کوہ غذر کا نہ ختم ہونے والا درد

علی احمد جان

انیسویں صدی عیسوی میں مغربی دنیا خصوصا ً برطانیہ کو جب کوہ غذر کے بارے میں معلوم ہوا تو اس کی بنیاد رائل جیوگرافک سوسائٹی کے رکن اور سیاح سر جارج ہایئورڈ کےقتل کی خبر تھی۔ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں مہاراجہ کشمیر اور اسکی ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں ظلم اور بربریت کی ہوش رُبا داستان کو دنیا تک پہنچانے والا اپنے قتل کے بعد خود خبر بن گیا ۔

سر جارج ہایئورڈ کے قتل پر اس کے بعد جو کچھ لکھا گیا اس میں اس علاقے کا ذکر اچھے الفاظ میں نہ ہوا۔ہایئورڈ تو صرف رائل جیوگرافک سوسائٹی کے لئے یہ معلوم کرنے گیا تھا کہ کوہ ہندو کش کے پیچھے سے سر اٹھانے والا سرخ ہوتا روس کہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔

جب انھوں نے یاسین کے قلعہ مڈوری میں دیکھا کہ لاشیں سفید ہو چکی ہیں اور کوئی دفنانے والا بھی نہیں بچ پایا ہے، باپ کو قتل کرنے کے بعد ماں کو اپنے ساتھ لیجانے والوں کی سنگینوں سے پھسل کر بچ جانے والے بچے خوف کے مارے رونا بھی بھول گئے ہیں تو جارج ہایئورڈ نے اپنے آگے کے سفر کو ملتوی کیا اور لاہور واپس آکر برطانوی پریس کو سارے حالات سے بذریعہ ٹیلی گرام آگاہ کیا۔

یہی وہ گناہ تھا جس کی پاداش میں مہاراجہ کشمیر نے اپنے طفیلی راجہ میر ولی کے ہاتھوں سر جارج ہایئورڈ کاقتل کروادیا۔ ہایئورڈ کی لاش اس کے ہم وطنوں نے ڈھونڈ نکال کر گلگت میں میں دفن کر دیا مگر اس کے ایک ٹیلی گرام نے امرتسر میں ۱۸۴۶ میں بولا گیا جھوٹ کا بھانڈہ ایسا پھوڑا کہ آج بھی کشمیریوں کے اس علاقے پر دعویٰ کو رد کرکے ان کا منہ چڑا رہا ہے۔

انگریز وں نے جارج ہائیورڈ کے قتل کا بدلہ یوں لیا کہ چترال کو یاسین کی عملداری سےکاٹ کر سرحد میں شامل کیا اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ہے کبھی شندور اور کبھی لنگر میں دراندازی جاری ہے۔ انگریزوں نے اپنے دور میں اس پورے علاقے میں ایک مستقل سکول یا عارضی ڈسپنسری بھی نہیں بنائی۔ انگریز سرکار نے ایک سکول پونیال اور گوپس میں مشترکہ طور پر بنایا تھا جو تین سال ایک علاقے میں پھر تین سال دوسرے علاقے میں چلتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری جماعت سے زیادہ کوئی تعلیم بھی حاصل نہ کرسکا۔

مڈوری کی قیامت کو یاسین کے لوگ آج بھی نہیں بھولے ہیں یہاں سے اس حملے کے دوران اٹھائی گئی عورتوں کی اولادیں جو اپنے انگریز آقا ؤں کی آشیرباد اور نوازشات کے بعد اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے شرفا ءکہلاتے ہیں جب اپنا رشتہ جتانے آتے ہیں تو ان کو یاسین کے لوگ بطور رشتے دار گلے نہیں لگاتے ۔مڈوری کے انساینت سوزظلم پر ا آج تک کشمیریوں پر معذت ادھارہے ۔

مڈوری کے قلعے پر ڈھائی جانے والی قیامت کے بعد چھاجانے والے سناٹے میں کشمیریوں اور انگریزوں نے مل کر ایک سمجھوتے کے تحت اس علاقے کو زیر تسلط رکھا۔ اس بات کو انگریز بہت خوب جانتے تھے کہ کشمیری ڈوگروں نے امرتسر میں جھوٹ کا سہارا لیکر اس پورے علاقے پر اپنی ملکیت کاجھوٹا دعویٰ کیا تھا جس کی پاسداری وہ اس لئے کر رہے تھے کہ افغانستان میں اپنی شکست کے بعد وہ ہندوکش میں ایک اور ہزیمت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

لیکن جوں ہی ۱۹۴۷ کے تقسیم ہندوستان کا سلسلہ شروع ہوا تو انگریز ی فوج کے نمائندے نے مقامی سپاہ اور افسران کے ساتھ ملک کر ڈوگروں کی چھٹی کرانے کا ادھار چکا دیا اور علاقے کا الحاق ان سے کاٹ دیا۔ ڈوگروں کے خلاف بغاوت اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے ۱۹۴۷ کے واقعات میں پونیال کا راجہ اپنے خاندان اور ڈوگروں کے درمیان عہد و پیمان کی وجہ سے تذبذب کا شکار رہا۔

نتیجۃً چنار باغ گلگت میں کوئی قبر اس فوج کے حصے میں نہ آئی جس کے متعلق انگریزوں کا خیال تھا کہ پونیال کے جوانوں کو ابتدائی فوجی تربیت کی ضرورت ہی نہیں جو پیدائشی پیراک، نشانہ باز اور کوہ پیما ہوتے ہیں۔ پاکستان سے الحاق کے بعد پونیال کے لوگوں نے ۱۹۵۲میں انگریزوں کے دیئے ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف ایک پر امن مہم چلائی جس کے لانگ مارچ پر فوج اور راجے کے غنڈوں کی نہتے لوگوں پر فائرنگ سے کئی لوگ مرگئے اور کئی زخمی ہوۓ۔

اس تحریک کو کچلنے کے بعد بیس سال تک جب تک ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۲ میں یہاں خود آکر ایف سی آر اور راجگی کا نظام کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ے گئے۔ یہاں مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لئے انگریزوں کے دور سے نافذ العمل ریاست کشمیر کے تحفظ شہریت کے قانون کی کھلی خلاف ورزی کرکے غیر مقامی لوگوں کو بسایا گیا اور لوگوں کے موروثی عقائد بدلواکر انکی شناخت تبدیل کر نے کی کوششیں جاری رہیں۔

ایف سی آر اوررا جگی نظام کے خاتمے کے بعد اس پورے علاقے کی انگریزوں کے زمانے کی چار پولیٹیکل ڈسٹرکٹ ( یاسین، گوپس، اشکومن اور پونیال) پر مشتمل ایک ضلع غذر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ۱۹۷۷میں مارشل لا ء کے نفاذ کے ساتھ ہی اس ضلع کو پھر سے ختم کیا گیا اور اگلے گیارہ سالوں تک ریاستی جبر کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے جہاز کے حادثے میں ہلاک ہونے تک جاری رہا اور ساتھ ہی مقامی لوگوں نے اپنی مزاحمتی خو بھی نہ چھوڑی۔

چونکہ اس علاقے میں زمین پر ملکیت ریاست کی نہیں بلکہ لوگوں کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے زمین کی ملکیتی دستاویزات کہیں موجود نہیں ہوتیں۔ حکومت نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران اس ضلع میں بھی زمینوں کا بندوبست سرکار ی تحویل میں دینے کی کوشش کی گئی جس کی یہاں کے عوام نے مخالفت کی اور اس ارادے کو ناکام بنا دیا۔

اس مزاحمت کی وجہ یہ تھی کہ ایسے بندوبست کے بعد جتنی زمین کسی کی ذاتی تحویل میں نہیں ہوتی خالصہ سرکار کی ملکیت ہو جاتی ہے۔ (خالصہ سرکار رنجیت سنگھ کی حکومت کو کہا جاتا تھا جو عملاً کشمیر اور گلگت بلتستان کے بندوبستی نظام میں میں آج بھی جوں کی توں ہے)۔ خالصہ سرکار کی زمین کی ملکیت سرکار جس کو چاہے عنایت فرماۓ کوئی اعتراض نہیں کر سکتا ہے۔ اس طرح کے بندوبست کی آڑ میں مقامی آبادی کو اقلیت میں تبد یل کرنے کے مذموم ارادے کو یہاں کے سیاسی اور سماجی کارکنان اور راہنماؤں نے عوام کی مدد سے کامیاب ہونے نہیں دیا۔

مزاحمت تو کامیاب ہوئی لیکن انتقامی کاروائیاں بھی جاری رہیں۔ اس دوران آس پاس کے یاغستان سے چوروں اور بدمعاشوں کے ذریعے یہاں کے لوگوں کا قتل ، عورتوں کے اغوا کرنے اور مال مویشی کی چوری کی وارداتیں پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں جاری رہیں۔

گلگت بلتستان کے عوام کے لئے سیاسی اور آئینی حقوق کی جدوجہد میں ضلع غذر کا کردار نمایاں رہا ہے۔ یہاں کے سیاسی کارکنان نے ہمیشہ ذاتیات، فرقہ ورانہ تعصب سے بالا تر ہوکر اور کسی بھی طرح کے ریاستی اور غیر ریاستی دباؤ میں آۓ بغیر اپنی راۓ کا بر ملا اظہار کیا ہے۔

غذر کے لوگ برسر اقتدار حکومتی جماعت کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر عوامی نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوام کے اس حق پرستی کو بھی ہمیشہ انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور گلگت بلتستان کی کابینہ میں غذر کی نمائندگی ہمیشہ اس کی آبادی کے تناسب سے نہیں ہوئی ۔ گلگت بلتستان اسمبلی کی نشستیں بھی اس گلگت بلتستان کئ سب سے بڑے ضلع کی آبادی کے تناسب سے کم ہیں ۔

کھوار زبان کے لفظ غرز (پناہ گزینوں کی جگہ) سے مشتق غذر کے ضلع میں افغانستان کےامیر عبدالرحمن خان (۱۸۸۰۔۱۹۰۱ ) کے دور میں اپنے عقیدے کے تحفظ کے لئے ہجرت کرکے آنے والے وخی اور مہتران چترال کی مذہبی چیرہ دستیوں سے جان بچا کر پناہ لینےوالے غرزیوں کی مشکلات اب بھی کم نہیں ہوئی ہیں ۔

ایک صدی بعد بھی یہاں کے مقامی پشتنی باشندوں کے صدیوں پرانے عقائد کو وہی خطرات درپیش ہیں جس کی وجہ سے ان کو یہاںمہاجرت کرنا پڑی تھی اور اسی نسبت سے اس علاقے کا نام غرز یعنی پناہ گزینوں کی جگہ پڑ گیا تھا جو بگڑ کر اب غذر بن گیا ہے جس کے نام پر یہ ضلع منسوب ہے۔

جب بھی قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے اس ضلع کو درپیش ممکنہ خطرات سے انتباہ کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں تو ایک سوال ذہن میں آتا ہے کیا غذر کا درد کبھی ختم بھی ہوگا؟

Comments are closed.