ڈاکٹر عبدالسّلام، کائنات کی بنیادی قوّتیں، ذرّہِ خدائی ۔ دوسرا حصہ

آصف جاوید

قارئین اکرام ، اپنے پچھلے مضمون میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ بیسویں صدّی کے نامور مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالسّلام، جو کہ بنیادی طور پر ریاضی اور نظری طبعیات کے جیّد عالم و محقّق تھے، در اصل کائنات کی اساسی قوّتوں کی یکجائی(بمعنی وحدت)اور گاڈ پارٹیکل (ذرّہِ خدائی) کی تلاش کے لئے ، کئے گئے سائنسی کام کے سلسلے کی ایک اہم کڑی تھے۔

دنیا ئے سائنس جب بھی گلیلیو، نیوٹن، فیراڈے، میکسویل، اور آئن اسٹائن ، پیٹر ہگس، اسٹیفن ہاکنگز کا ذکر کرے گی، ڈاکٹر عبدالسّلام کا ذکر لازمی کرے گی۔ کیونکہ ڈاکٹر عبدالسّلام نے کائنات کی ماہیت اور اسرار و رموز کو سمجھنے کے ایک ہزار سال پہلے البیرونی سے شروع کئے ہوئے کام میں گیلیلیو، نیوٹن ، فیراڈے، ایمپیئر، میکسویل، آئن اسٹائن اور پیٹر ہگز کے بعد دنیائے سائنس کو اپنی تحقیق سے ایک بریک تھرُو دیا تھا، جس پر ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالسّلام کے بعد نظری طبعیاتی سائنس کی دنیا میں دوسرا بریک تھرُو گاڈ پارٹیکل (ذرّہِ خدائی ) ہگز بوسن کی دریافت ہے، جو کہ سنہ 2012 ء جولائی میں سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدانوں کے تجربات کے نتیجے میں دریافت ہوا۔ جہاں انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کو تلاش کیا جارہا تھا، جسے ہگزبوسن یا خدائی ذرّہ کہا جاتا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے 4جولائی سنہ 2012ء کو ہگز بوسن یا ’گاڈ پارٹیكل‘ذرّے کی دریافت کا دعویٰ کیا ہے۔ ہگز بوسن وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس سےیہ واضح ہو سکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے۔

ہگز بوسان نامی ذرّے کے وجود کی تصدیق (بمعنی پیش گوئی)، ڈاکٹر عبدالسّلام نے اپنی تحقیق میں ریاضی کے پیچیدہ مساواتوں کے حسابی عمل کے ذریعےاُس سٹینڈرڈ ماڈل میں بیان کردی تھی، جو ایک خصوصی سائنسی نظرئیے کے ذریعے تشکیل پایا تھا، جس میں کمزور نیوکلیائی قوّت اور برقی مقناطیسی قوّت کی یکجائی ثابت کی گئی تھی، اس ماڈل میں کمیت گزار ذرّے ہگز بوسن کی پیشگوئی شامل تھی۔

آب آتے ہیں کہ کائنات کی چار بنیادی قوّتیں ، دراصل کیا ہیں؟، ان کی ماہیت اور کیفیت کیاہے؟ میں سادہ زبان میں اس کو اپنے قارئین کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

کائنات میں چار بنیادی قوّتین ظہور فرما ہیں۔ جن میں سے دو قوّتوں سے تو ہمارے اسکول کے طالبعلم بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ قوّتیں عام فہم اور نصاب کا حصّہ ہیں۔ پہلی قوّت ہے تجاذبی قوّت یا ثقلی قوّت، جسے نیوٹن نےثابت کیا تھا کہ سیب زمین پر ہی کیوں گرتا ہے؟۔ دوسری قوّت ہے برقی مقناطیسی قوّت، جس کا ہماری عام زندگی میں مشاہدہ تقریباہر اُس الیکٹریکل اپلائنس کے ذریعے ہوتا ہے جس میں برقی موٹر لگی ہو۔ بس ذرا کمزور نیوکلیائی قوّت اور طاقتور نیوکلیائی قوّت کا سمجھنا پیچیدہ ہے، مگر اب تو ہمارے انجینئرنگ کے طلباء ان دونوں قوّتوں کو اپنے نصاب میں کافی زمانے سے پڑھ اور سمجھ رہے ہیں۔

طاقتور نیوکلیائی قوت ایک حکمراں وفاقی قوّت ہے، جیسے وفاق صوبوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، بالکل اُس ہی طرح طاقتور نیوکلیائی قوت ایٹم کے مرکزہ میں موجود نیوٹران اور پروٹان کو باہم جوڑ کررکھتی ہے اور انہیں الگ الگ ہوکر مرکزہ کو بَھک سے اُڑ جانے سے روکے رکھتی ہے۔ وہ ذرہ جس کی مدد سے طاقتور نیوکلیائی قوت ایٹم کے مرکزہ میں موجود نیوٹران اور پروٹران پر اثر انداز ہوکر انہیں الگ الگ ہونے سے روکتی ہے میسن یا پائن کہلاتا ہے۔

اس کائنات کی دوسری قوت کو آپ کمزور نیوکلیائی قوت کے بدقسمت نام سے پکارتے ہیں جو بنیادی طور پر دھاتوں کے زوال یا ریڈیوایکٹو انحطاط کا باعث بنتی ہے جسے سادہ الفاظ میں آپ دھاتوں یا مادے کا گلنا سڑنا کہہ سکتے ہیں۔ کمزور قوت کی رینج ایٹم کے مرکزہ میں موجود نیوٹران کے محیط (ایٹم کے نیوکلیئس کے گرد خول)تک محدود ہوتی ہے جو ریڈیوایکٹوانحطاط کے دوران مذکورہ نیوٹران کو الیکٹران، پروٹران اوراینٹی نیوٹرینو جیسے ذرات میں تقسیم کردیتی ہے۔ اس عمل کے دوران نئے وجود میں آنے والے الیکٹران اور اینٹی نیوٹرینو ، مرکزہ سے فرار ہوجاتے ہیں۔ کمزور نیوکلائی قوت جن ذرات کے ذریعے مرکزےمیں موجود نیوٹران پر اثرانداز ہوکر ریڈیوایکٹو انحطاط کا باعث بنتی ہے انہیں ڈبلیو اور زیڈ باسن کہتے ہیں۔

اوپر ہم نے بتا ہی دیا ہے کہ برقی مقناطیسی قوّت ہمارے لئے بالکل بھی اجنبی نہیں ہے۔ یہ اس کائنات کی ایک جابر قوّت ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ قوت ایٹم یا جوہر میں موجود الیکٹران اور مرکزہ کے مابین باہمی عمل کے ذریعے سے اپنے طاقتور وجود کا اظہار کرتی ہے۔ اس کی رینج لامتناہی ہوتی ہے یعنی روشنی کی رفتار سے حرکت کرتی ہوئی اس نیوکلیائی قوت کی رسائی کائنات کے دوردراز کے کونوں سے جڑی ہوئی ہے۔

بنیادی طور پر برقی مقناطیسی نیوکلیائی قوت مختلف توانائیوں کی حامل شعاؤں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔جنہیں مختلف لمبائیاں رکھنے والی موجوں یا فرینکیونسیوں کی نسبت سے بیان کیا جاتا ہے۔ نظرآنے والی روشنی برقی مقناطیسی نیوکلیائی قوت کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہے۔ ریڈیوویو، مائیکروویو، انفراریڈ، الٹراوائیلیٹ ویو، ایکس ریز اور گاما ریز نظرآنے والی روشنی کے ساتھ ملکر برقی مقناطیسی نیوکلیائی قوّت کی شعاؤں کے مجموعے کی تکمیل کرتی ہیں۔ برقی مقناطیسی نیوکلائی قوت فوٹون جیسے ذرے اور موجوں کے ذریعے اپنی طاقت اور رسائی کا اظہار کرتی ہے۔

آخر میں ہم مختصراتجاذبی قوّت یا ثقلی قوّت کا حال بھی بیان کردیتے ہیں۔ کائیات کی چوتھی قوّت کششِ ثقل کو دریافت کرنے کا کریڈٹ نیوٹن کو جاتا ہے۔ کشش ثقل نے اس کائنات میں موجود تمام اجسام کوایک طرح سے ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ آئین سٹائن نے اپنے مشہور زمانہ نظریہ اضافیت میں کشش ثقل کی جن لہروں کی پشین گوئی کی تھی انہیں بھی پچھلے دنوں سائینسی طور پر دریافت کرلیا گیا ہے۔

کشش ثقل جن ذرات کے ذریعے اس پوری کائنات میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھے ہوئے ہے انہیں گریویٹونز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یاد رہے ایک جوہر یا ایٹم مرکزہ اور الیکٹرانز پر مشتمل ہوتا ہے مرکزہ میں نیوٹران اور پروٹران کی تشکیل کرنے والے ذرات کورکز کہلاتے ہیں اور الیکٹران اور انکے مخالف چارج رکھنے والے نیوٹرینو ذرات کے جس خاندان کی تشکیل کرتے ہیں انہیں لیپ ٹان کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں دریافت ہونے والی ہگزباسن فیلڈ اور اس سے جڑے ہگزباسن ذرات ہمارے چاروں جانب موجود ہیں اور کائنات کی بنیادی قوتوں کو کمیت فراہم کرکے مادی اجسام بنانے میں ہرپل جتے رہتے ہیں۔ ہگزباسن کو آپ ایک ایسی دہلیز سمجھ لیجیے جس سے گزر کر کائنات کی قوتیں مادّی اجسام، مادّہ یا کمیت حاصل کرتی ہیں۔ ہماری خلا کے غالب حصہ پر ڈارک مادّہ اور تاریک توانائی کا قبضہ ہے جن کی حتمی نوعیت جاننے کے لیے ڈاکٹر عبدالسّلام جیسے سائنس دان اپنے کام میں جُتے ہو ئے ہیں۔

اگلے مضمون میں ہم گاڈ پارٹیکل یعنی ذرّہِ خدائی کا احوال بیان کریں گے۔ آپ کے تبصروں کا انتظار رہے گا۔

حوالہ جات:۔

سائنس کی دنیا آن لائن میگزین کے متفرّق مضامین

پاکستان کے نامور سائنسدانوں کی ادبی خدمات از عمران اختر

رموزِ فطرت از زکریا ورک

سلام! عبدالسّلام از زکریا ورک

 

3 Comments