ شناسائی کا حق جتاتے ہیں جو شوبزنس میں متعارف ہونے سے اُن کے چاہنے والوں اور ناظرین میں مقبول ہوا ۔ اُن کی حادثاتی موت کا صدمہ ہر کسی کو ہے اور اُن کے جانے کے بعد الیکٹرانک میڈیا میں اُن کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر بات کرتے ہوئے جس لفظ کو خاص طور پر بہت دہرایا جا رہا ہے وہ ’’ ٹرانسفارمیشن ‘‘ ہے ۔اس ٹرانسفارمیشن سے مراد گناہوں سے توبہ اور پارسائی کے راستے پر چل نکلنے کا مرحلہ ہے۔

یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب جنید جمشید کی پہلی سولو ایلبم مارکیٹ میں آ چکی تھی اور پی ٹی وی کے ایک میگزین شو کی ریکارڈنگ کے لیئے راقم کو معروف ٹی وی ہوسٹ توثیق حیدر کے ساتھ پروڈکشن ٹیم کے ہمراہ کراچی میں جنید جمشید کی رہائش گاہ جانے کا اتفاق ہوا وہ بہت دوستانہ اور مہذب شخصیت کے مالک تھے ۔ سپر سٹار ہونے کے باوجود اُن کے رویے میں ذرہ برابر بھی تکبر نہیں تھا بلکہ انکساری اُن کی فطرت میں تب بھی بدرجہ اُتم تھی ۔ اُن کے بچے ابھی بہت چھوٹے تھے اور جب میں نے اُن کے بچوں کے حوالے سے میوزک پر بات کی تو اپنے کلین شیون چہرے کے باوجود گویا ہوئے ۔۔
۔’’ میرے گھر میں موسیقی پر پابندی ہے ۔۔ ‘‘ ۔
۔’’ اور وہ بچے جو بازار میں آپ کی سی ڈی خرید رہے ہیں اُن کے لیئے میوزک پر پابندی کیوں نہیں ۔؟۔ صرف اپنے بچوں پر ہی قد غن کیوں ۔؟۔ ‘‘ 

’’ جو غلط ہے وہ غلط ہے ۔۔ کم از کم جہاں سے شروع کیا جا سکتا ہے وہاں سے تو قدم بڑھایا جائے ۔۔میں نے گھر سے شروعات کر دی ہیں۔ ‘‘ جنید جمشید نے جواب دیتے ہوئے اپنے اُس باطنی تضاد کا مظاہرہ کیا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انٹرٹینمنٹ ، کھیل اور فلم انڈسٹری سے وابستہ 99فیصد افراد کا مجموعی طور پر فکری المیہ رہا ہے ۔ ہماری فلم انڈسٹری سے وابستہ بیشتر افراد گلیمر اور (کسی حد تک )نیم عریاں تفریح کے کاروبار میں ملوث ہونے کے باوجود اپنے بیوی بچوں اور قریبی خونی رشتوں کو اس دھندے سے دُور ہی رکھتے رہے ہیں۔ ایک قدامت پسند سماج میں ان شعبوں سے وابستہ لوگ مستقل گلٹی فیلنگ کی زد میں رہتے ہیں جس کی وجوہات ثقافتی اور طبقاتی کمپلیکسہیں۔ 

پاکستان کا شوبزنس (سوائے چند حوالوں کے جن کا تناسب انتہائی کم ہے )۔۔ یوں بھی گناہ کی دنیا نہیں ۔۔ خاص طور پر پی ٹی وی کی سکرین پر تفریح کے سیگمنٹ میں جو کچھ بھی ٹیلی کاسٹ ہوا وہ صرف سکرین کی حد تک صاف ستھرا نہیں تھا آف کیمرہ بھی ایک روائتی ماحول کی نمائندگی کرتا تھا۔ 

ہندوستان کے فلم سٹوڈیوز میں تقسیم سے پہلے اورتقسیم کے بعد بھی (ممبئی ، کراچی اور لاہور )میں اذانیں بھی ہوتی رہی ہیں اور لوگ نمازیں بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ بیشتر مسلم اور غیر مسلم فنکار اور کارندے روائتی مذہبی نظریے کے حامل رہے ہیں۔ 

جنید جمشید انتہائی پاپولر برٹش پاپ سنگر کیٹ سٹیونز نہیں تھے جو 1977میں اسلام قبول کرنے کے بعد یوسف اسلام کے نام سے جانے گئے ۔ جنید تب بھی مسلمان تھے جب صرف دِل دِل پاکستان اور گورے رنگ کا زمانہ گایا کرتے تھے یقیناًاُن کا امیج ایک ماڈریٹ مسلمان کا تھا اور بعد میں داڑھی بڑھانے کے بعد بھی ظاہر ہے مسلمان ہی تھے بلکہ اُنہوں نے تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد بھی اپنے کلین شیون پاپ سنگر والے ماضی سے کبھی انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ اپنے پہلے والے امیج پر شرمندہ تھے بلکہ آخری وقت تک وہ داڑھی سمیت اپنا گایا ہوا کوئی سا بھی گیت گا دیا کرتے تھے ۔

وہ گناہ کی زندگی بسر نہیں کر رہے تھے جس سے اُنہوں نے توبہ کی یہ الگ بات کہ شعیب منصور کے بعد اُن کی زندگی میں آنے والے اُن کے دوسرے مینٹر مولانا طارق جمیل اس بات کا پرچا ر ضرور کرتے ہیں کہ پاپ سنگنگ کی زندگی گناہ کی زندگی ہے اور تبلیغ کے راستے میں نکلنا پارسائی کی جانب قدم ہے جبکہ میوزک انڈسٹری کے سبھی فنکار ’’تبلیغی جنید جمشید ‘‘کے دوست رہے اور جنید نے بھی کبھی کسی گلوکار کو گناگار کہہ کر خود سے لاتعلق نہیں کیا ۔ یہ الگ بات کہ وہ تبلیغی ہونے کے بعد اپنے ہم عصر پاپ سنگرز کو کوشش کے باوجودجماعت میں شامل ہونے پر قائل نہ کر سکے یا شاید کسی کو بھی اُس درجہ پر مائل بہ جماعت نہ کر پائے ۔

جس سطح پر وہ بطور سنگر اپنے اثرسے اپنے چاہنے والوں کو متاثر کرتے تھے وہ خود تو مولانا طارق جمیل کی آغوش میں تھے ہی اس حد تک کہ تبلیغ کے ممبر پر اُن کی بدن بولی اور بات چیت کا انداز نقل کی حد تک مولانا صاحب سے مماثلت رکھتا تھا اور وہی بات اُسی انداز میں جو مولانا کہا کرتے ، جنید جمشید کہہ دیتے تو اُتنی باوزن نہ لگتی جتنی مولانا طارق جمیل کے اندازِ ادائیگی میں مصدقہ محسوس ہوتی ۔

شاید اسکی بڑی وجہ اُس ایکس فیکٹر کی کمی تھی جو ’’تبلیغی جنید جمشید ‘‘بہت حد تک کھو چکے تھے لیکن مولانا طارق جمیل کی پیشانی پر ہمیشہ سے تابناک اور تازہ رہا ہے ۔ جنید جمشید اپنے تبلیغی امیج کے دوران بھی اور اب حادثاتی طور پر ہم سے جدا ہونے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے پاپ سٹار ایکس فیکٹر کی بدولت ہماری یادوں میں زندہ تھے اور زندہ رہیں گے ۔ اُن کے سٹاردم کا سہرا شعیب منصور کے سر ہے نہ کہ مولانا کے ۔ 

♣ 

6 Comments