کیا ترکی میں سیکولر اور مذہبی قوتیں صف آرا ہو رہی ہیں؟

رینا نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے کی رواں ہفتے استنبول سے گرفتاری کے چند گھنٹے کے اندر ترک حکومت کے پریس آفس نے صدر رجب طیب اردوغان سے منسوب ایک ٹویٹ نشر کیا۔

لکھا تھا: ‘میں نے ترکی کے وزیراعظم کی حیثیت سے 14 برس تک خدمات انجام دیں۔ لوگوں کے رہن سہن میں کبھی مداخلت کی گئی اور نہ ہی آئندہ کی جائے گی۔

انھوں نے اُسی بات کو دہرایا جو انھوں نے نئے سال کی رات ہونے والے حملے کے فوراً بعد اپنی تقریر میں کہی تھی: ‘ترکی میں کسی کی طرزِ زندگی کو کوئی منظم خطرہ لاحق نہیں۔ جو یہ کہتے ہیں میں ان جھوٹوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے کھانے، پینے اور پہننے میں کس نے مداخلت کی ہے۔

اردوغان ان الزامات کا جواب دے رہے تھے کہ اسلام کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں غیر مسلموں کی تقریبات اور شراب کی محفلوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

رینا کلب پر حملے سے پہلے تک پوسٹروں اور حکومت حامی اخباروں میں ایسی تصاویر شائع کی گئیں جن پر سانٹاکلاز کو مُکّے کی زد میں دکھایا گیا تھا اور ساتھ ہی نئے سال کا جشن منانے سے منع کیا گیا تھا۔

تاہم حملے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ رینا کلب کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ ایک متمول علاقے میں واقع اور سیاحوں میں مقبول تھا نہ کہ ایک خاص طرزِ زندگی کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے۔ تاہم اس حملے سے یہ بحث ایک مرتبہ پھر چِھڑ گئی ہے کہ کیا سیکولر ترکی مذہب پسند ترکی سے خوفزدہ ہے۔

ایک زمانے میں استنبول کا آسمالی علاقہ شبانہ تعیش کے لیے مشہور تھا۔ اب وہاں کے زیادہ تر میخانے یا تو بند یا ویران ہیں۔

اس کا ایک سبب تو امن و امان کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہاں جانے والے سیاحوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور ترک شہری بھی باہر نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ تاہم دوسرا سبب شراب سے متعلق سخت قواعد و ضوابط بھی ہیں۔

سنہ2003 میں بنائے گئے ایک قانون کے مطابق سکولوں اور مساجد سے ایک سو میٹر کے دائرے میں شراب خانوں پر پابندی ہے اور دوسرے میخانوں کے باہر میزیں رکھنے پر بھی پابندی ہے۔

ترکی میں مذہبی اور سیکولر بُعد ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ 1923 میں اتاترک نے جس ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھی اس کا قبلہ مغرب تھا۔

مگر 80 برس بعد جب 2003 میں اردوغان اقتدار میں آئے تو انہوں نے سرکاری دفاتر میں عورتوں کے سر ڈھانپنے پر عائد پابندی ختم کر دی۔ کئی اعتدال پسندوں نے بھی اس کی حمایت کی۔

آہستہ آہستہ وسطی طبقہ ابھرنے لگا جس نے مزید تبدیلیوں کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ 2013 میں دارالحکومت میں قائم ایک پارک کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔

ان مظاہروں کے ایک منتظم نے، جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے گریز کیا، کہا: ‘ہم نے حکومت سے کہا کہ ہماری زندگیوں میں دخل نہ دیں۔دوسری جانب حکومت حامی اخبارات سیکولرازم اور بائیں بازوں کے خلاف بڑی بڑی سرخیوں میں خبریں شائع کرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ایک محصور ذہنیت پیدا ہو چکی ہے اور دو نظریوں کا ٹکراؤ قریب ہے۔

الف دیویسیالگو ایک فیشن ڈیزائنر ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘پہلے ہمارے سر ڈھانپنے پر پابندی تھی۔ یہ ایک طرح کی نفسیاتی اذیت تھی۔ موجودہ حکومت سب کی نمائندگی کرنا چاہتی ہے۔ مگر ذہنیت کی تبدیلی کے لیے 14 سال ناکافی ہیں۔

ترکی میں کم عرصے میں خاصی تبدیلیاں آ چکی ہیں جنھوں نے معاشرے کو منقسم کر دیا ہے، اور جانبین کے درمیاں محاذ آرائی کی فضا بڑھ رہی ہے۔

مارک لوین

 

Comments are closed.