بلاگرز ایشو : باعث افتخار یا قومی خفت

ایمل خٹک 

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر سرگرم عمل چند نوجوان جنہیں حرف عام میں بلاگرز کہتے ہیں یکے بعد دیگرے لا پتہ ہوگے اور ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کی جانب سے ان کو حراست میں لینے کا شک ایجنسیوں پر کیا گیا ۔ بعد میں سرکاری طور پر بھی یہ بتایا گیا کہ وہ ایجنسیوں کے پاس ہیں ۔ گزشتہ روز ان میں سے اکثر رہا ہوکر گھروں کو واپس آچکے ہیں۔ ان کے متعلق جو پروپیگنڈا کیا گیا اور ان پر جس قسم کے الزامات لگائے گئے اس کی موجودگی میں تو ان کو جیل میں ہونا چایئے تھا۔ مگر وہ باہر کیسے آئے ؟ کیا ان کی گرفتاری یااغوا ہونے کے بعد سنجیدہ قومی حلقوں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان کو ناحق گرفتار کیا گیا ہے وہ سچ ثابت ہوئے ؟۔

ان کی گرفتاری کے وقت اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ کچھ مفادی حلقے یا طاقتور حلقے نوجوانوں میں سوشل میڈیا پر بالادست اور حکمران قوتوں کی ناعاقبت اندیش اور غلط پالیسیوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور ریاستی ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے سے خائف ہیں ۔ اور ان بلاگز کی وجہ سے حکمرانوں کو اکثر شرمندگی اور خفت اٹھانی پڑتی ہے۔ کیونکہ اکثر لاپتہ نوجوانوں کی بلاگز میں سماجی بے انصافیوں، آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی جاتی تھی ۔ وہ مظلوم انسانوں کا ساتھ دیتے تھے لا پتہ افراد کے حق میں لکھتے تھے۔ اور ریاستی زیادتیاں افشاء کرتے اور بہت سے لوگوں کو ان کا پتہ چل جاتا تھا۔ 

بلاگرز کی گرفتاری سے کچھ حلقے سوشل میڈیا پر عوامی اظہار آزادی کے پر کاٹنا چاہتے ہیں قدغنیں لگانا چاہتے ہیں عوامی مخالفت کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں ۔ گرفتاریوں سے دیگر نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ حکمران طبقات کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کرنے ، سماجی بے انصافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانے سے باز رہیں ۔ اور انتہاپسند قوتوں کے مظالم اور چیرہ دستیوں پر خاموش رہنے کے علاوہ  وہ حکمران طبقات کی بدعنوانیوں ، لوٹ کھسوٹ، اور غلط طرز حکمرانی کو بے نقاب کرنے سے اجتناب کریں۔ 

کیا کچھ دیر کیلئے ہم نے اس پر سوچا کہ اصل ایشو کیا تھا؟ ان کی گرفتاری یا حراست قانون اور ضابطے کی مطابق تھی یا نہیں ؟ اس ایشو کو پیش کیسے کیا گیا ؟ اور اس تمام ڈرامے کا نتیجہ کیا نکلا ؟ ۔  بحیثیت قوم کیا ہم میں خود احتسابی کا جذبہ یا روایت ہے یا نہیں ؟  اور کیا قوم کے اعصاب پر سوار رہنے والے ایسے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چائیے یا نہیں ؟ کیا تھوڑی دیر کیلئے کسی نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی۔ تھوڑا جائز ہ لینے کی کوشش کی ۔ خود تنقیدی یا خود احتسابی کی کوشش کی کہ کیوں وقتاً فوقتاً ہمارا واسطہ ایسے واقعات سے پڑتا ہے اس کو اچھالا جاتا ہے اور پھر آخر میں اردو کی ضرب المثل کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ 

سسٹم کو اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے کیلئے موجودہ کیس ایک اچھی کیس سٹڈی ثابت ہو سکتا ہے ۔ جس میں مفادی حلقے ، ان کے مفادات ، ان کے حواریوں کے کردار اور طریقہ واردات کو معلوم اور بہتر انداز میں جانا جاسکتا ہے ۔ اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ ریاستی اداروں کا ایسے کیسوں میں طرزعمل کتنا قانون اور ضابطوں کے مطابق ہے۔ اور شہریوں کو ریاستی اداروں کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں سے کتنا تحفظ حاصل ہے اور سب سے بڑھ کر شہریوں کی حقوق کو تحفظ دینے والے اور داد رسی کے ادارے ان کیسوں میں کتنے بے بس اور لاچار ہوتے ہیں ۔ 

اگر حالیہ مثال کو لیں تو اس میں کئی خامیاں اور اداروں کی اپنی حدود سے تجاوز اور قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑانے کی مثالیں ملتی ہیں ۔  وطن عزیز میں کچھ عرصے سے بعض ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس سے نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔  شہریوں کو بلا جواز اور غیر قانونی گرفتار کیا جا رہا ہے۔  اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے بلکہ بیرون ملک رسوائی اور بدنامی بھی ہو رہی ہے۔ ان واقعات پر اہم مغربی ممالک اقوام متحدہ اور دیگر عالمی انسانی حقوق کے ادارے  پریس ریلیز یا مختلف رپورٹوں کے ذریعے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔

ایک طرف دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے اور کسی بھی معاشرے میں کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ فوراً دنیا کے کونے کونےمیں پھیل جاتا ہے اور دوسری طرف ہماری سوچ اور رویہ وہی پرانا اور روایتی کہ اگر ہم خاموشی سے چپکے سے کوئی کام کر یں گے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔  ایک تو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اب مقامی نہیں عالمی مسئلہ بن گئی ہے۔ اس لئے ریاستوں کو زیادہ احتیاط اور سمجھ داری کی ضرورت ہے ۔ دوسرا سوشل میڈیا نے ابلاغ کو آسان اور تیز تر بنا دیا ہے ۔ معلومات تک رسائی اور پھیلانے کا عمل انتہائی سادہ ، ارزاں اور عام لوگوں کی دسترس میں ہے۔ معلومات تک رسائی اور پھیلانے کے عمل پر کنٹرول اب طاقتور سے طاقتور ترین ریاست کی بھی بس کی بات نہیں ۔ 

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اور تحقیقاتی ادارے ابھی تک پرانے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جی رہی ہے ۔ جہاں پر کوئی ایک افسر خود ہی جج بھی بنتا ہے اور خود ہی جلاد ۔ انصاف کے مروجہ تقاضے پورا کئے بغیر اور آئین اور قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اہم سرکاری پوسٹ پر تعینات ایک فرد یا چند ہم خیال افراد کا ایک محدود گروہ خود ہی اچھے برے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے اکثر ایسے اقدامات کی وجہ سے نہ صرف ان اداروں بلکہ پوری قوم کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور بیرون ملک امیج بھی خراب ہوتا ہے۔ 

ہماری قومی بے حسی اور سادگی کا یہ عالم ہے کہ ان خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرنے والوں کو  شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے غیروں کا ایجنٹ گردانا جاتا ہے۔ آج تک کوئی بھی معاشرہ تنقید اور اصلاح کے بغیر ترقی نہیں کرسکا ۔ کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کے بغیر بہتری ، اصلاح اور ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ غلطیوں ، خامیوں اور کمزوریوں کو قالین کے نیچے چھپانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی نشاندہی اور اس پر بحث کرنے سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے اور ان کا پائیدار حل ڈھونڈا جاسکتا ہے ۔ 

موجودہ سنگین بحرانوں کی ایک وجہ یہی رویہ بھی ہے کہ ریاست اور حتی کہ مذہب کے غلط استعمال اور استحصال پر کھلے عام بحث سے اجتناب کیا جا رہا ہے ۔ اعلی پوسٹوں پر فائز بعض ریاستی شخصیات کی مہم جوئیوں اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں ، ان کی بد عنوانیوں ، بے ضابطگیوں اور اقربا پروری پر بات نہیں کی جاتی ۔ اور تب بات ہوتی ہے جب معاملہ سنگین ہو جاتا ہے یا قابو سے با ہر ہوجاتا ہے۔ 

یہ بھی درست ہے کہ جاگیردارانہ معاشروں میں تنقید کو برا سمجھا جاتا ہے اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور تنقید کو ذاتی دشمنی کے مترادف سمجھا جاتا ہے مگر تنقید یا سوالات اٹھانا کسی بھی معاشرے کی اصلاح اور نشوونما کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔ اکیسویں صدی میں پچاس اور ساٹھ  کی دھائی کی حرکتیں اب ناقابل برداشت بنتی جا رہی ہے ۔ اب پرانے مائنڈ سیٹ سے پیچھا چھڑانا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہوگا۔ 

ہمارے مذہبی اور ریاستی بیانیوں کا دیوالیہ پن دیکھیے کہ ایک طرف ہم دعوے کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب کو ابد تک کوئی چھیڑ نہیں سکتا اور ایک آسمانی اور لافانی مذہب ہے تو دوسری طرف ایک نوجوان کی بلاگ سے اس کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ پتہ نہیں اس وقت ہمارے ایمان کی مضبوطی اور طاقت کہاں چلی جاتی ہے ۔ یا تو ہمارا ایمان کمزور ہے اور یا بلاگرز کی  پوسٹیں طاقتور ۔ 

یہی حال ریاست کا بھی ہے کہ دنیا کا پتہ نہیں کتنی بڑی فوج اور بہترین انٹیلی جنس ایجنسیاں رکھنے اور کتنی بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے دعوے کے باوجود دوسری طرف چند نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر پوسٹوں سے ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ پتہ نہیں اس وقت ہم اپنے دعووں پر یقین کرلیں یا چند نوجوانوں کی طاقت اور اثرورسوخ کے قائل ہوجائے۔ 

میرے خیال میں مسئلہ نہ تو ریاست کی مضبوطی یا مذہب کی لافانیت کا ہے بلکہ مذہب اور ریاست کے نام نہاد ٹھیکیداروں کا ہے جن کی ذہنی اور فکری بانجھ پن کی سطع انتہائی بلندیوں کو چھو رہی ہے ۔ اور اپنے تنگ نظر مفادات کیلئے ریاست اور مذھب دونوں کا استعمال اور استحصال کر رہے ہیں ۔ عقل اور دلیل کی بجائے سطحی دلائل اور بازاری  منطق سے کام چلا رہے ہیں ۔ پھر ریاستی اداروں کی مہم جوئیوں اور غلط کاموں کو جواز فراہم کرنے دفاع کرنے کیلئے دانشوروں ، صحافیوں ، علماء اور اساتذہ کا پورا لاؤ لشکر موجود ہوتا ہے۔  جو نہایت بھونڈے انداز میں ریاستی اقدامات کا دفاع کرتے ہیں ۔

 مثلاً اگر ان چند دنوں میں ان بلاگرز کے بارے میں جو کچھ کہا گیا جو لکھا گیا اور جس انداز سے ان کو ملک دشمن اور مذہب دشمن ثابت کرنے کیلئے جو جھوٹی اور من گھڑت باتیں اور چیزیں ان سے منسوب کی گئیں وہ تاریخ کا حصہ تو بن گئی مگر اس نے ان خرافات پھیلانے والوں کی منہ پر کالک ملی ۔ 

 ایک طرف تو اس آفاقی اور عالمگیر مذہب کی پیروکاری کے دعوے جو وسوسے پھیلانے اور تہمتیں لگانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور کسی مسلمان کی ایمان پر شک کو غلط سمجھتا ہے دوسری طرف اس کے ماننے والوں نے دیگر مسلمانوں پر بیجا مذھب دشمنی کی تہمتیں اور فتوے لگاکر بیگناہ افراد اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ۔ اس طرح  انسانوں کے خالق کی عدالت میں توبہ اور معافی کی گنجائش ہے مگر اس کے مخلوق اور ماننے والوں میں نہیں۔ اس دوران کچھ سنجیدہ اور عقلی باتیں اور دلائل بھی پیش کئے گئے جن کو گندی گالیاں سننے کو ملی اور ان پر الزامات اور فتووں کی بوچھاڑ ہوئی۔

بلاگرز کی گرفتاری کے حوالے سے کچھ قانونی مسائل اور پیچیدگیاں بھی سامنے آئی ہیں ۔ اگر ان بلاگرز نے کوئی قانون شکنی کی بھی ہو تو ان کے خلاف سائبر قوانین کے تحت کاروائی ہونی چائیے ۔ ملکی سائبر قوانین کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کریں ۔ مگر موجودہ کیس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ بھی نہیں اور لوگ اٹھائے گئے ہیں ۔ بلاگرز کی گرفتاریوں یا بعض لوگوں کے مطابق ان کے اغوا کے بارے میں وزارت داخلہ تک کو پتہ نہیں تھا ۔ 

اس بات سے انکار نہیں کہ معاشرے میں طرح کے طرح کے لوگ ہوتے ہیں کسی فرد یا گروہ کی جانب سے مذہب یا ملک کے بارے میں نازیبا یا توہین آمیز الفاظ کے استعمال کو خارج امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ مگر ہر چیز کیلئے قانون اور ضابطہ موجود ہے ۔ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے چاہے وہ عام لوگ ہیں یا خاص کے خلاف بلا امتیاز کاروائی ہونی چائیے ۔

جس معاشرے میں قانون اور ضابطے کی پاسداری نہ ہو احترام نہ ہو تو وہ معاشرہ انسانی اور مہذب نہں کہلایا جاسکتا بلکہ جنگل کہلاتا ہے۔ وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس  کی اصول کا راج ہوتا ہے ۔ اب بحیثیت قوم یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ ایک مہذب اور باوقار معاشرے کی طرح یہاں قانون کی بالادستی اور احترام ہونا چائیے ہونا یا جنگل کی طرح جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ۔

One Comment