چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

آصف جاوید

قارئین اکرام، گذشتہ سال جب گیارہ اگست، سنہ 2016 ء کو قومی اسمبلی سے متنازع سائبر کرائم بل منظور ہوا تھا تو اس دن میں نے اخبارات کے لئے اپنے کالم میں اِن خدشات کا اظہار کیا تھا کہ قارئین میری یہ بات یاد رکھیں کہ یہ قانون پاکستان میں سائبر مارشل لاء کی راہ پر پہلا قدم ہے۔

اِس قانون میں اتنا ابہام ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی تبصرہ، تنقید، ریاست کے خلاف جرم تصوّر کیا جائے گا۔ بلا جواز گرفتاریاں، قید و بند عوام کا مقدّر بن جائیں گی۔ اظہارِ رائے کی آزادی ایک جرم بن جائے گا۔ فکری آزادی ناپید ہوجائے گی۔ آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے پر پورا ملک پاگل خانے میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہ قانون انسانی حقوق کی توہین ہے، یہ کالا قانون ہے۔ ریاست کی ایماء پر حکومت اس بل کے ذریعے سوشل میڈیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ اس سے شہریوں کا فیس بک یا ٹویٹر پر اپنی مرضی سے مواد شیئر کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔

سائبر کرائم کنٹرول بل 2015 کے نفاذ کے بعد انٹرنیٹ پر سیاسی تنقید کرنا اب جرم تصور کیا جائے گا، جو کہ نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کے منافی ہے، بلکہ اس سے الیکٹرانک میڈیا کی صحافتی آزادی پر بھی قدغن لگائی جا رہی ہے۔یہ بل انٹرنیٹ کے صارفین، آئی ٹی کی صنعت اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے ایک بھیانک قانون ہو گا۔

سائبر کرائم کنٹرول بل 2015 شہریوں کے مقابلے میں ریاست کو زیادہ مضبوط کر رہا ہے، جبکہ شہریوں کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات میں اضافہ تو کیا جا رہا ہے، مگر اس قانون سازی کے نتیجے میں انھیں اگر استثنیٰ مل جاتا ہے تو یہ مجوزہ سائبر کرائم بل کی روح کے منافی ہے۔ بل کی شق 34 کے تحت پا کستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ جو مواد اسے غیر مناسب لگے وہ اس کو پاکستانی صارفین کے انٹرنیٹ سے ہٹا سکتی ہے۔

اس بل کے تحت کسی کی رضامندی کے بغیر کسی کو ٹیکسٹ میسیج بھیجنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کو جرمانے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی جاسکے گی۔ بل مبہم ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ عدالت کا کیا اختیار ہے؟ اور تحقیقاتی اہلکاروں کے پاس کیا اختیارات ہوں گے ؟۔ ملزم کے کمپیوٹر یا انٹرٹیٹ ڈیوائسز سے معلومات جمع کرنے کا اختیار کہیں عدالت کو دیا جا رہا ہے تو کہیں تحقیقاتی افسر کو۔ اس لیے مجھے اس بل میں کافی خامیاں نظر آرہی ہیں۔

اسلام، پاکستان، ملکی سلامتی، دفاع اور بین الاقوامی تعلقات کو بنیاد بنا کر (جن کی واضح تعریف یا حدود متعین نہیں) کسی بھی قسم کا مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے اختیارات ایک ریگولیٹری اتھارٹی کو سپرد کرنا ، شیئر کرنے والے کے خلاف ریاستی قانون کے تحت کارروائی معصوم شہریوں کو خونخوار درندوں کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس قانون میں پاکستان اور ملکی سلامتی کی سرکاری تعریف سے انحراف کرنے والوں کی زباں بندی کا ایک حربہ بننے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں ابلاغ عامہ کے ذرائع ملک کے طاقتور حلقوں خصوصاً سیکیورٹی اداروں کے غیر مرئی کنٹرول میں ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ کس طرح پاکستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے اپنے مخالفین اور ناقدین کی زبان بند کی جاتی ہے ، اور یہ سب کچھ جب کسی بھی قانون کی غیر موجودگی میں ہو تا رہا ہے، تو سوچئےایک قانون کی موجودگی میں کیا کچھ ممکن نہیں ہے۔

ملکی سلامتی کے اداروں، بین الاقوامی تعلقات، عدلیہ اور مذہب پر سوشل میڈیا کے ذریعے تنقید کو قابل تعزیر قرار دیا جانا، آزادی اظہار رائے کے آئینی حق اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سائبر کرائم بل کی منظوری کے بعد یہ قانون یقیناً ہمارے سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک ایسا حربہ اور ہتھیار بنے گا جو ان کے نقطہ نظر کے خلاف بولنے والوں کی زباں بندی کے لیے بڑی بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔ یہ قانون پاکستان میں سائبر مارشل لاء کی راہ پر پہلا قدم ہے۔

سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان میں سائبر مارشل لاء نافذ ہوچکا ہے۔ اب تک نو افراد کے اغوا، گرفتار اور لا پتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی مقبول عام پیجز کو بلاک یا بند کیا جاچکا ہے، کئی ایک پروگریسِو ویب پیجز گذشتہ تین روز سے مسلسل خاموش ہیں ۔ مبیّنہ طور ریاستی اداروں کی جانب سے بنائے جانے والے سائبر کرائم کنٹرول اینڈ مانیٹرنگ ونگ نے کچھ پیجز اور بلاگ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ ایلیٹ سائبر فورس کے نام سے فیس بُک پیج بھینسا پر ایک انتباہی پیغام بھی درج کیا جاچکا ہے۔

سوشل میڈیا بلاگرز سلمان حیدر، عاصم سعید اور وقاص گورایا پر ہاتھ ڈال کر عوام کو یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر سماجی انصاف ، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا نا جرم ہے۔ مظلوم انسانوں کا ساتھ دینا، لا پتہ افراد کے حق میں بولنا، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کرنا ، شورش زدہ علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو سامنے لانا، ریاستی ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، انتہاپسند قوتوں کے مظالم اور چیرہ دستیوں کو افشا کرنا، بالادست قوتوں اور نام نہاد مقتدر قوتوں کی منافقت ، غلط پالیسیوں اور ریاستی ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھا نا، حکمران طبقات کی بدعنوانیوں ، لوٹ کھسوٹ، اور غلط طرز حکمرانی کو بے نقاب کرنا جرم ہے۔ سچ بولنا، سچ لکھنا جرم ہے۔

لہٰذ اگر آپ زندگی چاہتے ہیں توآپ سچ لکھنا چھوڑ دیجئے اور مقتدر حلقوں کی ہاں میں ہاں ملایئے۔ ریاستی بیانیہ کو اپنا قبلہ و کعبہ بنائیے۔ ہر قسم کے ریاستی بیانئیے کی مخالفت سے دور رہیئے اور اپنی حفاظت کو یقینی بنایئے۔ ورنہ انجام کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔ فیض نے اس ہی موقع کے لئے کہا تھا کہ

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

ریاست سے بین السطور گذارش:ـ ماورائے عدالت قتل کی طرح ماورائے عدالت اغوا بھی ماورائے آئین جرم ہے۔ ریاستی ادارے ریاست کے تقدّس کو پامال نہ کریں۔ غائب شدہ سوشل میڈیا بلاگرز کو ملکِ عدم پہنچانے کی بجائے ملکِ پاکستان کی کسی عدالت کے سپرد کردیں۔ جب سائبر کرائمز کنٹرول کا یکطرفہ قانون بھی موجود ہے تو پھر پریشانی کس بات کی۔ یقین رکھیں ، جیت ریاست کی ہی ہوگی۔ کوئی سر اٹھا کر نہیں چلے گا۔ سب نظر بچا کر اور جسم و جاں بچا کر چلیں گے۔ ایک بار کر کے تو دیکھیں۔

Comments are closed.