بن لادن داعش کے پھیلاؤ پر پریشان تھے

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو اپنی موت سے کئی ماہ پہلے مسلسل کمزور ہوتی ہوئی القاعدہ اور حریف جہادی گروہ داعش کے پھیلاؤ پر گہری تشویش تھی۔

واشنگٹن سےبیس جنوری کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے نے ابھی حال ہی میں اپنی جو کئی ملین خفیہ دستاویزات آن لائن جاری کیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں نہ صرف اپنے قائم کردہ القاعدہ نیٹ ورک کی مسلسل کمزور پڑتی ہوئی طاقت اور ختم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ پر گہری پریشانی تھی بلکہ تب دنیا کے اس مطلوب ترین دہشت گرد کو اس بات پر بھی شدید تشویش تھی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو جہادی حلقوں میں زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی تھی، جس کی وجہ اس گروپ کی انتہائی خونریز کارروائیاں اور اپنے خود ساختہ مقاصد کے جلد از جلد حصول کے سلسلے میں پائی جانے والی بے صبری تھی۔

اے ایف پی کے مطابق سی آئی اے نے اس مرتبہ جو بے شمار خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں، ان میں بہت سے ایسے کاغذات بھی شامل ہیں، جو امریکی نیوی کے سِیلز کہلانے والے کمانڈوز کو اس خفیہ فوجی آپریشن کے دوران ملے تھے، جس میں انہوں نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔

بن لادن کی موت کی وجہ بننے والا یہ امریکی فوجی آپریشن 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما کے اس رہائشی کمپاؤنڈ پر کیا گیا تھا، جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کئی برسوں سے روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔

سی آئی اے کی دستاویزات کے مطابق بن لادن (فائل فوٹو) کو اپنی موت سے مہینوں قبل کمزور ہوتی ہوئی القاعدہ اور داعش کے پھیلاؤ پر گہری تشویش تھی۔

ان دستاویزات سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی زندگی کے آخر تک اس کوشش میں تھا کہ دنیا بھر میں اپنے جہادی پیروکاروں کو صرف اس ایک اجتماعی مقصد پر مرکوز رکھے کہ انہیں امریکا کے خلاف اپنی جنگ لڑتے رہنا چاہیے۔

انہی امریکی دستاویزات کی روشنی میں یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ بن لادن ایک والد کے طور پر اپنے بیٹوں سے متعلق اس پہلو سے بھی واضح خدشات کا شکار تھا کہ اس کے بیٹوں کے جسموں میں ٹیکوں کی مدد سے مائیکرو چپس لگا کر انہیں کہیں بھی تلاش کیا جا سکتا تھا۔

اسی طرح ایک دستاویز کے مطابق اسامہ بن لادن نے شمالی افریقہ میں ایک بار القاعدہ کے جنگجوؤں کو یہ نصیحت بھی کی تھی کہ ’مشت زنی کرنا ٹھیک‘ ہے۔ مزید یہ کہ بن لادن نے اپنی زندگی کے آخری عرصے میں ایسے امور کا انتظام کرنے میں بھی کافی وقت صرف کیا کہ مثال کے طور پر القاعدہ نیٹ ورک کے اتحادی اور دور دراز کے ملکوں میں فعال شدت پسند گروپوں کے ارکان کو اپنے زیر قبضہ غیر ملکی یرغمالیوں سے کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے۔

ایسے بنیاد پرست جہادی گروپوں میں سے ایک اہم نام بن لادن کے اجداد کے آبائی وطن یمن میں سرگرم وہ طاقت ور گروہ بھی شامل تھا، جس کا نام جزیرہ نما عرب میں القاعدہ ہے۔

بن لادن کی پریشانی یہ تھی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنے جہادیوں کی سفاکی اور بے صبری کی وجہ سے تیزی سے مقبول ہوتی جا رہی تھی

ایبٹ آباد میں بن لادن کی رہائش گاہ سے جو دیگر بہت سی دستاویزات امریکی کمانڈوز کے ہاتھ لگی تھیں، وہ زیادہ تر 2010ء میں لکھی گئی تھیں اور ان میں سے کچھ بن لادن نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی تھیں جبکہ باقی اس کی طرف سے دوسرے لوگوں نے تحریر کی تھیں۔ انہی میں سے ایک دستاویز میں بن لادن نے لکھا تھا، ’’آج مسلم امہ کے دشمن ایک ایسے مکار درخت کی طرح ہیں، جس کا تنا امریکا ہے۔‘‘۔

ایک اور دستاویز میں القاعدہ کے رہنما نے لکھا، ’’کوئی خون نہ بہایا جائے، جب تک اس امر کے شواہد موجود نہ ہوں کہ ہمیں بھی وہی کامیابی مل سکتی ہے، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو مل رہی ہے۔ اگر ان مق‍اصد کے حصول میں مدد واضح ہو، تو (مخالفین یا یرغمالیوں کا) خون بہانا جائز ہے‘‘۔

DW

Comments are closed.