سوشلسٹ ملک ہونے کا دعویدار لیکن فری ٹریڈ کا حامی

کہنے کو چین اپنے آپ کو ایک سوشلسٹ ملک قرار دیتا ہے لیکن بنیادی طور پر اس کا معاشی نظام بدترین سرمایہ داری نظام پر قائم ہے جہاں مغربی ممالک کے نظام سرمایہ داری کے مقابلے میں انسانی آزادیوں یا آزادئ اظہار رائے  کی کوئی گنجائش نہیں۔

پہلے چینی صدر کے طور پر ڈیوس کے عالمی اقتصادی فورم میں شریک ہونے والے شی جن پنگ نے ممکنہ طور پر آئندہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پیغام میں کہا ہے کہ ’تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہو گا‘۔

امریکہ کے منتخب صدر ٹرمپ کے متنازعہ بیانات سے چین کی قیادت بھی پریشان نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہاپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں  فری ٹریڈ پالیسی کے لیے ڈیوس کے اجلاس میں شرکت کرنا پڑی۔ جبکہ اس سے پہلے چینی قیادت کبھی بھی اس میں شریک نہیں ہوئی تھی۔

چینی صدر شی نے اس فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ملک کی زیادہ بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی خواہش کا پُر زور انداز میں ذکر کیا، ایک ایسے وقت میں، جب امریکا عالمی منظرنامے سے نظریں ہٹا کر ملک کے اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا نظر آتا ہے۔ شی نے دنیا میں آزادانہ تجارت کی بھرپور وکالت کی اور دیگر ممالک کو اپنے مفادات کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے سے خبردار کیا۔ واضح طور پر شی کا اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکا‘ کی پالیسی کی جانب تھا۔

بیس جنوری کو امریکا کے آئندہ صدر کا حلف اٹھانے والے ٹرمپ اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ تجارت کے شعبے میں چین کا زیادہ جارحانہ انداز میں سامنا کریں گے۔ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کے باقی دُنیا کے ساتھ پہلے سے طے شُدہ معاہدوں پر یا تو نئے سرے سے مذاکرات کریں گے یا اُنہیں سرے سے ہی ختم کر دیں گے اور باہر سے درآمدہ مصنوعات پر نئے محصولات لگاتے ہوئے غیر ملکی مقابلہ بازی میں امریکی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔

شی نے اپنے خطاب میں کسی بھی ملک کی جانب سے اپنی مصنوعات کو اس طرح سے تحفظ دینے کی پالیسی کو خود کو ’ایک تاریک کمرے میں بند کر لینے‘ کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس طرح لوگ خود کو خطرے سے تو محفوظ تصور کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ خود کو ’روشنی اور ہوا‘ سے بھی محروم کر لیتے ہیں۔ نائب امریکی صدر جو بائیڈن کی موجودگی میں اپنے تقریباً ایک گھنٹہ طویل خطاب میں شی نے کہا:’’تجارتی جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں ہو گا۔‘‘

شی نے ٹرمپ کی جانب سے بار بار لگائے جانے والے الزام کے جواب میں کہا کہ چین اپنی کرنسی کی قدر و قیمت کو کم کرتے ہوئے اپنی تجارتی مقابلہ بازی کو بہتر نہیں بنائے گا۔ ساتھ ہی شی نے گزشتہ سال پیرس میں تاریخی ماحولیاتی سمجھوتے پر دستخط کرنے والے تمام ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ اُس سمجھوتے پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے اس سمجھوتے کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ امریکا اس سمجھوتے سے الگ بھی ہو سکتا ہے۔

نیوز ایجنسی رائٹرز کے ایک جائزے کے مطابق ایک ایسے وقت میں، جب ٹرمپ امریکی مفادات پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور یورپ بریگزٹ سے لے کر مسلمان انتہا پسندوں کی کارروائیوں تک دیگر کئی چیلنجوں سے نمٹنے میں مصروف ہے، ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، جسے چین پُر کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ایک بڑا چینی وفد داووس میں شرکت کر رہا ہے۔

اس سے پہلے ورلڈ اکنامک فورم یا عالمی اقتصادی فورم کے بانی اور چیئرمین کلاؤس شواب نے شی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ بے یقینی اور عدم استحکام سے عبارت اِس دَور میں دُنیا کی نظریں چین پر لگی ہوئی ہیں۔

ڈیوس میں شریک عالمی رہنماؤں نے شی کی تقریر پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ سویڈن کے سابق وزیر اعظم کارل بِلٹ نے کہا:’’جہاں تک عالمی اقتصادی قیادت کی بات ہے، بلاشبہ ایک خلا موجود ہے اور شی واضح طور پر اُس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کسی حد تک کامیابی کے ساتھ‘‘۔

سوئٹزرلینڈ کے پہاڑی سلسلے ایلپس کے شہر داووس میں اپنی نوعیت کا سینتالیس واں اجتماع سترہ جنوری منگل کے روز سے شروع ہوا ہے اور بیس جنوری جمعے تک جاری رہے گا۔ اس سالانہ اجتماع میں دنیا بھر سے چوٹی کے سیاستدان، کاروباری اور صنعتی اداروں کے سربراہ اور بینکار شرکت کرتے ہیں۔

DW/News Desk

Comments are closed.