مارکسزم اور طبقاتی ڈھانچہ

aaaپائند خان خروٹی

شناخت کے مسئلہ کو وسیع تنا ظر میں دیکھا جائے تو فرد سے ا جتماع تک ارتقاء کی تاریخ کے مختلف ادوار اور مراحل کی ایک داستان ہے ۔ ایک فرد کی حیثیت سے ہماری شناخت ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک شخص بیک وقت اپنی ذات ، خاندان ، برادری ، قوم ، زبان ، مذہب اور ملک غرض یہ کہ متعدد حوالوں سے شناخت کاحامل ہوتا ہے ۔

اس سلسلے میں سائنس کے ایک بنیادی کُلیہ زمان ومکان کی حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے تو مختلف اوقات اور مختلف مقامات پر شناخت کی ترتیب تبدیل ہوجاتی ہے ۔ یعنی ایک خاص مقام پر مذہبی شناخت پر قومی شناخت کاحوالہ مقدم ہوسکتا ہے لہذا حقیقی شناخت کی بجائے مسلط کی گئی شناخت کو غیر ضروری اہمیت دینا موجود ہ معاشرتی مرحلے میں حقیقی تضادات کو چھپانے کے مترادف ہے ۔

شناخت کے حوالے سے انسان کی ایک شناخت طبقہ بھی ہے ۔ دنیا بھر کی ترقی پسند تحریکیں طبقہ کو بنیاد بنا کر مظلوم ، محروم اور محکوم طبقات کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنے کی شعوری کاوشیں کرتی آرہی ہیں ۔ طبقاتی شناخت کاادراک حاصل کرنے کیلئے انسانی معاشرے میں موجود طبقاتی ڈھانچہ کوسمجھنا اولین شرط ہے۔ بنیادی طورپر کسی بھی معاشرے میں دو طبقے ہوتے ہیں ایک بالا دست طبقہ / حاکم طبقہ اور دوسرا زیر دست طبقہ / محکوم طبقہ۔

مارکسی نقطہ سے ایک طبقہ وہ ہے جو قدر زائد کامالک ہے اور دوسری طرف وہ وسیع اکثریت ہے جوقدر زائد پیدا کرتی ہے ۔’’ صنعتی انقلاب کے بعدجس اقتصادی استبداد کو ان پر مسلط کیاگیا وہ جاگیرداروں کے اس استبداد سے اِک گُونہ بدتر تھا جس سے خود تجارتی طبقے نے صدیوں کی کشمکش کے بعدرہائی پائی تھی۔فرق صرف یہ تھااب غلام کانام مزدور پڑگیا۔‘‘(1) واضح رہے کہ مذکورہ دوبنیادی طبقات میں مزید تقسیم بھی کی جاسکتی ہے ۔ 

پہلا حکمران طبقہ ملک میں موجود تمام وسائل واختیارات پردسترس رکھتا ہے ۔ اس طبقے کے افراد عام طور پر شہروں کے عالیشاں بنگلوں میں رہتے ہیں ۔ ثقافتی اعتبار سے یہ سرمایہ کے بین الاقوامی تہذیبی (پاپ کلچر) کے نمائندے ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس معاشرتی اقدار ، گناہ وثواب ، سزا وجزا ، صالح وناصالح اور جائز وناجائز کامعیار اور تصور محکوم طبقات سے قطعی مختلف ہوتے ہیں جو واضح طورپر ان کے طبقاتی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہوتا ہے ۔

یہ معاشرہ کابالا دست طبقہ ہونے کی وجہ سے عوامی نمائندگی پرقابض رہتا ہے ۔ اس سے وابستہ افراد کو معززین ، معتبرین اورشرفاء کے القابات سے پکارا جاتا ہے ۔ وہ عوام کوسرکاری مشینری کے ساتھ ساتھ ر وحانی سلطنتوں اور خانقاؤں کے ذریعے بھی اپنے قابو میں رکھتے ہیں ۔ اپنی بالا دستی اور سٹیٹسکو برقرار رکھنے کیلئے یہ لوگ اپنے طبقے میں ہی شادی بیاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ مارکسی نقطہ نظر سے چونکہ معاشرے کی معاشی اساس ان کے مفاد اور استحصالی عزائم کے مطابق ہوتی ہے لہذا تمام اقدار ، قوانین اور ر سم و رواج ان کی مرضی کے تابعدار ہوتے ہیں ۔

حکمران طبقے کو اپنے نظام چلانے کیلئے کارندوں کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے وہ ایک نام نہاد متوسط طبقہ ( مڈل کلاس )کی تخلیق کرتے ہیں جس کی ذمہ داری حکمران طبقے کی مفادات کے مطابق امور ومعاملات کومنظم کرنا اور چلانا ہوتا ہے ۔ مڈل کلاس کے افراد بنیادی طو رپر حکمرانوں کے خادم ہوتے ہیں ۔ مڈل کلاس کی اپنی کوئی بنیاد نہیں ہوتی لہذا طبقاتی کردار کے حوالے سے یہ انتہائی موقع پر ست ہوتا ہے ۔ بالا دست طبقے کے ساتھ اپنے مفادات کو وابستہ کرنے ان سے ربط وتعلق استوار کرنے اور اپنے حاصل کردہ سٹیٹس کے باعث یہ عام طورپر خود کو بالا دست طبقہ کاحصہ تصور کرتے ہیں اور نچلے طبقے کے ساتھ کسی قسم کا تعلق جوڑنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔

اپنا قد بڑھانے کیلئے مڈل کلاس میں شادی بیاہ کے حوالے سے اپنے ہی سٹیٹس میں شادی بیاہ کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ بعض اوقات اپنی مصنوعی شرافت اور جعلی معتبری ثابت کرنے کیلئے وہ ورکنگ کلاس کی بجائے مڈل کلاس کانام اور کارڈ استعمال کرتے ہیں ۔ مڈل کلاس کے سماجی نقل وحمل میں اور سرمایہ وترقی کی راہ میں پیچھے رہ جانے والے عناصر اپنے وجود کو برقرار رکھنے، مظلوم اور محکوم طبقات کے ساتھ زبانی کلامی ہمدردی و یکجہتی کااظہار بھی کرتے ہیں لیکن خود کو نچلے طبقے سے منسلک کرنے سے کتراتے ہیں ۔

لوئر مڈل کلاس سے وابستہ افراد’’اگراتفاقی طورپروہ انقلابی بھی بن جائے تو وہ پرولتاری کی سطح پر آجانے کے بعدخوف وڈر سے ایساکرتے ہیں ۔اس طرح وہ اپنے حال کانہیں بلکہ مستقبل کے مفادات کادفاع کرتے ہیں ‘‘انگلش سے ترجمہ(2)۔ ایسے لوگ خیالات کی دنیا میں زیاد رہتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق کاسامنا کرنے کی جُرات سے محروم رہتے ہیں ۔ خیالی ترقی پسندی ، مصنوعی شرافت ، پاکبازی ، ایمانداری ، اصول پرستی اور جزوی دانشوری کے فلسفے جھاڑتے رہتے ہیں جس کاعام طورپر حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

معاشرہ کی عظیم اکثریت کاتعلق نچلے طبقے سے ہوتا ہے جس میں مزدور ، کسان اور دیگر عام لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ ان کی بڑی اکثریت دیہاتوں اور قصوبوں میں رہتے ہیں ، شہروں میں رہنے والے محنت کش بھی اکثر غیرقانونی کچی آبادیوں کے مکین ہوتے ہیں ۔

زرعی معاشرے سے وابستہ اکثریت تاریخی اعتبار سے تو ہم پرستی کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنے ہر کامیابی اور ناکامی کو اپنے تقدیر سے منسلک کرتے ہیں اور زندگی کے تمام معاملات قسمت کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔ معذوروں اور یتیموں کی طرح محنت کش طبقے کے اکثر لوگ ہمیشہ دوسروں کو دعائیں دینا ، اپنے جیسے مذہبی انسانوں سے منت مانگنے، اخلاق سے پیش آنے ، عاجز وخاکسار بننے اور کم چیزوں پر بڑے بڑے شکر ادا کرتے رہتے ہیں تاہم شہری معاشرے میں مزدور طبقہ جو محنت اور جدید مشینری سے جڑا ہوتا ہے وہ محنت اور جدوجہد پر زیادہ یقین کرتا ہے ۔ 

سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ ریاست میں زیردست طبقات کیلئے خدمت اور تابعداری کے مختلف معیارات مقرر کررکھے ہیں ۔ اسی حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری شعبے میں ان لوگوں کیلئے مخصوص رنگوں پر مشتمل یونیفارم کو بھی رواج دیاگیا ہے تاکہ انہیں استحصالی عناصر کے مقرر کی گئی اوقات میں رکھاجاسکے۔محروم اور محکوم طبقات کے گلے میں ذہنی غلامی کے طوق کوبرقرار رکھنے، سیاسی اقتدار سے محروم رکھنے اور معاشی محتاجی کا شکار کرنے کے علاوہ ڈاکٹر مبارک علی نے ایک تیسری چیز کی نشاندہی کچھ یوں کی ہے’’طبقاتی تقسیم اورفرق کو گہرا کرنے کی تیسری چیز سماجی اور ثقافتی قدریں اور روایات ہوتی ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں نچلے طبقوں کویہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ سماج نے ان کیلئے جو جگہ مقرر کردی ہے وہ وہیں پر قائم رہیں اورخود کوذہنی طورپر اس نچلی حیثیت کیلئے ہمیشہ تیار رکھیں۔‘‘(3) ۔

مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ جدید انقلابی خلقی شعور اور خاص کر مارکسی تعلیمات نے تمام محکوم طبقات میں مزاحمت اور بغاوت کے رجحان کو بھی فروغ دیا گیا ہے اور انقلابی خلقی لٹریچر کی برکت سے اب یہ سماجی ومعاشی تقسیم کو ابدی یا ازلی نہیں سمجھتے ۔ جدید سیاسی شعور سے عاری نچلے طبقے کے افراد اکثر اپنے حاکموں اور مالکوں کے ہاں میں ہاں ملانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ماتحت اپنے آفیسران کے سامنے ہاتھ باندھے سرنگوں کھڑے ہوکر ہر جائز وناجائز حکم کو بجا لانے کیلئے جی سر اور حاضر سر کے جملے دہراتے رہتے ہیں ۔ 

بدقسمتی سے درباری پن کایہ سلسلہ ہمارے ادب اورسیاست میں بھی سرایت کرچکا ہے۔ تنقید اور سوال کے موقع پر وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔واضح رہے کہ غریب لوگ اپنے ساتھ نہ توقبائلی القابات نواب ، خان، چوہدری ، وڈیرہ ، میر ، سردار ، ٹکری وغیرہ کے نام استعمال کرسکتے اور نہ ہی مذہبی القابات مرشد،پیر ، سائیں ، حضرت اور رحمت اللہ علیہ وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں ۔

قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شہری علاقوں میں آوارہ گرد اور غیر منظم / لمپن پرولتاریہ بھی موجود ہے جو عام طور پر بھیگ مانگنے ، جسم فروشی کرنے ، چوری چکاری کرنے ،دھوکہ دہی اور شعبد ہ بازی کے ذریعے گزر بسر کرتے ہیں ۔ ان عناصر کی معاشرہ میں کوئی مثبت اور تعمیری حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی ۔ تاہم انقلابی رہنما ولاد میر لینن اور مارکسی دانشور فرانز فینن کے مطابق انہیں خلقی شعور اور سیاسی نظم دیکر معاشرتی ارتقاء وترقی میں ان کاموثر انقلابی کردار اُبھار ہ جاسکتا ہے ۔

مذکورہ بالاطبقاتی خصوصیات بلکہ مخصوص سماجی اقتصادی نظام کے مرہون منت ہیں ۔

تاہم اگر معاشرے کی معاشی ڈھانچے کوتبدیل کیاجائے یا بقول مارکس استحصالی معاشی نظام کو سر کی بجائے پاؤں پر کھڑا کیاجائے تو طبقات کاکردار بھی تبدیل ہوجائے گا۔ طبقات سے پاک انسانی معاشرہ کی تشکیل کے حوالے سے محنت کش طبقہ نہ صرف پوری انسانیت کیلئے نشاۃ ثانیہ کاباعث بن سکتا ہے بلکہ شناخت کے تمام رشتوں اور شکلوں کو ایک ہی انسانی رشتہ میں بھی پیوست کیاجاسکتا ہے ۔

حوالہ جات:۔
۔1۔علی عباس جلال پوری،رو ح عصر، ناشر، تخلیقات لاہور، 2013، ص116
۔2۔کارل مارکس/فریڈرک اینگلز، مینی فیسٹوآف دی کمیونسٹ پارٹی،ناشربک ہوم لاہور،2012، ص44
۔3۔ڈاکٹر مبارک علی/رضی عابدی، اچھوت لوگوں کاادب، ناشرتاریخ پبلی کیشنز،لاہور،2012،ص9
۔4۔فریڈرک اینگلز، خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کاآغاز، مارگن کی تحقیقات کی ضمن میں،1884ء ، ناشر ماسکو سووویت یونین

2 Comments