عرب دنیا اور نكاح المسيار

مسیار متعہ کا سنی ایڈیشن ہے۔ مسیار عرب ملکوں کے علاوہ ان مغربی ممالک میں بھی زیر عمل ہے جہاں سنی عرب بستے ہیں۔ نکاح المسیار کو زواج المسيار بھی کہا جاتا ہے۔

مسیار ایک ایسا نکاح ہوتا جس کے تحت فریقین کچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں، جیسے اکٹھے رہنے کا حق، نان و نفقہ کا حق۔ مسیار میں فریقین ساتھ نہیں رہتے بلکہ حلال طور پر اپنی جنسی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ نکاح المسیار میں اس بات کا تعین نہیں ہوتاا کہ یہ کتنا عرصہ قائم رہے گا، لیکن عموماً یہ قلیل مدت کیلئے ہوتا ہے۔

مسیار سے زیادہ فائدہ نوجوان اٹھاتے ہیں جن کے پاس اپنا گھر نہیں ہوتا اور وہ کسی بیوہ یا مطلقہ سے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کا سہارا لیتے ہیں۔ بدلے میں ان خواتین کی بھی مالی مدد ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کے علاوہ شادی شدہ مرد بھی اس سنی رسم کو اپناتے ہیں تاکہ وہ زنا کے گناہ اور سزا سے سے بچ جائیں۔

نکاح المسیار کی کچھ شرائط بھی ہیں

نکاح المسیار کیلئے فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہوتا ہے۔
نکاح کے دو گواہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
شوہر کو اپنی مسیاری بیوی کو مہر کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے جس کا تعین پہلے کیا جا چکا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی اگر کوئی شرائط پہلے سے طے کی ہوتی ہیں تو ان کا اندراج بھی نکاح نامے میں کر لیا جاتا ہے۔

نکاح المسیار سعودی عرب میں بہت مقبول ہے۔ اور ایسے نکاحوں کے سلسلے میں جدہ سب سے آگے ہے۔ سعودی عرب کے مفتی شیخ احمد العمری جو ایسے نکاح کروانے والے ادارے کے سربراہ ہیں۔ ان کے بقول نکاح المسیار کے خواہشمند لوگوں کے انہیں سعودی عرب سے باہر، مراکو، مصر، اردن، حتی کہ یورپی ممالک سے بھی فون آتے ہیں۔

شیخ العمری کے بقول انہیں ایک 13 سالہ لڑکی جسے پیسوں کی بہت ضرورت ہے، اس نے رابطہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 25000 سعودی ریال یکمشت ادائیگی کے علاوہ 1000 سعودی ریال ماہانہ پر نکاح المسیار کرنا چاہتی ہیں۔ عمری صاحب کے بقول اگر اس بچی کے والدین یا کوئی نزدیکی رشتہ دار اس کی اجازت دے دیں تو ایسا نکاح قانونی طور پر ممکن ہے۔

شیخ العمری کے بقول ان سے یونیورسٹی کے طالبعلموں نے بھی رابطہ کیا ہے، کہ وہ کسی ایسی خاتون سے نکاح مسیار کرنا چاہیں گے جو ان سے نفقہ طلب نہ کرے، گھر کی مالکن ہو، اور اس کی جو بھی عمر ہو انہیں قبول ہے۔

غلام رسول

2 Comments