سندھ میں مردم شماری اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی اہمیت

آصف جاوید

سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر ملک بھر میں مردم شماری کا آغاز پندرہ مارچ سنہ 2017 سے ہوگا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں آخری مردم شماری سنہ 1998 میں ہوئی تھی۔ اس طرح اب یہ عمل 19 سال بعد دوبارہ ہوگا۔ اِس بات کا فیصلہ سولہ دسمبر، سنہ 2016ء کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی صدرات منعقد ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ مردم اور خانہ شماری اکٹھی کی جائے گی۔

اِس مرحلے پر اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان میں مردم شماری کا مطالبہ گذشتہ کئی سالوں سے شدّت اختیار کرگیا تھا۔ ماہرین معاشیات، پالیسی سازوں، اور سیاست دانوں کے علاوہ اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کمیٹی نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان میں مردم شماری میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اپنی آبادی کی نسلی ترکیب اور ان کی معاشی و معاشرتی صورتحال کا مکمّل ڈیٹا مہیا کرے تاکہ کمیٹی ان نسلی گروپوں کی صورتحال اور انھیں دی جانے سہولیات کےبارے میں درست معلومات حاصل کرسکے۔

صوبہ سندھ میں بھی مردم شماری کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے صوبائی کابینہ کا اجلاس گذشتہ دنوں منعقد ہوا۔ جس میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے نمائندوں کی جانب سے مردم شماری کے حوالے سے پیش کی گئی تفصیلی بریفنگ کے بعد اجلاس کے ایجنڈے میں شامل دیگر معاملات پر بات چیت کی گئی۔

سندھ سیکریٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں تمام صوبائی وزیر، مشیر، خصوصی مشیر، چیف سیکریٹری، صوبائی پولیس چیف، شماریات کے چیف، نادرا کے نمائندے اور دیگر سینئر سرکاری عہدیداران شامل تھے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبے میں موجود غیر قانونی افغان مہاجرین اور غیر ملکیوں کے سواء دیگر تمام افراد کو مردم شماری کا حصہ بنایا جائے گا، مردم شماری سے اسمبلیوں میں سیاسی نمائندگی، انتخابی حلقوں کی حد بندی، وسائل اور فنڈز کی تقسیم اور وفاقی حکومت میں سول عہدوں پر بھرتی کے کوٹے کے معاملات منسلک ہیں۔

صوبے میں مردم شماری 10 دن کے وقفے کے ساتھ دو مراحل میں ہوگی، پہلے مرحلے کا آغاز 15 مارچ کو ہوگا جس میں کراچی، حیدرآباد، گھوٹکی ، جبکہ دوسرے مرحلے میں صوبے کے باقی تمام اضلاع میں مردم شماری کی جائے گی۔

جاری شیڈول کے مطابق مکانات کی فہرست بنانے کا کام تین روز تک جاری رہے گا جو 15 سے 17 مارچ کے دوران مکمل کیا جائے گا، جس کے بعد فارم ٹو کو بھرنے کا عمل 27 مارچ تک جاری رہے گا، بے گھر افراد کی مردم شماری کا کام ایک روز (28 مارچ) کو مکمل کیا جائے گا، پُر کیے گئے فارمز کی واپسی اور دوسرے مرحلے کیلئے دستاویزات کی فراہمی کا کام 29 اور 30 مارچ کو کیا جائے گا۔ مردم شماری کے نتائج کا اعلان 60 یوم کے اندر کردیا جائے گا۔ مردم شماری کے فارم میں صرف 6 مذاہب اور 10 زبانوں کو شامل کیا گیا ہے۔

سنہ 1972 میں سندھ دیہی اور شہری کی بنیاد پر کی گئی لسّانی تقسیم اور فرزندانِ زمین کو انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کے مقابلے میں 40:60 کے تناسب سے ترجیحی دیہی اور شہری کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد، صوبہ سندھ میں لسّانی نفرتوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ دیہی اور شہری ظالمانہ کوٹہ سسٹم پورے پاکستان میں ، صوبہ سندھ کے علاوہ کہیں نافذ نہیں ہے۔ اِس ظالمانہ کوٹا سسٹم کو نافذ ہوئے 44 سال گزرگئے ہیں۔ اِس کوٹا سسٹم کے نتیجے میں آج صوبہ سندھ کی نوّے فیصد سرکاری ملازمتیں فرزندانِ زمین کے قبضے میں ہیں۔ سندھ سیکریٹیریٹ میں چپراسی سے لے کر چیف سیکریٹری تک کا عہدے پر فرزندانِ زمین کی اجارہ داری ہے۔ جبکہ صوبے میں فرزندانِ زمین کی عددی تعداد پچاس فیصد سے زائد نہیں ہے۔ ۔

اگر صوبہ سندھ میں منصفانہ اور ایماندارانہ مردم شماری ہوجاتی ہے، تو اِس بات کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے 44 سال گزرنے کے بعد تلاشِ روزگار کے لئے پاکستان کے دوسرے صوبوں سے سندھ کے شہری علاقوں(بالخصوص کراچی اور حیدرآباد )میں ہونے والی نقل مکانی ، اربنائزیشن اور ڈیموگرافیکل تبدیلیوں کے نتیجے میں سندھ کی شہری آبادی کو دیہی آبادی کے مقابلے میں ، اس کا جائز حق ملنے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔

اِس ضمن میں سنجیدہ حلقوں کا مشورہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام مردم شماری کے خانے میں اپنی زبان اردو لکھیں، تاکہ اعداد و شمار کی بنیاد پر شہری سندھ سے ناجائز کوٹہ سسٹم کے خاتمے میں مدد ملے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کیا جاسکے، ورنہ یہ سندھی قوم پرستی کا رجحان ایک مرتبہ پھر سندھ شہری کے عوام کے لئے با عزّت زندگی کا حصول جہنّم بنا دے گا۔

کراچی اب صرف مہاجروں کا ہی شہر نہیں، یہاں پٹھان، پنجابی، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی کثیر تعداد میں مستقِل طور پر آباد ہیں۔جن کے رابطے کی زبان اردو ہے۔ اور مہاجروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی سندھی قوم پرستوں کی نفرتوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ سندھ سےلسّانی امتیاز کے خاتمے کے لئے، لسّانی کوٹہ سسٹم کو ختم کیا جائے، اور ہر شہر کی آبادی کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں، وسائل اور ترقّیاتی فنڈز کی تقسیم کی جائے۔ ہر شہر کو یکساں ترقّی دی جائے۔

سنجیدہ حلقوں کا یہ بھی مشورہ ہے کہ جنس، عمر، سماجی ساخت اور سماجی تقسیم کا شماریاتی ڈیٹا مرتّب کیا جائے، تعلیم کا تناسب، پیدائش و اموات، بیماریوں کا تناسب کا ڈیٹا بیس بنایا جائے۔ معاشرتی ساخت کیا ہے؟ صوبہ سندھ کی ترجیحات کیا ہیں؟ صوبے کے وسائل کا تخمینہ کیا ہے؟ صوبے کی آبادی کی ضروریات کیا ہیں؟ مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ سب کے اعداد و شمار کا ڈیٹا اور تخمینہ تیّار کیا جائے۔

منصفانہ اور ایماندارانہ مردم شماری کے نتائج سامنے رکھتے ہوئے نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرکے پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات کی نشستیں از سرِ نو مقرّر کی جائیں ۔ ایک فرد ،ایک ووٹ کے فارمولے کو حقیقی شکل دی جائے۔ نسلی بنیاد پر ترجیحات کے خاتمےکیا جائے۔ اگر صوبہ سندھ کو حقیقی اور منصفانہ ترقّی دینی ہے توسماجی انصاف، انسانی برابری اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی محرومیاں اور نفرتیں ختم کی جا سکتی ہیں۔ دوسرا کوئی علاج نہیں ہے۔ وما علینا الالبلاغ

3 Comments