ریاست:نظریات و خیالات 

بیرسٹر حمید باشانی

حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پرتقریبات اور سمینارز کی بھر مار ہے۔ان سرگرمیوں کے ذریعے کئی لوگ اپنے آپ کو قائد اعظم کا اصل مالک اور اصل وارث ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔یہ ایک بھیڑ ہے جس میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔اس بھیڑ میں اس شخص کی اصل شناخت، اصل شخصیت گم ہو گئی ہے۔کچھ لوگ اسے مُلا سے بڑا مُلاں بنا کر پیش کر رہے ہیں جس نے مذہب کے نام پر ایک ملک تخلیق کیا۔کچھ اسے اسلامی تاریخ کا عظیم ہیرو اور مدبر قرار دیتے ہیں۔

بھانت بھانت کی بولی ہے جس میں ایک کمزور سی آواز ان لوگوں کی بھی ہے جو اپنے اارد گرد دیکھ کر ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کرتے ہیں کہ جناح صاحب دراصل ایک سیکولر ادمی تھے۔اس کا ہمارے پاس ثبوت گیارہ اگست والی تقریر تھی۔اس تقریر کی آڈیو کچھ عرصہ پہلے تک آل انڈیا ریڈیو کے پاس محفوظ تھی۔اب سنا ہے وہ آڈیو گم ہو گئی ہے۔پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان یہ بحث ستر سال سے جاری ہے اور آنے والے کئی برسوں تک جاری رہے گی۔

بہتر ہو گا کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو چین سے ان کی آ خری آرام گاہ میں رہنے دیا جائے اور اس بات پر براہ راست بحث کر لی جائے کہ کیا کسی ریاست کا کوئی سرکاری مذہب ہو نا چاہیے یانہیں۔اس کھلی بحث کے بغیر ہمارے ہاں اس موضوع پر جو کنفیوزن پایا جاتا ہے وہ دور نہیں ہو سکتا۔اور اس طرح ہم عملی طور پر ان حالات سے گزر ر ہے ہیں جن سے مغرب سترویں اور اٹھارویں صد ی میں گزراتھا۔

مغرب میں ریاست سے مذہب کی علیحدگی محض اتفاقی امر نہیں تھا۔ ایسا چرچ اور ریاست کے درمیان طویل لڑائی کے بعد ہی ممکن ہوا۔ طویل مزاحمت کے بعد چرچ نے پسپائی اختیار کی۔ رفتہ رفتہ یہ ایک مسلمہ اصول بن گیا۔ چند استشناؤں کے علاوہ اس اصول کو وسیع پیمانے پر تسلیم کر لیا گیا۔۔ ریاست سے مذہب کی علیحدگی کا اصول اس حد تک پختہ ہو چکا ہے کہ اب اس اصول کی خلاف ورزی آسان نہیں ہے۔ 

اس کے برعکس ہمارے ہاں ریاست سے مذہب کی علیحدگی ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ حالانکہ بر صغیرمیں اس تصور کو بہت پہلے پذیرائی حاصل ہو چکی تھی۔ راجوں مہاراجوں اورمغلیہ دور کے بعض حکمرانوں نے اس کے عملی مظاہرے بھی کیے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تصورات کو دھچکا لگا۔ اور ہمارے سماج میں یہ اصول پورے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟۔ مختلف مکاتب فکر اس سوال کا الگ الگ جواب دیتے ہیں۔

لیکن اس دلیل میں وزن دکھائی دیتا ہے کہ اس حوالے سے سائنس دانوں، دانشوروں ، ادیبوں، اور سیاست دانوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس سوال پر یہ لوگ کم ہمتی اور ڈھل مل یقین کا شکار رہے ہیں۔ ۔ اور اس حوالے سے مغرب کے سائنس دانوں، دانشوروں ، ادیبوں، اور سیاست دانوں کی طرح ایک دیانت دارانہ اور جان دار رول ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مغرب میں ان لوگوں نے جس جرأت اور دلیری سے رجعت پسند قوتوں کے خلاف کھل کر بات کی اس کے بغیر ریاست اور سماج سے چرچ کی گرفت توڑنا آسان نہیں تھا۔

اس حوالے سے ڈارون نے کلیدی کردر ادا کیا۔ اس نابغہ روزگار سائنس دان نے عقیدہ پرستوں کے کھوکھلے تصورات کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔اس نے ایک باقاعدہ شعوری کردار ادا کیا۔ بطور سائنس دان اس نے ایک ایسے دانشور کا کردار ادا کیا جس کا باقاعدہ سیاسی ایجنڈا تھا۔طویل تجربے کے بعد ڈارون اس نتیجے پر پہنچاکے عقیدہ پرستی کے خلاف براہ راست گفتگو اور دلائل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عوام اس سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ لہذا حق اظہار رائے کو پھیلانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کے لوگوں کے شعور میں اضافہ کیا جائے جو سانئس کے علم کو عام کرنے سے ہی ممکن ہے۔

ڈارون کا زمین کو ہلا دینے والا نشونما کا نظریہ اسکی اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔اس حوالے سے ڈارون کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مگر بات ڈارون پر ہی ختم نہیں ہوتی۔مغرب میں سائنس دانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سائنسی علم کو سماجی اور نظریاتی شعور میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔اس اعتبار سے آئینسٹائین نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔اس نے پادریوں کے کھوکھلے دلائل کا بڑی خوبصورتی سے بھانڈا پھوڑا۔ اس نے کہا کے یہ لوگ محض خوف سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔۔

اس طرح نٹشے ، تھامس جیفرسن اور کرٹ وینگٹ اور آرتھر کلارک نے انتہائی طاقت ور دلائل سے پاپائیت کے خلاف طاقت ور دلائل دیے اور پادریوں کے پھیلائے ہو ئے کئی فکری مغالطوں کو صاف کیا۔ اس سلسلے میں برٹرینڈرسل نے حیران کر دینے والی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کیا۔اس نے عقیدہ پرستی اور ظلم کے درمیان موجود تعلق سے پردہ اٹھایا۔اس نے واضح کیا کے عقیدے کی بنیاد خوف ہے۔موت کا خوف، شکست کا خوف اور پر اسرار چیزوں کا خوف۔خوف کی کھوکھ سے ظلم جنم لیتا ہے ۔ اسی لیے ظلم اور عقیدہ پرستی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

مگر یہ صرف مغربی دانشور اور سانئس دان ہی نہیں تھے جنہوں نے یہ شعوری لڑائی لڑی ۔ حقیقت میں مغرب کے سیاسی رہنماؤں نے اس حوالے سے ایک فیصلہ کن کردار دا کیا۔ابراہام لنکن کا نام ان میں سر فہرست ہے۔اس کے دور میں امریکی سماج آج کی نسبت کہیں زیادہ قدامت پسند تھا۔ چرچ کی سماج پر گہری گرفت تھی۔مگر اس شخص نے کمال جرأت سے کام لیتے ہوئے اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بائبل میری کتاب اور عیسائیت میرا عقیدہ نہیں ہے۔اور میں عیسائی عقیدہ پرستوں کی طویل اور پیچیدہ بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

اس قدرقدامت پسند سماج میں عوام کے اس مقبول لیڈر نے اپنی مقبولیت کے زور پر زبردست دراڑیں ڈالیں۔ یہ ریاست کی مذہب سے علیحدگی کی طرف ایک حیرت انگیز چھلانگ تھی۔

۔(جاری ہے)۔