قتل اور رسم و رواج۔۔

بیرسٹر حمید باشانی

پاکستان میں گزشتہ سال غیرت کے نام پر قتل ہونے وال عورتوں کے بارے میں رپورٹ سامنے آئی ہے۔۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016 میں پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو روکنے کے لیے سخت ترین قانون سازی کے باوجود اس جرم میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک المناک رپورٹ ہے ۔ مگر پاکستان کے لوگ ایسی المناک خبروں کے عادی ہیں۔ بلکہ ایک بڑ ی اکثریت نہ اسے المناک مانتی ہے اور نہ ہی خبر۔ ان کے خیال میں یہ ایک عام سی بات ہے۔۔

بہر حال اس رپورٹ میں صرف وہ قتل شامل ہیں جو رپورٹ ہوئے یامنظر عام پر آئے۔ عموماً ایسے کئی قتل سامنے ہی نہیں آتے۔ اکثر اوقات ایسے واقعات کو بیماری ،حادثے یاخودکشی کا رنگ دے کر دبا دیا جاتاہے۔ اس طرح پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل سامنے آنے والے اعدادد و شمار سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ تعداد کی توبحث ہی غیر متعلق ہے۔اصل چیز اس جرم کی نوعیت اور سنگینی ہے۔ تاریخ انسانی میں اس سے زیادہ گھناونہ جرم شاید ہی کوئی اور ہو۔یہ جرم پاکستان میں کثرت سے ہوتا ہے۔ 

مگر یہاں اس جرم سے زیادہ افسوسناک بات اس جرم پر ہونا والا رد عمل ہے۔انسان حیرت اور صدمے سے سوچتا ہے کہ یہاں اکیسویں صدی میں بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجودہیں جو یا تو اس قتل کو جرم ہی نہیں مانتے یا پھرکسی نہ کسی طریقے سے اس کا جواز ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے فاتر العقل لوگ اس وحشیانہ عمل کوجن بنیادوں پر جائز قرار دیتے ہیں ان میں رسم و رواج اور روایات سر فہرست ہیں۔

وہ بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ ہماری روایات ہیں۔ یہ عمل در اصل جاہلانہ رسومات اور وحشیانہ رواجوں کو روایات قرار دیکر تحفظ فراہم کرنے ک ایک کو شش ہو ت ہے۔ وحشت و بربریت سے تہذیب و تمدن تک کاا انسانی سفر بڑا طویل اور پیچیدہ ہے۔یہ سفر صدیوں پر محیط ہے ۔ اس طویل سفر کے دوران انسان نے طرح طرح کے رسم و رواج اور روایات کو اپنایا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ترک بھی کیا۔غاروں کی زندگی اور رسم و رواج سے لے کر جدیدڈیجیٹل دور تک۔ انسان نے رفتہ رفتہ تہذیب سیکھی۔جو رسم و رواج اور روایات غیر اخلاقی اور غیر مہذب تھیں ان سے چھٹکارہ حاصل کیا۔

کوئی ایسی رسم، ایسی روایت جس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہ ہواس کو قائم رکھنا یا اس پر اصرار کرنا دراصل اپنی وحشت پر اصرار کے مترادف ہے۔غیرت کے نام پر قتل کا کچھ لوگ مذہبی جواز بھی مہیا کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ بہت سارے معاملات میں غیر انسانی رسم و رواج اور مذہب کو آپس میں اس طرح گڈ مڈ کر د یاکہ یہ رسم رواج مذہب کے حصہ لگتے ہیں۔خصوصاً عربوں کے اندر ابھی تک زمانہ جہالت کی کئی ایک قبائلی رسومات مروج ہیں۔ہمارے لوگ ان رسومات کو بھی مذہب سمجھتے ہیں۔ 

کچھ لوگ غیرت کے نام پر قتل کویہ کہہ کر تخفظ دیتے ہیں کے ایسا دوسرے ممالک میں بھی ہوتاہے۔اور اس سلسلے میں وہ ایسے ایسے ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جو معاشی اور سماجی طور پر پسماندگی کی انتہاوں پر ہیں۔تہذیبی ترقی کے سفر میں وہ ابھی تک پندرویں صدی میں کھڑے ہیں۔ جہاں ابھی تک وحشت ننگا ناچ ناچتی ہے۔جہاں پانی کی طرح انسانی خون بہایا جا تا ہے۔جہاں کسی قسم کی کوئی اخلاقی قدریں موجود نہیں۔جہاں کوئی ادارے نہیں ، انصاف اور قانون نہیں۔جہاں ابھی تک جنگل کا راج ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھنیس کے قانون کے تحت جس کے پاس اسلحہ اور افرادی قوت ہے وہ سب کچھ ہے۔ جہاں بچے بھوک اور بیماریوں سے مرتے ہیں۔ جہاں انسانیت سڑکوں پر سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ صدیوں پرانی قبائلی جنگ جاری ہے۔جس کو وہ اسلامی روایات اور پتہ نہیں کس کس کے نام پر لڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک اپنے بچوں کو پیٹ بھرنے اور تن ڈھاپنے کے قابل نہیں۔جیسے صومالیہ وغیرہ۔ 

یہ وہ لوگ ہیں ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کو جائز قرار یدتے ہیں اور ہمارے نام نہاد دانشور ہمیں ان کی تقلید کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ غیرت کا نام پر ہونے والے قتل کے براہ راست ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو ایسی وارداتوں پر پر اسرار خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں ۔۔ یہ لوگ یا تو ایسے واقعات پر خاموش رہتے ہیں یا پھر بے دلی سے سرسری انداز میں اس پر بات کر لیتے ہیں۔حقیقت میں ان لوگوں کی بڑی اکثریت ایسے قتل کی دل سے حامی ہے۔

گزشتہ سال پاکستان میں اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی ایک انتہائی احسن اور قابل تعریف قدم تھا۔مگر ایسے قتل صرف سخت قانون بناے سے نہیں رک سکتے اس کے لیے پاکستانی مرد کا مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔۔اور یہ مائنڈ سیٹ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں بنیادی تبدیل کے بغیر ممکن نہیں۔

Comments are closed.