دہشت گردی اور کوئٹہ کمیشن رپورٹ

اوشو ناصر

پاکستان میں ہر معاملے پر کمیشن یا کمیٹی بننا ایک روایت سی بن گئی ہے۔ یہ بھی بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی واقعہ کی رپورٹ بلاتاخیر سامنے آجائے ۔ 

آٹھ اگست کو کوئٹہ میں فائرنگ اور خودکش حملوں کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس لیا گیا جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے نہ صرف لگاتار سماعت کی بلکہ دو ماہ کے اندر رپورٹ بھی شائع کردی۔ ایک سودس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے لئے پینتالیس شہادتیں قلمبند ہوئیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بند کمرے میں بریفنگ دی ۔کمیشن نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو بھی شہادت کے لئے بلایامگر وزیر داخلہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے ٹائم نہیں نکال پائے۔

رپورٹ کے مطابق یکم جنوری2001 سے بارہ نومبر2016 کے دوران پاکستان میں سترہ ہزار پانچ سو دہشت گرد حملے ہوئے ۔ان میں سے 2880 حملے صرف بلوچستان میں کئے گئے ۔حالانکہ بلوچستان کی آبادی قومی آبادی کا صرف سات فیصد ہے ۔اس اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جتنے کل حملے ہوئے ان میں سے سا ڑھے سولہ فیصد بلوچستان میں ہوئے ۔ 

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تنظیموں میں سے تریسٹھ کو کالعد م قرار دیا جاچکا ہے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ان تنظیموں کو کسی بھی نوعیت کی سیاسی ،مالی ،تبلیغی و سماجی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی ان تنظیموں کو نام بدل کر کام کرنے پر بھی پابندی ہے ۔تاہم جسٹس فائز عیسٰی کمیشن رپورٹ میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ وہ تنظیمیں جو بذات خود ایک عرصے سے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کھلم کھلا اعتراف کرتی آئی ہیں، ان تنظیموں پر پابندی بھی کئی برس کے بعد اور بار بار یاد دہانی کے بعد عائد کی گئی ۔

رپورٹ کے مطابق لشکر جھنگوی العالمی اور جماعت الاحرار کی جانب سے پچھلے کئی برسوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا گیا۔برطانوی حکومت نے جماعت الاحرار کو مارچ 2015 میں کالعدم قرار دے دیا ۔مگر خود حکومت پاکستان کو دونوں تنظیموں کو کالعدم فہرست میں ڈالنے کے لئے تین بر س لگے ۔کمیشن نے وزیر داخلہ سے اس تاخیر کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کی تصدیق کے لئے آئی ایس آئی سے رجوع کرتے ہیں اور پھر آئی ایس آئی کی سفارشات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے تاخیر ہو جاتی ہے ۔

دوسری جانب آئی ایس آئی نے کمیشن کو بتایا کہ اگر حکومت چاہے تو وہ خود بھی پابندی عائد کر سکتی ہے اس کے لئے آئی ایس آئی کی رپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔کمیشن نے اپنے ایک نوٹ میں لکھا ہے کہ دہشت گرد ی کے خلاف کاروائیوں کو مربوط کرنے کا کام تو وزارت داخلہ کے تحت نیشنل کاونٹر ٹیرارازم اتھارٹی نیکٹا کا ہے مگر خود نیکٹا کا حال یہ ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برس کے دوران نیکٹا کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہو پایا ہے ۔نیکٹا کی ویب سائٹس آج بھی انڈر کنسٹرکشن ہے ۔جبکہ دوسری جانب کالعدم تنظیموں کی ویب سائٹس نہ صرف نام بدل بدل کے فعال ہیں بلکہ وہ چندہ جمع کرنے اور جہادیوں کی ریکروٹمنٹ کا کام بھی کر رہے ہیں ۔

رپورٹ میں ایک مثال یہ دی گئی ہے کہ سپاہ صحابہ ، ملت اسلامیہ اور اہل سنت و جماعت ایک گروہ کے تین مختلف نام ہیں ،تینوں کی سرگرمیوں پر پابندی ہے ،تینوں گروپوں کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مولانہ محمد احمد لدھیانوی کے پاس ہے ۔مولانہ صاحب خود فورتھ شیڈول کی نگرانی میں ہیں ۔ مگر وہی وفاقی وزیر داخلہ جنہوں نے31 دسمبر 2014 کو نیکٹا کے اجلاس میں کہا تھاکہ کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

وہی وزیر داخلہ21اکتوبر د2016 کو مولانا لدھیانوی سے ملاقات میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ شیڈول کے تحت آنے والے رہنماؤں کے قومی شناختی کارڈ نادرا بلاک نہ کرے ۔اور اٹھائیس اکتوبر کو کالعدم اہل سنت والجماعت کوا سلام آباد میں جلسے کی اجازت بھی دے دی گئی ۔جس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اجازت میں نے نہیں ضلعی انتظامیہ نے دی ہے ۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ وزارت داخلہ کہ افسروں کی ترجیح عوامی سلامتی کو یقینی بنانے سے زیادہ چوہدری نثار کو خوش رکھنا ہے ۔

نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ 20نکاتی منصوبہ طے شدہ اہداف سے محروم ہے ۔اس پر کیسے عمل کروانا ہے ، عمل نہ ہونے کی صورت میں احتساب کیسے ہوگا ، کون کس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھ سکتا ہے کچھ بھی واضح نہیں ہے ۔سب سے زیادہ متاثرہ صوبے بلوچستان کے چیف سیکرٹری نے کمیشن کو بتا یا ہے کہ پولیس ،سول انتظامیہ اور ایف سی کے مابین قابل عمل رابطے اور تعاون کا فقدان ہے۔

کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ صوبائی چیف سیکرٹری کہتے ہیں کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات حاصل ہیں جبکہ وفاقی سیکرٹری داخلہ کا کہنا ہے کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردی کے پیچھے ملکی و غیر ملکی ہاتھ کا دعویٰ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے جب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مغربی سرحد پر آر پار آنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جا تا۔ کسٹم چوکیا ں بارڈر سے خاصے فاصلے پر ہیں ۔جس کی وجہ سے منشیات، اسلحہ وغیرہ آرام سے ان چوکیوں کے علم میں لائے بغیر ادھر سے ادھر سے نکالا جا سکتا ہے ۔

رپورٹ کو ایک کالم میں تو سمونا مشکل ہے مگر یہ بات تسلیم ہے کہ رپورٹ پڑھنے کے بعد بغیر کسی شک و شبہ کے کہا جاسکتا ہے کہ ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اداروں کی آپس میں کوآرڈینیشن نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر وزارت داخلہ خصوصاً وزیر داخلہ چوہدری نثار کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ نظر آتا ہے جس کے بعد یہ ہی کہا جاسکتا ہے یہ ملک اللہ توکل پر ہی چل رہا ہے۔

ہرسانحہ کے بعد ہم دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے کہ بیان کے بعد حکومت بری الذمہ ہو جاتی ہے انٹیلی جنس اداروں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے دنیا بھر میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ویب سائٹس اور عوامی رابطے کے لئے نمبر موجودہ ہوتے ہیں مگر رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کی کوئی ویب سائٹس موجود نہیں ہے نہ ای میل ہے نہ ہی فو ن نمبر جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

کیا حکومت اس رپورٹ پر عمل درآمد کرے گی یا پھر  حسب روایت فائلوں میں دب جائے گی۔

Comments are closed.