زبان سنبھال کے – حصہ اول

مہوش بلوچ

اختر بلوچ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک محقق اور صحافی ہیں جو ڈان کیلئے لکھتے ہیں۔ کراچی کی تاریخ کے حوالے سے ان کی تحاریر کافی مقبول ہیں۔ انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں لیکن فی الحال ان تحریروں کی بات کرتے ہیں جو انہوں نے ڈان کیلئے لکھی ہیں۔ وہ اپنی تحریریں اردو میں لکھتے ہیں جو کہ ڈان اردو کی ویب سائٹ پر اپلوڈ ہوتی ہے جس کے بعد ان کا انگریزی میں ترجمہ کر کے ڈان کے انگلش ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا جاتا ہے۔

لیکن ان کی ایک تحریر “15 اگست ۔ یوم آزادی پاکستانجو کہ پاکستان کے یوم آزادی کے بارے میں تھی صرف ڈان کی انگلش ویب سائٹ پر اپلوڈ ہوئی تھی اور جہاں تک مجھے پتہ ہے اردو ویب سائٹ پر اس تحریر کو اپلوڈ نہیں کیا گیا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈان جیسا معتبر ادارہ ایک تحریر کو اپنے انگلش ویب سائٹ پر تو اپلوڈ کر دیتا ہے لیکن اسی تحریر کو اردو میں اپلوڈ نہیں کرتا/کر سکتا (حالانکہ تحریر اردو میں لکھی گئی تھی)۔

حبیب یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں جب میں نے اختر بلوچ سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کسی صاحب (ان صاحب کا نام یاد نہیں آرہا) کا کہا ہوا جملہ دوہرایا کہ جس دن ڈان کا اردو اخبار نکلنا شروع ہوگا اس دن ڈان کے دفتر کو آگ لگے گی۔اس ساری تمہید کا مقصد زبان کی اہمیت کو بیان کرنا تھا۔ پاکستان میں بہت سے معاملات کے بارے میں انگلش میں آسانی سے تبصرہ کیا جا سکتا ہے لیکن انہی معاملات پر اردو میں بات کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔

مثال کے طور پر سیکولرازم، سقوط ڈھاکہ کی وجوہات، 65 کی جنگ کا سبب بننے والا آپریشن جبرالٹر اور دو قومی نظریہ چند ایسے معاملے ہیں جن پر انگریزی میں کافی بحث ہوتی ہیں لیکن اردو میں ان چیزوں پر بہت ہی کم لکھا جاتا ہے۔ میرے رائے میں اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔

پہلی وجہ مذہبی ہے جبکہ دوسری وجہ ریاستی۔ پاکستان میں اردو کی حیثیت ایک عوامی زبان کی ہے اور زیادہ تر لوگ اردو سمجھ سکتے ہیں جبکہ انگلش صرف ایک مخصوص طبقے کے لوگ سمجھ سکتے ہیں اور انگلش اخبار کے پڑھنے والے بھی تعداد میں اردو اخبار پڑھنے والوں سے کم ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر مذہبی حلقے اردو بولتے اور سمجھتے ہیں اور تبلیغ کیلئے بھی اردو کا استعمال کرتے ہیں۔

اس لئے ان میں سے بیشتر کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ انگلش میں کیا لکھا اور پڑھا جارہا ہے۔ مثلا نطشے کے گاڈ از ڈیڈ” والے جملے کو انگلش میں کہیں پر بھی بے خوف و خطر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اسی جملے کو اردو میں استعمال کرنے سے پہلے انسان کئی بار سوچے گا۔ اسی لئے مذہب کے بارے میں جتنے بھی بحث و مباحثے اردو میں ہوتے ہیں وہاں لوگ آزادی سے اپنے رائے کا اظہار نہیں کرتے۔

جہاں تک دوسری وجہ ہے تو اکثر ریاستی پالیسیوں پر انگلش میں تو بہت تنقید ہوتی ہیں لیکن جب انہی باتوں کو کہنے کیلئے اردو زبان استعمال کی جاتی ہے تو کہنے والوں کیلئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں جتنے بلاگرز لاپتہ ہوئے ہیں ان میں سے اکثر اردو میں اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ ان کے لاپتہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ بات نہایت ہی غیر معقول لگے لیکن انگلش اور اردو اخبارات کے طرز تحریر کو دیکھ کر اور انگلش اور اردو میں تجزیہ کرنے والوں کو سن کر تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں انگلش میں آپ کچھ بھی بول اور لکھ سکتے ہیں لیکن اردو میں بولنے اور لکھنے کیلئے بہت احتیاط کرنا پڑتا ہے۔

شاید اسی لئے پاکستان کی یوم آزادی کے بارے میں لکھی گئی اختر بلوچ صاحب کی تحریر صر ف انگلش میں ہی چھپ سکی نہیں تو وہ بھی شاید لاپتہ ہو جاتے یا پھر ڈان کے دفتر کو آگ لگ جاتی۔ اگر آپ بھی لاپتہ ہونے اور آگ لگنے سے بچنا چاہتے ہیں تو اردو بولنا اور سیکھنا ترک کیجئیے اسی میں آپ کی بھلائی ہیں۔

پس نوشت: میں بھی بہت جلد اردو میں لکھنا ترک کردوں گی۔ مہوش بلوچ

ایڈیٹر نوٹ:۔ ڈان اردو جب شروع ہوا تو ڈیلی ڈان کے اداریے اردو میں ترجمہ ہو کر شائع ہوتے تھے مگر کچھ عرصے بعد یہ پریکٹس بند کر دی گئی۔ میں ڈان اردو میں باقاعدگی سے لکھتا تھا مگر سولہ دسمبر 2014کے بعد ڈان اردو کے ایڈیٹر آزاد علمدار نے میرے مضمون کو یہ کہہ کر شائع نہیں کیا تھا کہ ہمیں سختی سے ہدایات آئی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان، فوجی عدالتوں اور آپریشن ضرب عضب پر کوئی تنقیدی تحریر شائع نہیں کرنی۔ جس کے بعد میں نے ڈان میں لکھنا چھوڑ دیا۔ اس دوران دوستوں کے مشورے سے نیا زمانہ کے نام سے اردوویب سائٹ شروع ۔ کی۔یہ بھی شکر ہے کہ ویب سائٹ امریکہ میں ہی رجسٹرڈ ہے اور یہاں سے ہی اپ لوڈ ہو رہی ہے وگرنہ پاکستان میں رہ کر یہ کام ناممکن تھا۔(محمد شعیب عادل)۔

Comments are closed.