سی پیک کے خلاف سازش کون کر رہا ہے

علی احمد جان

جب سے انسپکٹر جنرل پولیس گلگت بلتستان کی ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے حوالے سے یہ خبر آئی ہے کہ ضلع غذر میں دہشت گرد پکڑے گئے ہیں اور اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے تو میری طرح وطن سے دور رہنے والوں کی تشویش میں اضافہ ہواہے ۔ حالیہ دنوں میں غذر میں داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروپ کی کاروائیوں کے خطرے کی گھنٹی کی آواز ابھی مدھم بھی نہیں ہوئی تھی کہ بالاورستان نیشنل فرنٹ نام کی تنظیم کی سی پیک کے خلاف سازش کے انکشاف نے تو ہمارا خون ہی خشک کردیا۔

چونکہ اس طرح کی ایک کاروائی پچھلے دنوں بھی ہو چکی تھی اور اس کی خبریں بھی اسی طرح پہنچی تھیں ، ہنگای پریس کانفرنس، مبارکباد اور کاروائی میں شریک پولیس افسران کو ترقیاں اور انعامات وغیرہ وغیرہ تو ابھی اس نئی خبر پر تو دل بیٹھ ہی گیا۔ خبر کو غور سے پڑھا تو شک سا ہوا کہ پرانی خبر کو ہی دہرایا جا رہا ہے ادھر ادھر ٹٹولا تو صحافت سے وابستہ احباب بھی مجھ سے متفق پائے گئے کہ پرانی خبر کو پھر سے خبر بنایا گیاہے۔

کراچی ، اسلام آباد اور دیگر شہروں کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی دوست احباب پوچھنے لگے کہ ماجرا کیا ہے۔ پوچھنے والوں کا بنیادی سوال یہ تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اسلحے کا انبار لگا ہو وہاں چار کلاشنکوف، دو شارٹ گن اور ایک سیون ایم ایم کی بندوق سے سی پیک کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے جس کی حفاظت پاکستان کی افواج کر رہی ہوں ؟ سی پیک تو قراقرم ہائی وے سے گزر کر جنوب مغرب کی طرف جارہا ہے جب کہ یاسین کا علاقہ جہاں سے یہ اسلحہ براآمد ہوا ہے شمال کی جانب پامیر کی سرحد پر واقع ہے، کیسے سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنا نے میں موثر ہو سکتا ہے؟ سب سے نمایاں جو سوال تھا کہ بالاورستان نیشنل فرنٹ تو اسی کی دہائی سے کام کر رہی ہے جبکہ سی پیک تو ابھی شروع ہوا ہے تو کیسے ایک تنظیم نے بیس سال پہلے اس کے خلاف سازش کی؟

میں بذات خود کبھی تنگ نظر قوم پرستوں کا حامی نہیں رہا ، مذہبی عصبیت سے دور ہوں اور کسی انقلاب کے نام پر جذباتیت کا شکار بھی نہیں رہا ہوں لیکن قوم پرستی ، مذہبی عصبیت اور انقلابی نظریات رکھنے والوں کو غدار اور ملک دشمن بنا کر پیش کرنے کا بھی حامی نہیں ہوں اور اس کو بھی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف سمجھتا ہوں کہ کسی کو صفائی کا موقع دیے بغیر اس کے خلاف بہتان تراشی کی جائے۔

سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے اگر اپنی ذاتی خوہشات کی تکمیل اور اپنے من پسند افراد کو نوازنے کے لئے عوام کی انکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں تو اس سے ریاست اور شہریوں کے درمیان دوری ہوگی اور ملک کا دفاع کمزور ہوگا۔ میں پاکستان کی سول سروس کو ابھی تک دنیا کی بہترین سروسز میں سے ایک سمجھتا ہوں میرے نزدیک جو لوگ مقابلے کا امتحان پاس کرکے آتے ہیں وہ کم از کم ترقیاں پا کر آنے والوں اور سفارشی بھرتی ہونے والے افسران سے زیادہ لائق فائق ہی نہیں ہوتے بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور انتظامی امور کے معیار کو برقرار رکھنے میں بھی مشاق ہوتے ہیں۔

ایسے کسی افسر سے اس طرح کی پریس کانفرنس کی توقع نہیں کی جاسکتی جس میں دو مہینے پرانی ایسی بات پھر دہرائی جائے جس (واقعہ) میں گرفتار لوگ ضمانت پر رہا بھی ہو چکے ہوں اور کچھ گرفتار ہی نہ ہوئے ہوں۔ اگر ایسی پریس کانفرنس کچھ مقامی بہی خواہوں کی خوشنودی کے لئے نہیں کی گئی ہے تو اس کے مقاصد سے بھی آگاہ کیا جائے کہ ایک ہی واقعہ کی تشہیر کے لئے دو بار پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

غذر کے ضلع میں مشرف کے حکم پر پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ ہتھیار مقامی تھانوں میں جمع کروادیا گیاتھا جو اس بات کا مظہر ہے کہ یہاں کے لوگ کتنے پرامن شہری ہیں۔ آئی جی صاحب اگر دیکھنا چاہیں تو معلوم ہوگا کہ بشمول ان اضلاع کے جہاں سے سی پیک نے گزرنا ہے کے ایک ایک گھر میں اس سے کہیں زیادہ اسلحہ ہر وقت موجود ہوتا ہے جس کو وہ پریس کانفرنس میں دکھا کر اس عظیم منصوبے کے لئے خطرناک قرار دے رہے تھے۔

آئی جی صاحب کو شائدیہ بھی معلوم ہوگا کہ بعض علاقے ایسے بھی جہاں جانے پہچانے دہشت گرد اور مفرور رہتے ہیں مگر وہاں پولیس نہیں جا سکتی ۔ آئی جی صاحب کو تو معلوم ہی ہوگا بالاورستان کے سربراہ نے پیسے کن میں تقسیم کئے ہیں ۔ تو جناب پیسے لینے والوں کی پوری لسٹ کیوں نہیں شائع کر دی جاتی ہے؟ میں کسی ایسے شخص کی حمایت نہیں کر سکتا جس نے اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں ہندوستان یا بیلجئم سے لاکر پیسے تقسیم کیے ہوں اور اس کی قیمت غریب عوم چکائیں اس لئے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے نام شائع کئے جائیں جو ان کی کرم نوازی سے مستفید ہوئے ہوں۔

میں بذات خود جنگ سے نفرت کرتا ہوں لیکن چونکہ پاکستان اور ہندوستان کی مخاصمت میں ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کے عوام کو غدار قرار دیا جارہا ہے تو پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی معلومات کے اضافے کے لئے یہ بھی بتانا شائد مفید ہو کہ کارگل کے معرکے میں سب سے زیادہ بیٹے قربان کرکے اس ضلع نے وادی شہدا ء کا خطاب پایا اور گلگت سے چترال جانے والی سڑک پر لہلاتے پرچم اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔

کارگل میں اپنی جان کا نذرانہ دینے والوں میں گلگت بلتستان کے پہلے پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز پانے والےشہید حولدار لالک جان کا تعلق بھی اس یاسین کے علاقے سے ہے جس کے بارے میں بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ وہاں دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ آج بھی اس وادی کے بیٹے پاکستان کی فوج میں شامل ہوکر قبائلی علاقوں اور دیگر محازوں میں اپنے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔

شائد یہ خبریں پاکستان میں رہنے والوں تک نہیں پہنچتی ہوں کہ ایک علاقہ ایسابھی ہے جہاں جب شہید ہونے والوں کی لاشیں آتی ہیں تو مائیں روتی نہیں اور بہنیں فخر سے کہتی ہیں کہ میں ایک شہید کی بہن ہوں، بھائی اپنے دیگر دوستوں کیساتھ مل کر بینڈ باجے پر شہید ہونے والے اپنے بھائی کو سلامی دیتے ہیں اس کے بوڑھے ماں باپ شہید کی لاش پر آنسو بہانا گناہ سمجھتے ہیں۔ اور یہ علاقہ گلگت بلتستان میں ضلع غذر ہے۔

میڈیا پر اس خبر کو دکھانے کے لئے حکومت پاکستان کے اعلیٰ عہدیداران کا بار بار کانفرنس کرکے لوگوں کااعتبار خبر کی سچائی پر سے ختم کرواداینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں رہنے والے تو شائد اس خبر پر اعتبار کرلیں لیکن مقامی لوگ جہاں اس واقعہ کا ہونا بیان کیا جاتا ہے بخوبی جانتے ہیں کہ پرانی خبر کی بار بار تشہیر کی جارہی ہے ۔

کیا حکومتی عہدیداروں کے ریاستی امور میں اس طرح کی باتیں پھیلانے سے شہریوں اور ریاست کے بیچ اعتماد کے فقدان کا باعث نہیں ہوگا؟ کہیں ہم انجانے میں اس سازش کا شکار تو نہیں ہورہے ہیں جس کا مقصد عوام اور ریاست کے درمیان خلا ء پیدا کرنا ہے؟ کہیں ہم اس سازش کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں جس کا مقصد عوام کے بیچ تعصب پھیلا نا ہے ؟ غور ضرور کیجئے گا۔

Comments are closed.