ملکہ ترنم نورجہاں کی سولہویں برسی

کروڑوں لوگوں میں خوشیاں بانٹنے والی اور ان کی سماعتوں کو گرفت میں لینے والی عظیم فنکارہ ملکہٴ ترنم نور جہاں کے دل نے 23 دسمبر 2000 ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دھڑکنا بند کر دیا تھا۔ آج ان کی سولہویں برسی منائی جا رہی ہے۔

نُور جہاں زندہ ہے، نُورجہاں کبھی نہیں مَر سکتی۔ سولہ سال پہلے 23 دسمبر کو یہ بات اُن کروڑوں شائقینِ موسیقی کے سِینوں سے اُبھری تھی، جن کے دِل برسوں سے نہیں بلکہ عشروں سے ملکہٴ ترنم نُور جہاں کی منفرد، میٹھی ، مَدُھر اور سُریلی آواز پر دھڑکتے رہے تھے۔ ان تمام شائقینِ موسیقی پر یہ خبر بجلی بن کر گری تھی کہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک اپنے کھنکتے لہجے اور مسحور کُن سُروں سے لوگوں کے دِلوں پر راج کرنے والی ملکہٴ ترنم نُور جہاں اب اِس دُنیا میں نہیں ہیں۔ اُن کا انتقال 74 برس کی عمر میں کراچی میں ہوا اور وہیں وہ آسودہٴ خاک ہیں۔

نُورجہاں 21 ستمبر 1926ءکو شہر قصور میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ کہیں کہیں اُن کا پیدائشی نام اللہ رکھا وسائی اور اللہ رکھی بھی بتایا گیا ہے۔ کم عُمری میں ہی اُنہوں نے اپنی آواز کا جادُو جگانا شروع کر دیا تھا ۔ اُس دَور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اور اپنے فنی سفر کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے ملکہٴ ترنم نُور جہاں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا:’’ماسٹر غُلام حیدر صاحب ، اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے، مَیں نو سال کی تھی، جب اُنہوں نے پہلی بار مجھے گُل بکاؤلی میں گانا گوایا۔ چھ برس کی عُمر سے میں نے گانا شروع کیا تھا۔‘‘

گُل بکاؤلی 1937ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ 1942ء میں پندرہ سال کی عمر میں نور جہاں نے فلم ’خاندان‘ میں ہیروئن کا کردار ادا کیا اور بعد ازاں اس فلم کے ہدایتکار شوکت حسین رضوی کے ساتھ شادی کر لی۔

ریڈیو پاکستان کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا:’’مجھے اچھی طرح ایک دِن کی بات یاد ہے، اُس وقت میں سات آٹھ سال کی تھی، ہم کلکتہ گئے تھے سب۔ وہاں مختار بیگم تھیں، وہ گاتی تھیں اسٹیج پہ اور بہت نام تھا اُن کا۔ میں کھڑی تھی اپنے ابُو کے پاس۔ تو میرے ابُو نے کہا، بیٹا مُختار ! تم دُعا کرو کہ میری بیٹی ایک دِن تمہاری طرح گائے۔ تو اُنہوں نے بَر جستگی سے کہا، میرے ابُو کو: بابا ! جب یہ گائے گی، تو پھر اور کوئی نہیں گائے گا‘‘۔

اپنے پانچ عشروں سے زیادہ عرصے پر پھیلے ہوئے کیریئر کے دوران مادام نور جہاں نے مختلف زبانوں میں تقریباً بیس ہزار گیت گائے۔ کیریئر کے آغاز پر اُس دور کی دیگر گلوکاراؤں کی طرح اُنہوں نے فلموں میں اداکاری بھی کی لیکن پاکستان بننے کے چند سال بعد وہ اداکاری سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گئیں اور خود کو صرف اور صرف گائیکی کے لیے وقف کر دیا۔

ملکہٴ ترنم نُور جہاں کے انتقال پر برصغیر کے نامور موسیقار نوشاد نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:’’پارٹیشن سے پہلے ایک فلم بنی تھی، انمول گھڑی۔ اُس میں محبوب صاحب نے اُن (نُور جہاں) کو ہیروئِن کی شکل میں لیا تھا اور اُسی وقت میری اُن کی ملاقات ہوئی۔

یقیناً میرے گانے گا کر شاید اُنہیں کوئی عِزت نہ ملی ہو گی، لیکن مجھے ضرور عزت ملی۔ نُور جہاں یہاں (ممبئی ) سے جب گئیں تو یقیناً ہماری سنگیت کی دُنیا کو ایک بڑا دھچکا لگا۔ نُور جہاں کی آواز میں ہمیں ایک طرح کی جو ٹرانسپیرینسی (شفافیت)ملی، وہ اور آوازوں میں ہمیں نہیں ملی۔ نُور جہاں نے جو بھی گانے گائے ، وہ لازوال اور اَمر ہیں۔‘‘۔

بھارت کی مایہ ناز گلوکارہ لتا منگیشکر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں نُورجہاں کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور اس امر کا اعتراف کیا کہ اُنہوں نے نور جہاں کے گیت سن سن کر گانا سیکھا:’’گانا تو میں اُن کے ریکارڈ سُن سُن کے ، سُن سُن کے بہت ساری چیزیں میں نے سیکھیں کہ کیسے آواز لگانی چاہیے۔ فلم کے لیے گانا کیسا گانا چاہیے۔ کون سا بول کیسا بولنا چاہیے، یہ سب میں نے اُن سے سیکھا ہے۔ اِن باتوں میں مَیں اُن کو گُرُو ہی مانتی ہوں۔ وہ چلی گئیں، جانا تو سب نے ہے لیکن وہ اپنے سُروں کے ساتھ ہمیشہ اِس دُنیا میں رہیں گی، اتنا مجھے یقین ہے۔

DW

Comments are closed.