یورپ :ہوا کا بدلتا رخ

خالد تھتھال

جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد مردانہ آبادی میں کمی، تعمیر نو اور صنعت کے پھیلاؤ کے نتیجے میں یورپ میں مزدووں کی مطوبہ تعداد کو پورا کرنے کیلئے سابقہ نو آبادیوں سے مزدوروں کو در آمد کیا جانے لگا۔ پاکستان، ہندوستان اور دیگر سابقہ مقبوضات سے تعلق رکھنے والے لوگ برطانیہ پہنچے۔ فرانس نے مراکو الجزائر اور دیگرافریقی ممالک سے رجوع کیا۔ جرمنی میں ترکوں کی آمد شروع ہو گئی۔

ان ممالک میں گو مقامی آبادی کبھی بھی صنعتی اور غیر صنعتی شعبوں میں ضرورت کے مطابق کارکن پیدا نہ کر پائی لیکن نئی نئی ایجادات نے جہاں کارکنوں کی ضرورت کو کم کیا وہیں جاپان کی ابھرتی معاشی طاقت کی مصنوعات کی وجہ سے مغربی معاشروں میں روزگار کے مواقع کم ہونا شروع ہو گئے۔

مغرب نے گو اپنے ممالک میں آنے والوں پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں لیکن مہاجرین کی آمد کسی نہ کسی طور جاری رہی۔ جس کیلئے زیادہ تر سیاسی پناہ کو جواز بنایا گیا۔ نیپ پر پابندی لگی تو ہر کوئی نیپ کا کارکن ہونے کی بہانے یورپ میں پناہ تلاش کر رہا تھا۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو احمدی تو در کنار غیر احمدی بھی احمدی چولے کے بھیس میں یورپ جا پہنچے۔ پھر پیپلز پارٹی کے کارکن، اور یہ سلسلہ ہنوز کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

مغربی ممالک میں جوق در جوق وارد ہونے کا عمل صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، شاہ ایران کے فرار اور خمینی کے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بہت سے ایرانی مغرب جا پہنچے۔ صومالیہ والے اپنے ملک کی خانہ جنگی کے بہانے لاکھوں کی تعداد میں مغربی ممالک جا کر مقیم ہوئے۔ تازہ ترین ہجرت شام اور عراق سے ہوئی ہے۔

مغربی ممالک میں جہاں روزگار کے مواقع پہلے سے ہی کم ہیں،جس کے نتیجے میں نسل پرستی نے جنم لیا، وہیں مغرب میں مسلمانوں کے جارحانہ اسلام نے مقامی آبادیوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ اور اس خوف کے پیچھے صرف دہشت گردانہ حملے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کا مقامی آبادیوں میں وہ رویہ بھی ہے جس کی وجہ سے وہ مقامی معاشروں کا حصہ بننے کی بجائے اپنے متوازی معاشرے قائم کر چکے ہیں۔ مزید برآں کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کسی مغربی ملک میں مسلمان مقیم ہیں اس ملک کو اسلامی ملک میں تبدیل کیا جائے۔

تبلیغ جاری ہے، مقامی معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اسلام قبول کروانے کے علاوہ مسلمان اپنی افزائش نسل پر بہت زور دیئے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ مسجد بنانے پر زور ہے۔ اور کئی بار پارکوں، سڑکوں، ایئر پورٹس پر نماز پڑھتے لوگ نظر آتے ہیں۔ اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے شائد نماز پڑھنے کا اپنے ملک میں تکلف کم ہی کیا ہو لیکن مغربی ممالک کی پبلک جگہوں پر انہیں نماز کا عارضہ بڑی شدت سے لاحق ہو جاتا ہے۔

ایک وقت تھا کہ مقامی لوگوں کے نزدیک یہ کوئی قابل اعتراض فعل نہ تھا۔ ہر کسی کو جو مذہب ہے وہ اس پر عمل کرے۔ ایک عام فقرہ سننے کو ملتا تھا کہ دوسرے کے نظریات اور عقائد کی عزت کرو۔ اب مغرب کو اپنی یہ بے اعتنائی اب بہت بھاری پڑ رہی ہے۔

مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی مدد میں چرچ بہت پیش پیش تھا۔ کسی کے پاس رہنے کو جگہ نہیں تو انہیں چرچ جگہ دے دیتا تھا۔ کھانا مل جاتا تھا۔ کرسمس کے موقع پر چرچ کی انتظامیہ کے لوگ ان علاقوں میں جاتے تھے جہاں مہاجرین کی زیادہ تعداد ہوتی تھی اور ان مہاجرین کو کرسمس کے تحائف دیئے جاتے تھے، کن میں چاکلیٹ، بادام و اخروٹ وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی مہاجر کی پناہ کی درخواست نامنظور ہو گئی اور پولیس اسے ملک بدر کرنا چاہ رہی ہوتی تو وہ بندہ چرچ میں پناہ لے لیتا۔

لیکن اب حالات بدل رہے ہیں، جس کا واضح اظہار اٹلی کے آرچ بشپ کارلو لیبراتی نے خطرے کی گھنٹی بجا کے کر دیا ہے۔ کارلو لیبراتی کیتھولک چرچ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اٹلی کے سیاستدانوں اور سیکولر رویوں کی وجہ سے اٹلی عنقریب ایک مسلمان ملک میں تبدیل ہو جائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1970 میں اٹلی میں مقیم مسلمانوں کی تعداد دو ہزار تھی جو 2015 میں بڑھ کر بیس لاکھ ہو چکی ہے۔ پہلی جنوری کو اٹلی میں موجود غیر ملکیوں کی تعداد پچاس لاکھ چودہ ہزار چار سو سینتیس تھی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سال بانوے ہزار تین سو باون افراد کا اضافہ ہوا۔

آرچ بشپ کے نزدیک اٹلی مسلمان پناہ گزینوں کی اہم ترین منزل بن چکی ہے۔ ان کے بیان کردہ اعداد کے مطابق پچھلے دو سالوں میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشائی ممالک سے تین لاکھ تیس ہزار مہاجر اٹلی آئے ہیں۔

یورپی یونین کے پھیلاؤ کی وجہ سے مشرقی یورپ بالخصوص رومانیہ سے آنے والے لوگوں سے بھی آرچ بشپ کو مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم باہر سے آنے والوں کی مدد کرنے میں اس قدر جُت جاتے ہیں کہ اپنے مقامی لوگوں کو بھول جاتے ہیں، جو ان کے بقول کوڑے سے کھانا اٹھا کر کھا رہے ہیں۔

آرچ بشپ کا کہنا ہے کہ میں ایک محتج ( احتجاج کرنے والا) ہوں اور اگر میں آرچ بشپ نہ ہوتا تو باہر چوراہے میں احتجاج کرتا۔ ہم کیوں ایسے لوگوں کو کھانا دے رہے ہیں، جو اس کھانے کو پھینک دیتے ہیں، اپنے موبائلوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں یا دنگا فساد کرتے ہیں۔ آرچ بشپ نے کیتھولک چرچ پر بھی کڑی تنقید کی کہ وہ نئے آنے والے مہاجرین کی مالی مدد کرتے ہیں۔

آرش بشپ کے نزدیک ان لوگوں کی مدد کرنا غلط ہی نہیں بلکہ اخلاقی طور پرنقصان دہ ہے۔ ہم بھکاریوں کا ایسا نیٹ ورک تخلیق کر رہے ہیں جنہوں نے ہماری مدد کا شکریہ ادا کرنا نہیں سیکھا۔ مجھے یاد ہے جب میرے باپ نے آسٹریلیا میں ایک تارک وطن کے طور پر کس قدر محنت کی تاکہ میں اپنی تعلیم حاصل کر سکوں۔ اس غریبی کی لعنت کو برداشت کرتے ہوئے میں نے شکرگزار ہونے جیسی عظیم فضیلت سیکھی۔

Comments are closed.